الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
13. بَابٌ في كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي الثِّيَابِ:
13. باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟
حدیث نمبر: Q372
وَقَالَ عِكْرِمَةُ: لَوْ وَارَتْ جَسَدَهَا فِي ثَوْبٍ لَأَجَزْتُهُ.
‏‏‏‏ اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q372]
حدیث نمبر: 372
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْفَجْرَ فَيَشْهَدُ مَعَهُ نِسَاءٌ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ مُتَلَفِّعَاتٍ فِي مُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَرْجِعْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ مَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں، اس وقت انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 372]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح البخارييصلي الصبح بغلس فينصرفن نساء المؤمنين لا يعرفن من الغلس أو لا يعرف بعضهن بعضا
   صحيح البخارييصلي الفجر فيشهد معه نساء من المؤمنات متلفعات في مروطهن ثم يرجعن إلى بيوتهن ما يعرفهن أحد
   صحيح البخارينساء المؤمنات يشهدن مع رسول الله صلاة الفجر متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة لا يعرفهن أحد من الغلس
   صحيح مسلمليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح مسلمنساء المؤمنات كن يصلين الصبح مع النبي ثم يرجعن متلفعات بمروطهن لا يعرفهن أحد
   صحيح مسلمنساء من المؤمنات يشهدن الفجر مع رسول الله متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن وما يعرفن من تغليس رسول الله بالصلاة
   جامع الترمذيليصلي الصبح فينصرف النساء
   سنن أبي داودليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرىليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرىالنساء يصلين مع رسول الله الفجر فكان إذا سلم انصرفن متلفعات بمروطهن فلا يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرىيصلين مع رسول الله الصبح متلفعات بمروطهن فيرجعن فما يعرفهن أحد من الغلس
   موطأ مالك رواية يحيى الليثيليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   مسندالحميديكن نساء من المؤمنات يصلين مع النبي صلى الله عليه وسلم الصبح وهن متلفعات بمروطهن ثم يرجعن إلى أهليهن وما يعرفهن أحد من الغلس
   مسندالحميديكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني، وإلا اضطجع حتى يقوم إلى الصلاة
   مسندالحميدي

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 372 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 372  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر میں وہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتی تھیں۔
ثابت ہوا کہ ایک کپڑے سے اگر عورت اپنا سارا بدن چھپالے تونماز درست ہے۔
مقصود پردہ ہے وہ جس طور پر مکمل حاصل ہو صحیح ہے۔
کتنی ہی غریب عورتیں ہیں جن کوبہت مختصر کپڑے میسر ہوتے ہیں، اسلام میں ان سب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 372   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:372  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ عورت اگر ایک ہی چادر میں اچھی طرح لپٹ کر نماز ادا کرے تو نماز درست ہے، کیونکہ اس حدیث میں صرف چادروں میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے، ان کے ساتھ دوسرے کپڑوں کا ذکر نہیں ہوا ہے۔
چونکہ عورت کا پورا جسم چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ قابل ستر ہے، اس لیے عورتوں کے معاملے میں صحت نماز کا دارومدار کپڑوں کی گنتی پر نہیں بلکہ ستر پر ہے۔
اگر عورت سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ لے تو نماز کے لیے کافی ہے۔
اگرچہ آئمہ کرام سے عورتوں کے لیے کپڑوں کی تعداد منقول ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے لیے نماز کی صحت کسی گنتی پر موقوف ہے۔
چونکہ عام حالات میں عورت کا جسم چھپانے کے لیے ایک سے زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے زیادہ کپڑوں کے استعمال کی ہدایت کی ہے، لیکن اگر ستر پوشی اور سارے جسم کو چھپانے کا مقصد ایک ہی کپڑے سے حاصل ہوجائے تو یہ بھی کافی ہے۔
چنانچہ امام ابن منذر ؒ نے جمہور کا قول کُرتے (قمیص)
اور دوپٹے میں وجوب صلاۃ کا نقل کر کے لکھا ہے کہ اس سے مراد بدن اور سر کا ضروری طور پر چھپانا ہے اگر ایک ہی کپڑا اتنا بڑا ہو جس سے سارا بدن اور اس کے باقی حصے سے سر بھی چھپ سکے تو نماز درست ہو جائے گی۔
اس کے بعد حضرت عطاء ؒ اور ابن سیرین ؒ کے اقوال جو عورت کی نماز کے لیے کپڑوں کی تعداد سے متعلق ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اقوال استحباب پر محمول ہیں۔
(فتح الباري: 625/1)

عورتیں جب نماز سے فراغت کے بعد گھروں کو جاتیں تو پتہ نہ چلتا کہ کون سی عورت ہے؟ البتہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عورت ہے مرد نہیں۔
عدم معرفت کی وجہ رات کا اندھیرا ہوتا یا ان کا خود کو چھپانا اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی تھی۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 578)
علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کی تھی، کبھی کبھار کسی ہنگامی صورت کے پیش نظر آپ نے صبح کی روشنی میں ادا کی ہے۔
نیز اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مسلم خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتی تھیں۔
چنانچہ عورتوں کا مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔
(إعلام الحدیث: 355/1)

امام بخاری ؒ کے استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ عورتیں چادر کو برقع کے طور پر استعمال کرتی تھیں، یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ استدلال کی بنیاد حدیث کا ظاہری مفہوم ہے۔
چونکہ دیگر کپڑوں کا ذکر نہیں، اس لیے احتمال ہے کہ کوئی اور کپڑا نہ ہو، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کی تصریح نہیں کی، لیکن ان کی عادت ہے کہ اپنے اختیارات (موقف)
کو عنوان میں ذکر کر دیتے ہیں۔
جیسا کہ انھوں نے حضرت عکرمہ ؒ کے حوالے سے اسے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 625/1)
اس کے علاوہ یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی غربت کا دور تھا اس لیے حالات کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے پاس صرف ایک ہی چادر ہو۔
نوٹ:
صبح کی نماز اسفار میں ہو یا اندھیرے میں؟ اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
اس حدیث پر فوائد لکھنے کے بعد راقم نے اپنے گھر اس کا تذکرہ کیا کہ عورت صرف ایک چادر میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے۔
بشرطیکہ اس نے اس سے اپنے جسم کو لپیٹ رکھا ہو کیونکہ صحابہ کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، لہٰذا ممکن ہے کہ حالات کے پیش نظر اس وقت ایک ہی چادر ہو۔
اس پر اہلیہ نے تعلیق لگائی کہ آپ کا یہ کہنا محل نظر ہے، کیونکہ جب پردے سے متعلق سورۃ النور کی آیات نازل ہوئیں تو سب سے پہلے مہاجرین سابقین کی خواتین نے ان پر عمل کیا وہ اس طرح کہ انھوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے اور ان سے اپنے سراور سینے کو ڈھانپ لیا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4758)
اگر ان کے پاس چادروں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے تو چادروں کو پھاڑنے کے بعد وہ کیا پہنتی تھیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ خواتین اسلام کے پاس صرف چادریں ہی نہ تھیں بلکہ ان کے علاوہ اور لباس بھی تھا جسے وہ زیب تن کرتی تھیں لیکن مسئلہ اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ کسی عورت کے پاس صرف ایک چادر ہواور اسے اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کر جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہوتو اس مین نماز جائز ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے اسے اس وقت کی خواتین کے لیے دیگر کپڑوں کی عدم دستیابی سے معلق نہ کیا جائے۔
واللہ أعلم۔
اللہ تعالیٰ اہلیہ کو اجر عظیم عطا فرمائے کہ انھوں نے اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 372   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 578  
´نماز فجر کا وقت`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: "كُنَّ نِسَاءُ الْمُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلَاةَ لَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ " . . . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْفَجْرِ:: 578]
تشریح:
امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہو جایا کرتی تھی۔ لفظ «غلس» کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت «غلس» اور آخر وقت «اسفار» معلوم ہو جائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔

جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔
«عن ابي مسعود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلوٰة الصبح مرة بغلس ثم صلى مرة اخري فاسفربها ثم كانت صلوٰته بعد ذالك التغليس حتي مات ولم يعدالي ان يسفر رواه ابوداؤد ورجاله فى سنن ابي داؤد رجال الصحيح۔»
یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر «غلس» (اندھیرے) میں پڑھائی اور پھر ایک مرتبہ «اسفار» (یعنی اجالے) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو «اسفار» یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔

حدیث عائشہ کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
«والحديث يدل على استحباب المبادرة بصلوٰة الفجر فى اول الوقت وقد اختلف العلماءفي ذلك فذهب العترة ومالك والشافعي و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعي وداؤد بن على وابوجعفر الطبري وهوالمروي عن عمروبن عثمان وابن الزبير وانس وابي موسيٰ وابي هريرة الي ان التغليس افضل وان الاسفار غيرمندوب وحكي هذاالقول الحازمي عن بقية الخلفاءالاربعة وابن مسعود وابي مسعود الانصاري واهل الحجاز واحتجوا بالاحاديث المذكورة فى هذاالباب وغيرها ولتصريح ابي مسعود فى الحديث بانها كانت صلوٰة النبى صلى الله عليه وسلم التغليس حتيٰ مات ولم يعدالي الاسفار۔» [نيل، ج2، ص: 19]
خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز «غلس» یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اور خلفائے اربعہ اور اکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، و اہل بیت نبوی اور دیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک «غلس» ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اور سارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: «عن مغيث بن سمي قال صليت مع عبدالله بن الزبير الصبح بغلس فلما سلم اقبلت على ابن عمر فقلت ماهذه الصلوٰة قال هذه صلوٰتنا كانت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر فلما طعن عمر اسفربها عثمان و اسناده صحيح۔» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 144]
یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز «غلس» میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں بھی یہ نماز «غلس» ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیا گیا تو احتیاطاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔

اس سے بھی ظاہر ہوا کہ نماز فجر کا بہترین وقت «غلس» یعنی اندھیرے ہی میں پڑھنا ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس کے لیے «اسفار» یعنی اجالے میں پڑھنا بہتر مانا گیا ہے۔ مگر دلائل واضحہ کی بنا پر یہ خیال درست نہیں۔

حنفیہ کی دلیل رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مذکور ہے کہ «اسفروا بالفجر فانه اعظم للاجر» یعنی صبح کی نماز اجالے میں پڑھو اس کا ثواب زیادہ ہے۔ اس روایت کا یہ مطلب درست نہیں کہ سورج نکلنے کے قریب ہونے پر یہ نماز ادا کرو جیسا کہ آج کل حنفیہ کا عمل ہے۔ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام ترمذی نے ائمہ کرام سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ امام صاحب فرماتے ہیں: «وقال الشافعي واحمد واسحاق معنى الاسفار ان يضح الفجر فلايشك فيه ولم يروا ان معنى الاسفار تاخيرالصلوٰة» یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ واحمد و اسحاق فرماتے ہیں کہ یہاں «اسفار» کا مطلب یہ ہے کہ فجر خوب واضح ہو جائے کہ کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اور یہ معنی نہیں کہ نماز کو تاخیر کر کے پڑھا جائے (جیسا کہ حنیفہ کا عام معمول ہے) بہت سے ائمہ د ین نے اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ نماز فجر کواندھیرے میں «غلس» میں شروع کیا جائے اور قرات اس قدر طویل پڑھی جائے کہ سلام پھیرنے کے وقت خوب اجالا ہو جائے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ [تفہیم البخاری، پارہ3، ص: 33] حضرت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں بھی یہی تفصیل بیان کی ہے۔

یادرکھنے کی باتیں:
یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت و افضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہر شخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت «غلس» اور آخر وقت طلوع شمس ہے اور درمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام و خواص برادران پر جو کبھی «غلس» میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر «غلس» میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بنا پر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اور ایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خود اکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ «غلس» کا عمل رہا ہے۔

دیوبند میں نماز فجر غلس میں:
صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن احادیث کا ذکر کیا ہے، اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینوں میں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعد فوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہو کر سو نہ جائیں۔ اور نماز ہی فوت ہو جائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہد سے اس پر عمل رہا ہے کہ رمضان میں سحر کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہو جاتی ہے۔ [تفہیم بخاری، پ3، ص: 34]

محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایا ہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ «غلس» میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان و غیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔

بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کر لیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہو سکیں اور سردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔

بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اور اسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 578   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 872  
872. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے، چنانچہ مومنوں کی عورتیں جب نماز پڑھ کر واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں یا وہ خود ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:872]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
نماز ختم ہوتے ہی عورتیں واپس ہو جاتی تھیں اس لیے ان کی واپسی کے وقت بھی اتنا اندھیرا رہتا تھا کہ ایک دوسری کو پہچان نہیں سکتی تھی۔
لیکن مرد فجر کے بعد عام طور سے نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے تھے۔
حضرت اما م بخاری ؒ کو اللہ پاک نے اجتہاد کا درجہ کامل عطا فرمایا تھا۔
اسی بنا پر آپ نے اپنی جامع الصحیح میں ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے حدیث مذکور پیچھے بھی کئی بار مذکورہو چکی ہے۔
حضرت امام ؒ نے اس سے فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا اثبات فرمایا ہے۔
اور یہاں عورتوں کا شریک جماعت ہونا اور سلام کے بعد ان کا فوراً مسجد سے چلے جانا وغیرہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔
تعجب ہے ان عقل کے دشمنوں پر جو حضرت امام جیسے مجتہد مطلق کی درایت کا انکار کرتے اور آپ کو صرف روایت کا امام تسلیم کرتے ہیں حالانکہ روایت اور درایت ہر دو میں آپ کی مہارت تامہ ثابت ہے اور مزید خوبی یہ کہ آپ کی درایت وتفقہ کی بنیاد محض قرآن وحدیث پر ہے رائے اور قیاس پر نہیں جیسا کہ دوسرے ائمہ مجتہدین میں سے بعض حضرات کا حال ہے جن کے تفقہ کی بنیاد محض رائے اور قیاس پر ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کو اللہ نے جو مقام عطا فرمایا تھا وہ امت میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے۔
اللہ نے آپ کو پیدا ہی اس لیے فرمایا تھا کہ شریعت محمدیہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر اس درجہ منضبط فرمائیں کہ قیامت تک کے لیے امت اس سے بے نیاز ہو کے بے دھڑک شریعت پر عمل کرتی رہے۔
آیت شریفہ:
﴿وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوابِھِم﴾ (الجمعة: 3)
کے مصداق بے شک وشبہ ان ہی محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین کی جماعت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 872   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 423  
´فجر کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 423]
423۔ اردو حاشیہ:
➊ ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے کہ بعد از نماز بھی اندھیرا باقی ہوتا تھا اور دور سے معلوم نہ ہوتا تھا کہ کوئی عورت آ رہی ہے یا مرد؟ ورنہ پردہ دار خاتون کے پہچانے جانے کے کوئی معنی نہیں۔
➋ خلافت راشدہ کے دور میں بھی اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیر ے میں پڑھا کرتے تھے۔
➌ عورتوں کو بھی نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ اندھیرے کے اوقات میں بھی نماز کے لیے آ سکتی ہیں مگر ان پر فرض ہے کہ شرعی آداب کے تحت اجازت لے کر آئیں، باپردہ ہو کر نکلیں، خوشبو لگا کر اور آواز دار زیور پہن کر نہ آئیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 423   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 546  
´حضر (حالت اقامت) میں فجر اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تھے (آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر) عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی لوٹتی تھیں، تو وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 546]
546 ۔ اردو حاشیہ:
➊رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز عمومی طور پر اندھیرے میں شروع فرماتے اور اندھیرے ہی میں مکمل فرما لیتے، لہٰذا جب عورتیں پردے میں واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی چال ڈھال کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں پہچانا جا سکے۔
➋عورتوں کی پہچان عموماً چال ڈھال سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ چادروں کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں، غلط ہے۔ اگر یہ وجہ ہو تو پھر وہ دوپہر کو بھی نہ پہچانی جائیں کیونکہ چادر میں تو اس وقت بھی ہوں گی۔ دراصل وجہ اندھیرا ہی ہے، اس لیے بھی کہ اس روایت میں صراحتاً یہی علت بیان کی گئی ہے۔
➌عورتیں کسی بھی نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ بعض حضرات کا رات اور دن کی نمازوں اور بوڑھی اور جوان عورت میں فرق کرنا بے دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 546   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1363  
´نماز سے فراغت کے بعد عورتوں کے گھر لوٹنے کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر ادا کرتی تھیں، جب آپ سلام پھیرتے تو وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی نکل جاتیں، اور اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1363]
1363۔ اردو حاشیہ: عورتوں کو سلام پھیرتے ہی اٹھ جانا چاہیے۔ مرد بیٹھے رہیں۔ مردوں کو ذکر اذکار اور سنن مؤکدہ کی ادائیگی کے بعد گھر جانا چاہیے تاکہ عورتیں ان سے پہلے گھروں میں پہنچ جائیں اور اختلاط نہ ہو۔ چادر میں لپٹی ہونے کے باوجود عورت کی چال ڈھال سے اسے پہچانا جا سکتا ہے مگر اندھیرے میں یہ چیز بھی ممکن نہیں ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے فراغت غلس (اندھیرے) ہی میں ہو جاتی تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1363   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:174  
فائدہ:
اس حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ عورتیں بھی نماز با جماعت مسجد میں آ کر پڑھ سکتی ہیں لیکن وہ باپردہ ہو کر آئیں گی اور مر دوں کے پیچھے نماز پڑھیں گی لیکن عورت کی افضل نماز گھر میں ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز فجر اندھیرے میں پڑھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز فجر اندھیرے میں پڑھی، پھر دوسری مرتبہ روشن کر کے پڑھی، پھر وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اندھیرے ہی میں رہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے روشن کرکے نہیں پڑھا۔ (سنن أبي داود: 394۔ صحيح ابن خزيمه: 352)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 174   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:175  
فائدہ:
نماز فجر سے پہلے سنتوں کی ادائیگی کے بعد دائیں جانب لیٹنا مستحب ہے خواہ سنتیں گھر میں ادا کی جائیں یا مسجد میں، اس کی دلیل اس حدیث میں بالکل واضح ہے، افسوس کہ یہ پیاری سنت لوگوں نے چھوڑ دی ہے۔ سنت موکدہ و غیر موکدہ کا بھی اہتمام کرنا چاہیے، نیز سنتوں کا گھر میں اہتمام کرنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 175   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1457  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ مسلمان عورتیں صبح کی نماز نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پڑھتی تھیں، پھر اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی واپس آتیں اور انہیں (اندھیرے کی وجہ سے) کوئی پہچان نہیں پاتا تھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1457]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نِسَاءُ المُؤمِنَات:
میں إِضَافَةُ الْمَوْصُوْفِ إِلَي الصِّفَّة ہے،
جو بعض (کوفی)
نحویوں کے نزدیک جائز نہیں ہے اس لیے ان کو یہاں تأویل کی ضرورت پیش آتی ہے،
وہ یہاں موصوف محذوف مانتے ہیں،
یعنی نِسَاء الأَنفُس المُؤمِنَات يا نِسَاءُ الجَمَاعَاتِ المُؤمِنَات،
بناتے ہیں،
یا نساء کو فاضلات کے معنی لیتے ہیں یعنی فَاضِلَاتُ المُؤمِنَات جیسے کہتے ہیں رِجَالُ القَومِ يعني فُضُلَاءُ القَوم اور جن کے نزدیک ابصری جائز ہے ان کو کسی تاویل کی ضرورت نہیں۔
(2)
مُتَلَفِّعَات:
لپٹی ہوئیں،
پہنےہوئے۔
(3)
مَر﷩وط:
مرط کی جمع ہے۔
دھاری دار چادر۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1457   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1459  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی گھروں کو لوٹتیں، اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں، انصاری کی روایت میں مُتَلَفِّعَات کی جگہ مُتَلَفِّفَات ہے، چادروں میں ملفوف۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1459]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اندھیرے میں نماز پڑھتے تھے کہ نماز سے فراغت کے بعد واپس جانے والی عورتوں کا پتہ نہیں چلتا تھا کہ مرد جا رہے ہیں یا عورتیں جا رہی ہیں یا ان میں یہ امتیاز نہیں ہو سکتا تھا کہ کونسی عورت جا رہی ہے حالانکہ روشنی میں عورت کی چال ڈھال اور ہئیت کذائی سے واقف کار اس کی شخصیت کو پہچان لیتے ہیں اس لیے جمہور کے نزدیک جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں اندھیرے میں نماز پڑھنا بہتر ہے اور (اسفروا بالفجر یاأصبحوا بالصبح)
کا معنی یہ ہے کہ قرآءت طویل کرو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ پہلی رکعت میں شریک ہو سکیں ہاں بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے تحت صبح کی نماز دیر سے بھی پڑھی ہے نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پردہ کی پابندی کرتے ہوئے عورتیں مسجد میں باجماعت نماز پڑھ سکتی ہیں۔
(2) (أصبحوا بالصبح)
یہ توضیح (واسفروا بالفجر)
کا لفظ کر رہا ہے کہ صبح اچھی طرح ہو جائے صبح ہونے میں کوئی شک و شبہ نہ رہے یعنی اذان صبح صادق کے بعد کہی جائے صبح کاذب میں نہیں،
اسفار روشنی کو کہتے ہیں صبح روشن اس وقت ہو گی جب اچھی طرح صبح ہو جائے گی اس لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کی نماز میں سورہ بقرہ پڑھ لیتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہ ہود اور یوسف اور رعد پڑھ لیتے تھے اگر اس کا معنی احناف والا لیا جائے تو اس قدر طویل قرآءت ممکن نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1459   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:578  
578. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اہل ایمان خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ فجر کی نماز میں چادریں اوڑھے ہوئے شریک ہوتی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ اپنے گھروں کو ایسے وقت میں واپس لوٹتیں کہ انہیں تاریکی شب کی وجہ سے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:578]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہےکہ اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کوکوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔
اس معرفت سے مراد نوع ہے یا ذات؟علامہ داودی ؒ کہتے ہیں کہ اتنا زیادہ اندھیرا ہوتا تھا کہ مردوں کو عورتوں سے الگ طور پر پہچان سکتے تھے، لیکن یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے، کیونکہ عورت اور مرد کی پہچان کے لیے چادروں میں ملبوس ہونا ہی کافی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد معرفت ذات ہے، یعنی اندھیرے کی وجہ سے ان کی شخصیت نہ پہچانی جاتی تھی کہ ہندہ ہے یا زینب۔
پہلے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ہم نشین کو پہچان لیتا تھا۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 547)
حدیث عائشہ اس کے معارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا توعورتوں کو جو چادروں میں لپٹی ہوتیں، انھیں دور سے پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔
طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نماز فجر میں سورۂ"الحاقة" یا اس جیسی سورتوں کی تلاوت فرماتے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ انتہائی آرام وسکون سے اور ٹھہرٹھہر کر ترتیل سے تلاوت فرماتے تھے، نماز کے ارکان بھی پرسکون اور مکمل انداز میں پورے کرتے، نماز سے فراغت کے بعد آدمی بمشکل اپنے ہم نشین کو پہچانتا اور عورتوں کو پہچاننا مشکل ہوتا۔
یہ سب باتیں اس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منہ اندھیرے نماز فجر پڑھا کرتےتھے۔
(فتح الباري: 38/2) (2)
رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نماز فجر صبح کے خوب روشن ہوجانے پر پڑھا کرو کیونکہ یہ تمھارے اجر میں اضافے کا موجب ہے۔
(مسند أحمد: 465/3)
اس میں اور دیگر احادیث کے مابین دو طرح سے تطبیق ممکن ہے:
٭نماز کا آغاز تاریکی میں کیا جائے، لیکن قراءت اتنی طویل ہو کہ سلام پھیرنے کے وقت صبح خوب روشن ہوجائے۔
اسے امام طحاوی ؒ اور امام ابن قیم ؒ نے اختیار کیا ہے۔
٭صبح روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔
اس موقف کو امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ نے اختیار کیا ہے۔
واضح رہے کہ صبح کو روشن کرکے نماز فجر ادا کرنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، لیکن آخر کار جس عمل پر تادم حیات مداومت فرمائی، وہ اندھیرے میں نماز فجر کی ادائیگی ہے، جب کہ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی، دوسری مرتبہ اسے خوب روشن کرکے پڑھا، پھر وفات تک آپ کی نماز اندھیرے ہی میں رہی۔
آپ نے دوبارہ کبھی روشن کرکے نہیں پڑھی۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 394)
اس مسئلے میں اگرچہ اختلاف ہے، تا ہم ہمارے ہاں راجح یہی ہے کہ نماز فجر اندھیرے ہی میں ادا کی جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا دائمی عمل یہی ہے، پھر خلفائے اربعہ اور جمہور صحابۂ کرام اور تابعین عظام نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف افضل عمل پر ہمیشگی کرتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔
(السنن الکبرٰی للبیهقي: 435/1)
سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں:
نماز فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔
اور صبح صادق سے مراد وہ سفیدی ہے جو آسمان کے مشرقی کنارے پر پھیل جاتی ہے اور اس کے بعد تاریکی نہیں ہوتی۔
(رسالة مواقیت الصلاة، ص: 10)
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 578   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:872  
872. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے، چنانچہ مومنوں کی عورتیں جب نماز پڑھ کر واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں یا وہ خود ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:872]
حدیث حاشیہ:
(1)
صبح کی نماز کے فورا بعد مستورات کی واپسی کا عمل شروع ہو جاتا تھا اور وہ اندھیرے میں مسجد سے چلی جاتی تھیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں نماز صبح کا بطور خاص ذکر کیا ہے کیونکہ اگر وہ مسجد میں نماز کے بعد ٹھہرتیں تو دن روشن ہو جاتا جو ان کے ستر کے لیے مناسب نہیں تھا۔
عشاء کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ اس کے بعد اگر مسجد میں ٹھہر جاتیں تو تاریکی میں مزید اضافہ ہو گا جو ان کے پردے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
(فتح الباري: 453/2) (3)
عنوان بالا کا مقصد بھی یہی ہے کہ عورتیں نماز کے بعد گھروں کو واپس جانے میں جلدی سے کام لیں کیونکہ ان کا ٹھہرنا مردوں کے لیے تکلیف اور آزمائش کا باعث ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 872   

  الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 3  
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے فجر کی نماز، پھر عورتیں نماز سے فارغ ہو کر پلٹتی تھیں چادریں لپیٹی ہوئیں اور پہچانی نہ جاتی تھیں اندھیرے سے۔ [موطا امام مالك: 3]
فائده:
معلوم ہوا کہ نمازِ فجر اندھیرے میں پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا، لہذا اس نماز کو جلدی اور اندھیرے میں ادا کرنا زیادہ افضل اور مستحب ہے۔ احناف کے علاوہ باقی تمام فقہاء کا یہی موقف ہے، ایک روایت میں ہے کہ «لا يُعْرِفنَ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا» (نماز پڑھ کر جانے والی) عورتیں ایک دوسری کو پہچان نہ پاتی تھیں۔ [بخاري: 872]
نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ کوئی بھی نماز ادا کر سکتی ہیں، اگرچہ ان کے لیے بہترین اور افضل ترین صورت یہ ہے کہ وہ گھر میں ہی کسی خفیہ مقام پر نماز ادا کریں، یہ بھی معلوم ہوا کہ پر دے کے لیے بُرقعہ کا استعمال لازمی نہیں ہے، اگرچہ بُرقع کا استعمال پردے کے لیے زیادہ مفید ہے لیکن پورے جسم کو ڈھانپنے والی ایک چادر بھی کافی ہے۔ یاد رہے کہ پردے والی چادر یا برقع کا نقش و نگار والا ہونا پردے کا مقصد فوت کر دیتا ہے۔
   موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 3