الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
37. بَابُ هِجْرَةِ الْحَبَشَةِ:
37. باب: مسلمانوں کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: Q3872
وَقَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ , فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ وَرَجَعَ عَامَّةُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ إِلَى الْمَدِينَةِ". فِيهِ عَنْ أَبِي مُوسَى , وَأَسْمَاءَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ (خواب میں) دکھائی گئی ہے، وہاں کھجوروں کے باغ بہت ہیں وہ جگہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ جنہوں نے ہجرت کر لی تھی وہ مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے بلکہ جو مسلمان حبشہ ہجرت کر گئے تھے وہ بھی مدینہ واپس چلے آئے۔ اس بارے میں ابوموسیٰ اور اسماء بنت عمیس کی روایات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: Q3872]
حدیث نمبر: 3872
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، أَخْبَرَهُ , أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ , وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، قَالَا لَهُ:" مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُكَلِّمَ خَالَكَ عُثْمَانَ فِي أَخِيهِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ وَكَانَ أَكْثَرَ النَّاسُ فِيمَا فَعَلَ بِهِ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَانْتَصَبْتُ لِعُثْمَانَ حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقُلْتُ: لَهُ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَهِيَ نَصِيحَةٌ، فَقَالَ: أَيُّهَا الْمَرْءُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ , فَانْصَرَفْتُ فَلَمَّا قَضَيْتُ الصَّلَاةَ جَلَسْتُ إِلَى الْمِسْوَرِ وَإِلَى ابْنِ عَبْدِ يَغُوثَ فَحَدَّثْتُهُمَا بِالَّذِي قُلْتُ لِعُثْمَانَ وَقَالَ لِي , فَقَالَا: قَدْ قَضَيْتَ الَّذِي كَانَ عَلَيْكَ , فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَهُمَا إِذْ جَاءَنِي رَسُولُ عُثْمَانَ، فَقَالَا لِي: قَدِ ابْتَلَاكَ اللَّهُ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَا نَصِيحَتُكَ الَّتِي ذَكَرْتَ آنِفًا، قَالَ: فَتَشَهَّدْتُ، ثُمَّ قُلْتُ: إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ , وَكُنْتَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَآمَنْتَ بِهِ وَهَاجَرْتَ الْهِجْرَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ , وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتَ هَدْيَهُ , وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ فَحَقٌّ عَلَيْكَ أَنْ تُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدَّ، فَقَالَ لِي: يَا ابْنَ أَخِي أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا وَلَكِنْ قَدْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ مَا خَلَصَ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا، قَالَ: فَتَشَهَّدَ عُثْمَانُ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ , وَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآمَنْتُ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَمَا قُلْتَ , وَصَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ وَبَايَعْتُهُ وَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ , ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ , ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ , ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ , أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ عَلَيَّ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَمَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تَبْلُغُنِي عَنْكُمْ؟ فَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ شَأْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ , فَسَنَأْخُذُ فِيهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ , قَالَ: فَجَلَدَ الْوَلِيدَ أَرْبَعِينَ جَلْدَةً , وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَجْلِدَهُ , وَكَانَ هُوَ يَجْلِدُهُ"، وَقَالَ يُونُسُ , وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ: أَفَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمْ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي كَانَ لَهُمْ؟ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ مَا ابْتُلِيتُمْ بِهِ مِنْ شِدَّةٍ , وَفِي مَوْضِعٍ الْبَلَاءُ الِابْتِلَاءُ وَالتَّمْحِيصُ مَنْ بَلَوْتُهُ , وَمَحَّصْتُهُ أَيْ: اسْتَخْرَجْتُ مَا عِنْدَهُ يَبْلُو يَخْتَبِرُ مُبْتَلِيكُمْ مُخْتَبِرُكُمْ , وَأَمَّا قَوْلُهُ بَلَاءٌ عَظِيمٌ: النِّعَمُ وَهِيَ مِنْ أَبْلَيْتُهُ وَتِلْكَ مِنَ ابْتَلَيْتُهُ.
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ ہم سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث ان دونوں نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے کہا کہ تم اپنے ماموں (امیرالمؤمنین) عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے بھائی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے باب میں گفتگو کیوں نہیں کرتے (ہوا یہ تھا کہ لوگوں نے اس پر بہت اعتراض کیا تھا جو عثمان نے ولید کے ساتھ کیا تھا)۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے نکلے تو میں ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، آپ کو ایک خیر خواہانہ مشورہ دینا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بھلے آدمی! تم سے تو میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ یہ سن کر میں وہاں سے واپس چلا آیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں مسور بن مخرمہ اور ابن عبدیغوث کی خدمت میں حاضر ہوا اور عثمان رضی اللہ عنہ سے جو کچھ میں نے کہا تھا اور انہوں نے اس کا جواب مجھے جو دیا تھا، سب میں نے بیان کر دیا۔ ان لوگوں نے کہا تم نے اپنا حق ادا کر دیا۔ ابھی میں اس مجلس میں بیٹھا تھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا آدمی میرے پاس (بلانے کے لیے) آیا۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا تمہیں اللہ تعالیٰ نے امتحان میں ڈالا ہے۔ آخر میں وہاں سے چلا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے دریافت کیا تم ابھی جس خیر خواہی کا ذکر کر رہے تھے وہ کیا تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے کہا اللہ گواہ ہے پھر میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی، آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا تھا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے دو ہجرتیں کیں (ایک حبشہ کو اور دوسری مدینہ کو) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو دیکھا ہے۔ بات یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں لوگوں میں اب بہت چرچا ہونے لگا ہے۔ اس لیے آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس پر (شراب نوشی کی) حد قائم کریں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بھتیجے یا میرے بھانجے کیا تم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی باتیں اس طرح میں نے حاصل کی تھیں جو ایک کنواری لڑکی کو بھی اپنے پردے میں معلوم ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سن کر پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کو گواہ کر کے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر اپنی کتاب نازل کی تھی اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر (ابتداء ہی میں) لبیک کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے تھے میں اس پر ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت بھی کی۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتحب ہوئے۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ ان کے کسی معاملہ میں کوئی خیانت کی۔ ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے میں نے ان کی بھی کبھی نافرمانی نہیں کی اور نہ کبھی خیانت کی۔ اس کے بعد میں خلیفہ ہوا۔ کیا اب میرا تم لوگوں پر وہی حق نہیں ہے جو ان کا مجھ پر تھا؟ عبیداللہ نے عرض کیا یقیناً آپ کا حق ہے پھر انہوں نے کہا پھر ان باتوں کی کیا حقیقت ہے جو تم لوگوں کی طرف سے پہنچ رہی ہیں؟ جہاں تک تم نے ولید بن عقبہ کے بارے میں ذکر کیا ہے تو ہم ان شاءاللہ اس معاملے میں اس کی گرفت حق کے ساتھ کریں گے۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر (گواہی کے بعد) ولید بن عقبہ کو چالیس کوڑے لگوائے گئے اور علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کوڑے لگائیں۔ علی رضی اللہ عنہ ہی نے اس کو کوڑے مارے تھے۔ اس حدیث کو یونس اور زہری کے بھتیجے نے بھی زہری سے روایت کیا اس میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قول اس طرح بیان کیا، کیا تم لوگوں پر میرا وہی حق نہیں ہے جو ان لوگوں کا تم پر تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3872]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريبعث محمدا بالحق وكنت ممن استجاب لله ولرسوله وآمن بما بعث به محمد هاجرت هجرتين نلت صهر رسول الله بايعته فوالله ما عصيته ولا غششته حتى توفاه الله
   صحيح البخاريبعث محمدا بالحق وأنزل عليه الكتاب وكنت ممن استجاب لله ورسوله وآمنت بما بعث به محمد هاجرت الهجرتين الأوليين صحبت رسول الله وبايعته والله ما عصيته ولا غششته حتى توفاه الله استخلف الله أبا بكر فوالله ما عصيته ولا غششته استخلف عمر فوالله ما عصيته ولا غششته

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3872 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3872  
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان غنی ؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر کے ولید کوان کی جگہ مقرر کیا تھا ولید نے وہاں کئی بے اعتدالیا ں کی۔
شراب کے نشہ میں نماز پڑھا نے کھڑے ہوگئے۔
حضرت عثمان ؓ نے اس کو سزا دینے میں دیر کی۔
لوگوں کو یہ ناگوار ہوا تو انہوں نے عبید اللہ بن عدی سے جو حضرت عثمان کے بھانجے اور آپ کے مقرب تھے اس مقدمہ میں حضرت عثمان ؓ سے گفتگو کرنے کے لئے کہا۔
حضرت عثمان ؓ شروع میں یہ سمجھے کہ شاید عبید اللہ کوئی خدمت یا روپے کا طلب گار ہواور مجھ سے وہ نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہو اور مفت میں خرابی پھیلے۔
بعد میں جب حضرت عثمان ؓ نے واقعہ کو سمجھا تو عبید اللہ کو بلاکر گفتگو کی جو روایت میں مذکور ہے۔
عبید اللہ نے حضرت عثمان کو بتلایا کہ میں محض آپ کی خیر خواہی میں یہ باتیں کہہ رہا ہوں بعد میں حضرت عثمان نے ولید کو حضرت علی ؓ کے ہاتھوں سے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔
باب کا مطلب ہجرت حبشہ سے نکلتا ہے گو حبش کے ملک کی طر ف دوبارہ ہجرت ہوئی تھی جیسے امام احمد اورابن اسحاق وغیر ہ نے نکالا ابن مسعود ؓ سے کہ پہلے آنحضرت ﷺ نے ہم لوگوں کو جو اسّی (80)
آدمیوں کے قریب تھے نجاشی کے ملک میں بھیج دیا پھر ان کو یہ خبر ملی کہ مشرکوں نے سورۃ نجم میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ سجدہ کیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔
یہ خبر سن کر وہ مکہ لوٹ آئے وہا ں پہلے سے بھی زیاہ مشرکوں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھانے لگے آخر دوبارہ ہجرت کی اس وقت تک اسی مرد اور اٹھارہ عورتیں تھیں مگر حضرت عثمان ؓ نے دوبارہ یہ ہجرت نہیں کی اس لئے پہلی دو ہجرتوں سے حبش اور مدینہ کی ہجر ت مراد ہے حالانکہ مدینہ کی ہجرت دوسری ہجرت تھی مگر دونوں کو تغلیباً اولیین کہہ دیا جیسے شمسین، قمرین کہتے ہیں۔
تیسیر القاری کے مؤلف نے غلطی کی جو کہا حضرت عثمان ؓ نے حبش کو ہجرت نہیں کی تھی حضرت عثمان ؓ تو سب سے پہلے اپنی بی بی حضرت رقیہ ؓ کو لے کر حبش کی طرف نکلے اور شاید یہ طبع کی غلطی ہو، مؤلف کی عبارت یوں ہوکہ عثمان ؓ نے دوبارہ ہجرت نہیں کی تھی (وحیدی)
دوسری روایت میں اسی کوڑوں کا ذکر ہے یہ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ جب اسی کوڑے پڑے تو چالیس بطریق اولیٰ پڑگئے یا اس کوڑے کے دہرے ہوں گے تو چالیس ماروں کے بس اسی کوڑے ہوگئے۔
ولید کی شراب نوشی کی شہادت دینے والے حمران اور صعب تھے۔
یونس کی روایت کو خود امام بخاری ؒ نے منا قب عثمان ؓ میں وصل کیا ہے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عبد البر نے تمہید میں وصل کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3872   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3872  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ہجرت حبشہ کو ثابت کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حبشے کی طرف پہلی ہجرت میں شمولیت کی اور ان کے ہمراہ ان کی بیوی حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں۔
رسول اللہ ﷺ کو ان کی خبر میں دیر ہوئی تو آپ بہت پریشان ہوئے۔
آخر کار ایک عورت حبشے سے آئی، اس نے بتایا کہ میں نے ان دونوں کو وہاں دیکھا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ ان کا ساتھی ہے۔
حضرت لوط ؑ کے بعد حضرت عثمان ؓ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ہجرت کی ہے۔

امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کرنے میں یہی نکتہ پیش نظر رکھا ہے، لیکن حبشے کی دوسری ہجرت میں حضرت عثمان ؓ شامل نہیں ہوئے، اس لیے حدیث میں پہلی دوہجرتوں سے مراد حبشہ اور مدینہ طیبہ کی ہجرت ہے۔
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم پہلے ذکر کرآئے ہیں اور کچھ کتاب الحدود میں ذکر کریں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3872   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3927  
3927. حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے خطبہ پڑھنے کے بعد فرمایا: امابعد بےشک اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیك کہا اور جو شریعت محمد ﷺ لے کر آئے تھے اس پر ایمان لائے، پھر میں نے دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل کیا۔ آپ کی بیعت کی۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کی اور نہ آپ سے خیانت ہی کا مرتکب ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو فوت کر لیا۔ اسحاق کلبی نے اس حدیث کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3927]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار ؓ حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں ولید بن عقبہ کی شکایت لے کر پہنچے تھے کہ وہ شراب نوشی کرتا ہے اور اس کے متعلق لوگ بہت چہ میگوئیاں کرتے ہیں۔
اس کی تفصیل حدیث3696۔
میں گزر چکی ہے۔

اس مقام پر مقصد یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا:
میں نے دو ہجرتیں کی ہیں۔
ایک ہجرت مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور ان کے ساتھ ان کی بیوی حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ بھی تھیں پھر وہاں سے واپس مکہ آئے۔
دوسری ہجرت مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف۔
اس وقت بھی رفیقہ حیات حضرت رقیہ ؓ آپ کے ہمراہ تھیں اس لیے کہا گیا کہ آپ نے دو ہجرتیں کی ہیں۔

واضح رہے کہ حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ کو حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع ؓ مدینہ طیبہ لے کر آئے تھے۔
حضرت زینب ؓ اپنے خاوند ابو العاص ؓ کے پاس کچھ عرصہ مکہ مکرمہ میں ٹھہریں۔
(فتح الباري: 329/7، 330)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3927