18. باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ میں، عبدالرحمٰن بن عوف، طلحہ بن عبیداللہ، مقداد بن اسود اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کی صحبت میں رہا ہوں لیکن میں نے ان حضرات میں سے کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ صرف طلحہ رضی اللہ عنہ سے غزوہ احد کے متعلق حدیث سنی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4062]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4062
حدیث حاشیہ: سائب بن یزید کا بیان ان کی اپنی مصاحبت تک ہے ورنہ کتب احادیث میں ان حضرات سے بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ جملہ صحابی کرام رسول کریم ﷺ سے احادیث بیان کرنے میں کمال احتیا ط برتتے تھے۔ اس خوف سے کہ کہیں غلط بیانی کے مرتکب ہو کر زندہ دوزخی نہ بن جائیں کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا جو شخص میرا نام لے کر ایسی حدیث بیان کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ زندہ دوزخی ہے۔ پس اس سے منکرین حدیث کا استدلال باطل ہے۔ روایت میں غزوئہ احد کا ذکر ہے۔ باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔ قرآن مجید کے بعد صحیح مرفوع مستند حدیث کا تسلیم کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض ہے جو شخص صحیح حدیث کا انکار کرے وہ قرآن ہی کا انکار ی ہے اور یہ کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4062
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4062
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث میں "بعض ایام"سے مراد احد کی جنگ ہےمہاجرین میں سے اکابر حضرات غزوات میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کےہمرا ہ ہوا کرتے تھےلیکن غزوہ احد میں اس قدر گھمسان کا رن پڑا کہ حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعد ؓ کے علاوہ کوئی دوسرا مہاجر آپ کے ساتھ نہ رہا۔ گزشتہ حدیث کے مطابق حضرت مقداد ؓ ایسے کٹھن حالات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ موجود تھے لیکن وہ سخت حالات کے بعد حاضر ہوئے تھے۔ حدیث میں ان دونوں حضرات کی تخصیص مہاجرین کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ احد میں ایک مرتبہ ایسے حالات سے دوچار ہوئے کہ آپ کے ہمراہ سات انصار اور دو قریشی تھے۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 4641۔ (1789) دو قریشی حضرات سے مراد حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعد ؓ ہیں مہاجرین میں سے صرف حضرت طلحہ اور حضرت سعد آپ کے ہمراہ تھے۔ 2دوسری حدیث کے مطابق ان حضرات کے حدیث بیان نہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ انھیں سہو و نسیان کا اندیشہ لاحق تھا کہ شاید ان سے غلطی ہو جائے۔ اس بنا پر وہ احادیث بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے نیز مذکورہ بیان حضرت سائب بن یزید ؓ کی اپنی مصاحبت تک ہے ورنہ کتب حدیث میں ان حضرات سے بھی بہت سی احادیث مروی ہیں البتہ یہ حضرات احتیاط ضرور کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4062