ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند)، امام بخاری نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن کعب نے جب وہ نابینا ہو گئے تو وہ چلتے پھرتے وقت ان کو پکڑ کر لے چلتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کا طویل واقعہ بیان کرتے تھے ابن بکیر نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ کعب نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عقبہ کی رات میں حاضر تھا جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا پختہ عہد کیا تھا، میرے نزدیک (لیلۃالعقبہ کی بیعت) بدر کی لڑائی میں حاضری سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے اگرچہ لوگوں میں بدر کا چرچہ اس سے زیادہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3889]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3889
حدیث حاشیہ: جنگ بدر پہلی جنگ ہے جو مسلمانوں نے کافروں سے کی، اس میں کافروں کے بڑے بڑے سردار قتل ہوئے۔ لیلۃ العقبہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ یہ وہ رات تھی جس میں انصار نے آنحضرت ﷺ کی رفاقت کا قطعی عہد کیا تھا اور آپ نے انصار کے بارہ نقیب مقرر فرمائے تھے۔ یہ ایک تاریخی رات تھی جس میں قوت اسلام کی بنا قائم ہوئی اور آنحضرت ﷺ کو دلی سکون حاصل ہوا اسی لئے کعب ؓ نے اس میں شریک ہونا جنگ بدر میں شریک ہونے سے بھی بہتر سمجھا۔ حدیث میں عقبہ کا ذکر ہے۔ عقبہ گھاٹی کو کہتے ہیں یہ گھاٹی مقام الحرا اور منیٰ کے درمیان طول طویل پہاڑوں کے درمیان تھی، اسی جگہ مدینہ کے بارہ اشخاص نے12نبوت میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کیا اورمسلمان ہوئے، یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔ ان لوگوں کی تعلیم کے لئے آنحضرت ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو ان کے ساتھ مدینہ بھیج دیا تھا جو بڑے ہی امیر گھرانے کے لاڈلے بیٹے تھے۔ مگر اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے دنیا وی عیش وآرام سب بھلادیا، مدینہ میں انہوں نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ یہ وہاں اسعد بن زرارہ کے گھر ٹھہرے تھے۔ اگلے سال 13نبوت میں73 مرد اور دو عورتیں یثرب سے چل کر مکہ آئے اور اسی گھاٹی میں ان کو دربار رسالت میں شرف باریابی حاصل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنے نورانی وعظ سے منور فرمایا اور ان لوگو ں نے آنحضرت ﷺسے مدینہ تشریف لانے کی درخواست کی۔ آپ نے اس درخواست کو قبول فرمایا جسے سن کر یہ سب بے حد خوش ہوئے اور آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ براء بن معرور ؓ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے اس رات سب سے پہلے بیعت کی تھی، یہی بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔ ان حضرات میں سے آنحضرت ﷺ نے بارہ اشخاص کو نقیب مقرر فرمایا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم ؑ نے اپنے لئے بار ہ نقیب مقرر کئے تھے آنحضرت ﷺ کے بارہ نقیبوں کے اسماء گرامی یہ ہیں۔ (1) اسعد بن زرارہ (2) رافع بن مالک (3) عبادہ بن صامت (4) سعد بن ربیع (5) منذربن عمرو (6) عبد اللہ بن رواحہ (7) براء بن معرور (8) عمروبن حرم (9) سعد بن عبادہ ان سب کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا (10) اسید بن حضیر (11) سعد بن خیثمہ (12) ابو الہشیم بن تیہان یہ تینوں قبیلہ اوس سے تھے، رضی اللہ عنھم أجمعین۔ یا اللہ قیامت کے دن ان سب بزرگوں کے ساتھ ہم گنہگاروں کابھی حشر فرما۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3889
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3889
حدیث حاشیہ: 1۔ عقبہ منی میں ایک گھاٹی کا نام ہے۔ رسول اللہ ﷺ ایام حج کے دوران منی میں مختلف قبائل سے ملتے اور انھیں دعوت اسلام دیتے تھے ایک دفعہ عقبہ کے پاس قبیلہ خزرج کے چند لوگوں ملاقات کی۔ انھیں اسلام کی دعوت دی جسے انھوں نے قبول کرلیا۔ دوسرے سال انصار کے بارہ آدمی آئے۔ ان میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ بھی تھے۔ وہ بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عقبہ کے مقام پر حاضر ہوئے اور آپ کی بیعت کی۔ اسے اصطلاح عام میں بیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے۔ اگلے سال ستر آدمی حج کے لیے آئے۔ ان سے رسول اللہ ﷺ نے عقبہ میں ملاقات کرنے کا وعدہ فرمایا: جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور وہاں انھوں نے آپ سے بیعت کی۔ اسے بیعت عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے وہاں آپ نے ہر چھوٹے قبیلے کا ایک نقیب مقرر فرمایا: 2۔ حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ اگرچہ اسلام کی نشرو اشاعت میں غزوہ بدر کی بڑی شہرت ہے لیکن میرے نزدیک بیعت عقبہ کی زیادہ افضیلت ہے کیونکہ عقبہ ہی اسلام کی ترقی کا باعث ہے اور اس وجہ سے اسلام کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوئی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3889