18. باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں جب مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے منتشر ہو کر پسپا ہو گئے تو طلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے چمڑے کی ڈھال سے حفاظت کر رہے تھے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے تیرانداز تھے اور کمان خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے۔ اس دن انہوں نے دو یا تین کمانیں توڑ دی تھیں۔ مسلمانوں میں سے کوئی اگر تیر کا ترکش لیے گزرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے یہ تیر ابوطلحہ کے لیے یہیں رکھتے جاؤ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کو دیکھنے کے لیے سر اٹھا کر جھانکتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، سر مبارک اوپر نہ اٹھایئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ادھر سے کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میری گردن آپ سے پہلے ہے اور میں نے دیکھا کہ جنگ میں عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے ہیں کہ ان کی پنڈلیاں نظر آ رہی تھیں اور مشکیزے اپنی پیٹھوں پر لیے دوڑ رہی ہیں اور اس کا پانی زخمی مسلمانوں کو پلا رہی ہیں پھر (جب اس کا پانی ختم ہو جاتا ہے) تو واپس آتی ہیں اور مشک بھر کر پھر لے جاتی ہیں اور مسلمانوں کو پلاتی ہیں۔ اس دن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ تلوار گر گئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4064]
لما كان يوم أحد انهزم الناس عن النبي وأبو طلحة بين يدي النبي مجوب به عليه بحجفة له وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد القد يكسر يومئذ قوسين أو ثلاثا وكان الرجل يمر معه الجعبة من النبل فيقول انشرها لأبي طلحة
لما كان يوم أحد انهزم الناس عن النبي وأبو طلحة بين يدي النبي مجوب عليه بحجفة له وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد النزع كسر يومئذ قوسين أو ثلاثا وكان الرجل يمر معه بجعبة من النبل فيقول انثرها لأبي طلحة
لما كان يوم أحد انهزم ناس من الناس عن النبي وأبو طلحة بين يدي النبي مجوب عليه بحجفة قال وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد النزع وكسر يومئذ قوسين أو ثلاثا قال فكان الرجل يمر معه الجعبة من النبل فيقول انثرها لأبي طلحة قا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4064
حدیث حاشیہ: میدان جنگ میں خواتین اسلام کے کارنامے بھی رہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شدید ضرورت کے وقت خواتین اسلام کا گھروں سے باہرنکل کر کام کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ شرعی پردہ اختیار کئے ہوئے ہوں۔ جنگ میں ان کی پنڈلیوں کا نظر آنا یہ بدرجہ مجبوری تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4064
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4064
حدیث حاشیہ: 1۔ گزشتہ حدیث میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کا ذکر ہوا تھا اور وہ مہاجرین میں سے ہیں۔ اس حدیث میں حضرت طلحہ کا ذکر خیر ہے ان کا نام زید بن سہل ہے۔ حضرت انس ؓ کے سوتیلے باپ اور حضرت ام سلیم ؓ کے شوہر نامدار ہیں۔ 2۔ حدیث کے آخر میں ہے کہ غزوہ احد میں ان کے ہاتھ سے دو تین مرتبہ تلوار گری۔ اس روایت میں تلوار گرنے کا سبب ذکر نہیں ہوا لیکن صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عین جنگ کے وقت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر اونگھ ڈال دی تاکہ انھیں زخموں سے آرام ہو۔ اس اونگھ کی حالت میں ان کے ہاتھوں سے تلواریں گریں۔ ان حضرات میں حضرت ابو طلحہ ؓ بھی تھے جن کے ہاتھ سے تلوار گری۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4683۔ ) حضرت ابو طلحہ ؓ کا اپنا بیان ہے کہ مجھ پر اونگھ طاری ہو گئی اور کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے تلوار گری۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4088۔ ) مزید تفصیل آگے آئے گی۔ باذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4064
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4683
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُحد کے دن کچھ لوگوں نے شکست کھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال سے اوٹ کیے ہوئے تھے اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بہت سخت تیر انداز تھے۔ اور انہوں نے جنگ اُحد میں دو یا تین کمانیں توڑیں، کوئی آدمی گزرتا جس کے پاس تیروں کا ترکش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے، اسے ابوطلحہ کے آگے پھیلا دو اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4683]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مُجَوِّب عَلَيه: آپ کو اوٹ کیے ہوئے تھے، لوگوں سے بچائے ہوئے تھے۔ (2) شَدِيدُ النزع: زبردست تیز انداز تھے، بڑے زور سے تیر پھینکتے تھے۔ (3) الجَعبه: ترکش، جس میں تیر ہوتے ہیں۔ (4) انثُرها: ترکش سے تیر ابو طلحہ کے سامنے نکال کر رکھ دیجئے، تاکہ وہ ان کو دشمن پر چلا سکیں۔ (5) نحَرِي دُونَ نَحرِكَ: میرا سینہ آپ کے لیے ڈھال ہے، میں اپنے آپ کو آپ پر قربان کرتا ہوں، خدم، خدمة کی جمع ہے، (6) خلخال: پازیب۔ (7) سُوق: پنڈلی۔ فوائد ومسائل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ کے پازیب دیکھنے کا واقعہ جنگ احد کا ہے، اس وقت تک حجاب کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے، اس لیے عورتوں کو دیکھنا حرام نہیں تھا، نیز حضرت انس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے، آپ کے گھر آمدورفت ہر وقت رہتی تھی اور ام سلیم ان کی والدہ تھیں، اس لیے انہیں ان پر نظر جمانے کی ضرورت نہ تھی، اچانک ان کے پازیب پر نظر پڑ گئی، علاوہ ازیں حالت امن کو حالت جنگ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4683
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2902
2902. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ اپنا اور نبی کریم ﷺ کا تحفظ ایک ہی ڈھال سے کررہے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ ماہر تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر مارتے تو نبی کریم ﷺ سر مبارک اٹھا کر تیر گرنے کی جگہ دیکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2902]
حدیث حاشیہ: ایک ہی ڈھال سے دو مجاہدین کے بچاؤ کرنے کا جواز ثابت ہوا جیسا کہ حضرت ابو طلحہؓ کا عمل ہوا۔ آنحضرتﷺ ان کی نشانہ بازی کی کامیابی معلوم کرنے کے لئے نظر اٹھا کر دیکھتے کہ تیر کہاں جا کر گرا ہے‘ ان کی ہمت افزائی کے لئے بھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2902
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3811
3811. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب اُحد کی جنگ میں لوگ نبی ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو حضرت ابوطلحہ ؓ نبی ﷺ کے سامنے ڈھال بنے ہوئے تھے۔ آپ بڑے ماہر تیرانداز اور تجربہ کار کمان کش تھے۔ اس دن ان کے ہاتھوں دو یا تین کمانیں ٹوٹیں۔ جب کوئی تیروں سے بھرا ہوا ترکش لے کر ادھر آ نکلتا تو آپ ﷺ اسے فرماتے: ”یہ سب تیر طلحہ ؓ کے آگے ڈال دو۔“ ایک بار نبی ﷺ اپنا سر مبارک اٹھا کر کافروں کی طرف دیکھنے لگے تو حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ اپنا سر مبارک اوپر نہ اٹھائیں، مبادا کسی کا تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے موجود ہے۔ میں نے اس جنگ میں حضرت عائشہ بنت ابوبکر اور حضرت ام سلیم ؓ کو دیکھا کہ یہ دونوں اپنے دامن اٹھائے ہوئے تھیں اور میں ان کے پازیب دیکھ رہا تھا۔ یہ دونوں پانی کی مشکیں بھر کر اپنی پیٹھ پر لاتی تھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3811]
حدیث حاشیہ: یہ حضرت ابوطلحہ ؓ مشہور انصاری مجاہد ہیں جنہوں نے جنگ احد میں اس پامردی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ قیامت تک کے لیے ان کی یہ خدمت تاریخ اسلام میں فخریہ یادر کھی جائے گی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جنگ وجہاد کے موقعہ پر مستورات کی خدمات بڑی اہمیت رکھتی ہیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا اور کھانے کے لیے مجاہدین کی خبر لینا یہ خواتین اسلام کے مجاہدانہ کارنامے اوراق تاریخ پر سنہری حرفوں سے لکھے جائیں گے، مگر خواتین اسلام پورے حجاب شرعی کے ساتھ یہ خدمات انجام دیا کرتی تھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3811
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2902
2902. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ اپنا اور نبی کریم ﷺ کا تحفظ ایک ہی ڈھال سے کررہے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ ماہر تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر مارتے تو نبی کریم ﷺ سر مبارک اٹھا کر تیر گرنے کی جگہ دیکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2902]
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنگی ہتھیاروں ڈھال وغیرہ کا استعمال توکل کے منافی ہے۔ امام بخاری ؒ ان کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا کرنا توکل کے خلا ف نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ان آلات کو استعمال کیا گیا۔ اگرچہ احتیاط کرنا تقدیر کو رد نہیں کرسکتا، تاہم انسان کی طبیعت میں وساوس راہ پاتے ہیں اور احتیاط کرنے سے وسوسے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے ایک ہی ڈھال سے دو مجاہدین کا بچاؤ کرنے کا جواز ثابت ہوا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2902
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3811
3811. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب اُحد کی جنگ میں لوگ نبی ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو حضرت ابوطلحہ ؓ نبی ﷺ کے سامنے ڈھال بنے ہوئے تھے۔ آپ بڑے ماہر تیرانداز اور تجربہ کار کمان کش تھے۔ اس دن ان کے ہاتھوں دو یا تین کمانیں ٹوٹیں۔ جب کوئی تیروں سے بھرا ہوا ترکش لے کر ادھر آ نکلتا تو آپ ﷺ اسے فرماتے: ”یہ سب تیر طلحہ ؓ کے آگے ڈال دو۔“ ایک بار نبی ﷺ اپنا سر مبارک اٹھا کر کافروں کی طرف دیکھنے لگے تو حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ اپنا سر مبارک اوپر نہ اٹھائیں، مبادا کسی کا تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے موجود ہے۔ میں نے اس جنگ میں حضرت عائشہ بنت ابوبکر اور حضرت ام سلیم ؓ کو دیکھا کہ یہ دونوں اپنے دامن اٹھائے ہوئے تھیں اور میں ان کے پازیب دیکھ رہا تھا۔ یہ دونوں پانی کی مشکیں بھر کر اپنی پیٹھ پر لاتی تھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3811]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے غزوہ احد کے موقع پر بڑی بہادری اور پامردی سے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا اورآپ کی خدمت بجالائے۔ قیامت تک یہ خدمات یادرکھی جائیں گی۔ 2۔ اسلامی غزوات میں خواتین اسلام کی خدمات بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ چونکہ یہ موقع جنگ اور پریشانی کا تھا، ایسے حالات میں اگر عورت کی پنڈلیاں کھل جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں، نیز اس وقت ابھی پردے کے احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ خواتین اسلام ایسے حالات میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں اور پینے کے لیے پانی کا اہتمام کرتی تھیں، یہ کارنامے تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے ثبت ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3811