مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا (یوں بیان کیا کہ) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار جس وادی یا گھاٹی میں جائیں تو میں بھی انہیں کی وادی میں جاؤں گا۔ اور اگر میں ہجرت نہ کرتا تو میں انصار کا ایک فرد ہونا پسند کرتا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ نے یہ کوئی ظلم والی بات نہیں فرمائی آپ کو انصار نے اپنے یہاں ٹھہرایا اور آپ کی مدد کی تھی یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (اس کے ہم معنی) اور کوئی دوسرا کلمہ کہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3779]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3779
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ انصار کا درجہ بہت بڑا ہے کہ رسول کریمﷺنے اس گروہ میں ہونے کی تمنا ظاہر فرمائی انصار کی عند اللہ قبولیت کا یہ کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اسلام اور قرآن کے ساتھ ان کانام قیامت تک خیر کے ساتھ زندہ ہے۔ آج بھی انصاری بھائی جہاں بھی ہیں دینی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3779
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3779
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے مقصود انصار کی فضیلت بیان کرنا ہے کہ انصار ایسے مقام عظیم کو پہنچے ہیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ مہاجرین میں سے نہ ہوتے تو آپ خود کو انصار سے شمار کرتے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر آپ کو ہجرت کے باعث انصار پر فضیلت نہ ہوتی تو آپ کا شمار انصار میں سے ہوتا۔ 2۔ یہ بھی احتمال ہے کہ انصار رسول اللہﷺ کے ماموں تھے اس نسبی تعلق کی بنا پر آپ نے فرمایا کہ اگر ہجرت رکاوٹ نہ ہوتی تو میں خود کو انصار کی طرف منسوب کرتا۔ رسول اللہ ﷺ کی تواضع اور انکسارہے اور لوگوں کو انصار کی عزت افزائی کرنے کی طرف ترغیب دینا ہے تاکہ وہ ان کا احترام بجا لائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3779