18. باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میری ہمت افزائی کے لیے) اپنے والد اور والدہ دونوں کو جمع فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4056]
أول العرب رمى بسهم في سبيل الله ما لنا طعام إلا ورق الشجر حتى إن أحدنا ليضع كما يضع البعير أو الشاة ما له خلط ثم أصبحت بنو أسد تعزرني على الإسلام لقد خبت إذا وضل عملي
أول رجل من العرب رمى بسهم في سبيل الله ا لنا طعام نأكله إلا ورق الحبلة وهذا السمر حتى إن أحدنا ليضع كما تضع الشاة ثم أصبحت بنو أسد تعزرني على الدين لقد خبت إذا وضل عملي ولم يقل ابن نمير إذا
أنا أول من رمى بسهم في سبيل الله، ولقد رأيتني مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سابع سبعة وما لنا طعام إلا الحبلة وورق السمر حتى لقد قرحت أشداقنا حتى إن كان أحدنا ليضع مثل ما تضع الشاة ما له خلط، ثم أصبحت بنو أسد تعزرني على الدين لقد ضللت إذا وخاب عملي
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:78
78- سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں وہ پہلا شخص ہوں، جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا تھا، اور مجھے اپنے بارے میں یہ بات یاد ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والا ساتواں فرد تھا۔ اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لیے صرف پتے وغیرہ ہوتے تھے، جس سے ہماری باچھیں چھل جایا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی شخص یوں پاخانہ کرتا تھا جس طرح بکری مینگنیاں کرتی ہے۔ اس میں کوئی چیز ملی ہوئی نہیں ہوتی تھی۔ (یعنی وہ بالکل خشک ہوتا تھا)۔ اب ”بنواسد“ دینی معاملات میں مجھ پر تنقید کرتے ہیں اگر ایسا ہو، تو میں، تو گمراہ ہوگیا اور میرا عمل ضائع ہوگیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:78]
فائدہ: اس میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے ابتدائی حالات بیان کیے ہیں کہ ہم نے پہلے دور میں کس قدر تکالیف کا سامنا کیا ہے۔ بوقت ضرورت (خصوصاً جب کوئی انسان ذلیل کرنے کی کوشش کر رہا ہو) اپنے خیر کے کام بتانا درست ہے، اس میں ریا کاری یا فخر مقصود نہیں ہونا چاہیے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ ساتویں نمبر پر مسلمان ہوئے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 78
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6237
عامر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،کہ جنگ اُحد کےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک ساتھ اپنے ماں باپ کا نام لیا۔مشرکوں میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے کہا: "تیر چلا ؤ تم پرمیرے ماں باپ فداہوں!"حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے اس کے لیے (ترکش سے) ایک تیر کھینچا،اس کے پرَہی نہیں تھے۔میں نے وہ اس کے پہلو میں مارا تو وہ گر گیا اور اس کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6237]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: احرق المسلمين: اس نے مسلمانوں کو بھون ڈالا، ان کا قتل عام کیا اس لیے جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کا نشانہ لے کر، اس کو تیر مارا اور وہ چاروں شانے چت گر گیا تو آپ اس کے قتل و ذلت سے خوش ہو کر ہنس دئیے، اس کی شرم گاہ کے کھل جانے پر نہیں، سب کے سامنے رسوا ہونے پر خوش ہوئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6237
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4055
4055. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے اُحد کی جنگ میں میرے لیے اپنے ترکش سے تمام تیر نکال کر رکھ دیے اور فرمایا: ”ان پر تیروں کی بارش کرو، میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4055]
حدیث حاشیہ: سعد ؓ بڑے تیر انداز تھے۔ جنگ احد میں کافر چڑھے چلے آرہے تھے۔ انہوں نے ایسے تیر مارے کہ ایک کافر بھی آنحضرت ﷺ کے پاس نہ آسکا۔ کہتے ہیں کہ تیر بھی ختم ہو گئے اورایک کافر بالکل قریب آن پہنچاتو ایک تیر جس میں نری لکڑی تھی رہ گیا تھا۔ آپ نے سعد ؓ سے فرمایا یہی تیر مارو۔ سعد ؓ نے مارا اور وہ اس کافر کے جسم میں گھس گیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے یہ دعا فرمائی جو روایت میں مذکور ہے جس میں انتہائی ہمت افزائی ہے۔ (صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4055
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3725
3725. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: احد کے دن نبی کریم ﷺ نے میرے لیے اپنے ماں باپ دونوں جمع کردیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3725]
حدیث حاشیہ: ایک حدیث میں کے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ترکش سے تمام تیر نکال کر ان کے سامنے بکھیر دیے۔ اور فرمایا: ”تم تیراندازی کرو۔ تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ “(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4055) حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے علاوہ کسی اور صحابی کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع نہیں کیا۔ (فتح الباري: 107/7) حالانکہ اس سے پہلے ایک حدیث میں بیان کیا ہوا ہے کہ یہ اعزاز حضرت زبیر بن عوام ؓ کو بھی حاصل ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ شاید حضرت علی ؓ کو اس بات کا علم نہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر کے لیے بھی ایسا ہی فرمایا تھا یا احد کے دن حضرت سعد کے علاوہ یہ اعزاز کسی اور کو نہ ملا ہو۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4055)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3725
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3728
3728. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں عرب کا پہلا آدمی ہوں جس نے سب سے پہلے اللہ کی راہ میں تیراندازی کی، ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ جہاد میں جاتے اور ہمارے پاس درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کے لیے اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ اس خوراک سے ہمیں اونٹوں اور بکریوں کی طرح اجابت ہوتی تھی۔ اس میں کوئی اور چیز مخلوظ نہ ہوتی۔ لیکن اب بنواسد کا یہ حال ہے کہ وہ اسلام کے احکام پر عمل کرنے میں میرے اندر عیب نکالتے ہیں۔ اس صورت میں تو میں نامراد اور ناکام رہا، نیز میرےسب کام برباد ہوگئے۔ بنو اسد نے حضرت عمر ؓ سے ان کےمتعلق چغلی کی تھی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3728]
حدیث حاشیہ: 1۔ بنو اسد کے لوگ میرے متعلق حضرت عمر ؓ سے شکایت کرتے ہیں کہ اسے تو نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھنا آتی۔ حالانکہ میں تو قدیم الاسلام ہوں۔ اگر مجھے اب ان سے نماز سیکھنے کی ضرورت ہے تو میری سابقہ زندگی کے تمام اعمال برباد ہوگئے۔ حضرت سعد بن وقاص ؓ اپنی پہلی زندگی کے حالات بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت مسلمان ہوا جب مسلمانوں کو کھانے پینے کے لیے درخت کے پتوں کے سوا اور کچھ نہیں ملتا تھا۔ ایسے حالات میں قضائے حاجت کے وقت خشک پاخانہ آتا۔ کیونکہ درختوں کے پتے کھانے سے اونٹوں اور بکریوں کی طرح خشک پاخانہ ہی آتا ہے۔ بہر حال حضرت سعد بن وقاص ؓ اپنا قدیم الاسلام ہونا بیان کرتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ میرے متعلق قبیلہ بنو اسد کی شکایات مبنی برحقیقت نہیں ہیں 3۔ حضرت سعد بن وقاص مدینہ طیبہ سے دس میل دورمقام تحقیق میں فوت ہوئے۔ وہاں سے آپ کو مدینہ طیبہ لایا گیا۔ اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کی تاریخ وفات محرم 55ھ بمطابق دسمبر674ءہے۔ آپ نے تراسی سال کی عمر پائی۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3728