4655. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت ابوبکر ؓ نے اس حج میں (جس میں وہ امیر حج تھے) نحر کے دن اعلان کرنے والوں میں بھیجا کہ وہ منٰی میں اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ حمید بن عبدالرحمٰن کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو پیچھے سے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اعلان براءت کریں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ حضرت علی ؓ نے بھی ہمارے ساتھ نحر کے دن منٰی میں موجود لوگوں میں اعلان براءت کیا، نیز یہ کہ آئندہ سال کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر اس کا طواف ہی کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4655]
حدیث حاشیہ: 1۔
عربوں میں یہ رسم تھی کہ اعلان براءت خود سر براہ مملکت کرتا یا اس کا کوئی قریبی آدمی یہ فریضہ سر انجام دیتا۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا۔
حضرت ابو بکر ؓ نے ان کے ساتھ تعاون کے لیے دوسرے حضرات بھی روانہ کیے جن میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا ذکر اس روایت میں موجود ہے۔
ان کے علاوہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے نام بھی دوسری روایات میں ملتے ہیں۔
(فتح الباري: 404/8) 2۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت علی ؓ اعلان کرتے کرتے تھک جاتے تو حضرت ابو بکر ؓ اعلان کرتے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3091) 3۔
حضرت علی ؓ نے جواعلان براءت کیا اس کی اہم دفاعت چار تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔
جس کافر کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ صلح ہے وہ مقرر مدت تک بحال رہے گا۔
جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہے، اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ جنت میں داخل ہوں گے یا پھر یہاں سے کہیں اور چلے جائیں۔
اس کے بعد مشرک اور مسلمان
(حج میں) جمع نہ ہوں گے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3092) ان دفعات کا مطلب یہ تھا کہ اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائیں یا پھر مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشیں ختم کردیں بصورت دیگر ان کے خلاف اعلان جنگ ہو گا۔