الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
26. بَابُ أَيَّامِ الْجَاهِلِيَّةِ:
26. باب: جاہلیت کے زمانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3834
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ، يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ، فَقَالَ: مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ، قَالُوا: حَجَّتْ مُصْمِتَةً، قَالَ: لَهَا تَكَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ , هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ , فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ، قَالَتْ: أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ؟ قَالَ: مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَتْ: مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ؟ قَالَ: إِنَّكِ لَسَئُولٌ , أَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ، قَالَتْ: وَمَا الْأَئِمَّةُ؟ قَالَ: أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اجی بات کرو اس طرح حج کرنا تو جاہلیت کی رسم ہے، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو، میں ابوبکر ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطا فرمایا ہے اس پر ہم (مسلمان) کب تک قائم رہ سکیں گے؟ آپ نے فرمایا اس پر تمہارا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہارے امام حاکم سیدھے رہیں گے۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3834]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3834 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3834  
حدیث حاشیہ:
اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے اس عورت نے کہا ہم میں اور ہماری قوم میں جاہلیت کے زمانہ میں کچھ فساد ہوا تھا تومیں نے قسم کھا ئی تھی کہ اگر اللہ نے مجھ کو اس سے بچادیا تو میں جب تک حج نہ کرلوں گی کسی سے بات نہیں کروں گی۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا اسلام ان باتوں کو مٹا دیتا ہے تم بات کرو۔
حافظ نے کہا حضرت ابو بکر ؓ کے اس قول سے یہ نکلا کہ ایسی غلط قسم کا توڑ دینا مستحب ہے۔
حدیث ابو اسرائیل بھی ایسی ہے جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی منت مانی تھی۔
آنحضرت ﷺ نے اس کو سواری پر چلنے کا حکم فرمایا اور اس منت کو توڑ وا دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3834   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3834  
حدیث حاشیہ:

وہ عورت بڑی صاحب بصیرت اور عقلمند تھی۔
اسے پتہ تھا کہ وہ کثرت کلام کی عادی ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر ؓ نے اس کے طرز عمل پر تبصرہ فرمایا تھا، اس نے نذر مانی کہ خاموشی سے حج کرے گی اور یہ التزام اس کے لیے بہتر ہے۔
چونکہ یہ عمل شریعت میں جائز نہ تھا کیونکہ یہ دور جاہلیت کی یاد ہے کہ چپ کا روزہ رکھ کر حج کرتے تھے جیسا کہ کتب حدیث میں ابو اسرائیل کا واقعہ ہے جس نے نذرمانی تھی کہ وہ خاموش رہ کر حج کرے گا اور سواری سایہ دار چیز استعمال نہیں کرے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے منع فرما دیا۔
اسی طرح حضرت ابو بکر ؓ نے بھی جاہلیت پر مبنی ایک امر کو ختم کرنے کا حکم دیا۔

حدیث میں امر صالح سے مراد اسلام ہے اور آئمہ کی بقا سے مراد یہ ہے کہ ان کی استقامت سے حدود قائم ہوں لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں اور ہر چیز مناسب مقام پر ہو بہر حال جب تک قوم کے سردار اور حکمران دین اسلام پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں گے تو دین اسلام باقی رہے گا بصورت دیگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا جیسا کہ آج اسلامی دنیا کا حال ہے کہ ان میں دین حق بے کس و بے سہارا ہے۔
اسلامی ممالک کے حکمران فروغ اسلام میں دلچسپی نہیں رکھتے صرف ایک سعودی حکومت ہے جسے ان حالات میں اسلام کی نشرو اشاعت کا خیال ہے اور اس میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ تادیر اسے قائم رکھے آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3834