ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے موقع پر مجھے اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو عورتوں میں چھوڑ دیا گیا تھا (کیونکہ یہ دونوں حضرات بچے تھے) میں نے اچانک دیکھا کہ زبیر رضی اللہ عنہ (آپ کے والد) اپنے گھوڑے پر سوار بنی قریظہ (یہودیوں کے ایک قبیلہ کی) طرف آ جا رہے ہیں۔ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا، پھر جب میں وہاں سے واپس آیا تو میں نے عرض کیا، ابا جان! میں نے آپ کو کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھا۔ انہوں نے کہا: بیٹے! کیا واقعی تم نے بھی دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو بنو قریظہ کی طرف جا کر ان کی (نقل و حرکت کے متعلق) اطلاع میرے پاس لا سکے۔ اس پر میں وہاں گیا اور جب میں (خبر لے کر) واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرط مسرت میں) اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کر کے فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3720]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3720
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت زبیر ؓ کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا: ”میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ “ غزو ہ اُحد کے موقع پر یہی اعزاز حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو حاصل ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماں باپ جمع کرکے ان کے متعلق فرمایا: ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔ “ جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے مناقب میں بیان ہوگا۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم۔ حدیث: 3725) 2۔ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت ابن زبیر ؓ کی عمر زیادہ سے زیادہ تین سال اور چند ماہ تھی۔ اس عمر میں واقعات کو یاد رکھنا حافظہ قوی ہونے کی عجیب وغریب مثال ہے۔ (فتح الباري: 104/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3720