مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا مجھ سے محمد بن اسماعیل ابن ابی الفدیک نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن ابن ابی ذئب نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ سے بہت سی احادیث اب تک سنی ہیں لیکن میں انہیں بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے چادر پھیلا دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لپ بھر کر ڈال دی اور فرمایا کہ اسے اپنے بدن سے لگا لو۔ چنانچہ میں نے لگا لیا اور اس کے بعد کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3648]
لن يبسط أحد منكم ثوبه حتى أقضي مقالتي هذه ثم يجمعه إلى صدره فينسى من مقالتي شيئا أبدا فبسطت نمرة ليس علي ثوب غيرها حتى قضى النبي مقالته ثم جمعتها إلى صدري فوالذي بعثه بالحق ما نسيت من مقالته تلك إلى يومي هذا والله لولا آيتان
أيكم يبسط ثوبه فيأخذ من حديثي هذا ثم يجمعه إلى صدره فإنه لم ينس شيئا سمعه فبسطت بردة علي حتى فرغ من حديثه ثم جمعتها إلى صدري فما نسيت بعد ذلك اليوم شيئا حدثني به ولولا آيتان أنزلهما الله في كتابه ما حدثت شيئا أبدا إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات واله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3648
حدیث حاشیہ: آپ کی دعا کی برکت سے حضرت ابوہریرہ ؓ کا حافظہ تیز ہوگیا۔ چادر میں آپ نے دعاؤں کے ساتھ برکت کو گویا لپ بھر کر ڈال دیا۔ اس چادر کو حضرت ابوہریرہ نے اپنے سینے سے لگا کر برکتوں سے اپنے سینے کو معمور کرلیا اور پانچ ہزار سے بھی زائد احادیث کے حافظ قرارپائے۔ تف ہے ان لوگوں پر جو ایسے جلیل القدر حافظ الحدیث صحابی رسول اللہ ﷺ کو حدیث فہمی میں ناقص قرار دے کر خود اپنی حماقت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے علماءوفقہاءکو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے کہ ایک صحابی رسول کی توہین کی سزا میں گرفتار ہوکر کہیں وہ خسرالدنیا والآخرۃ کے مصداق نہ بن جائیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا مقام روایت اور مقام درایت بہت اعلیٰ وارفع ہے۔ وللتفصیل مقام آخر۔ علامات نبوت کا باب یہاں ختم ہوا۔ اب حضرت امام بخاری ؒ اصحاب رسول اللہ ﷺ کے فضائل کا بیان شروع فرما رہےہیں۔ جس قدر روایات مذکور ہوئی ہیں سب میں کسی نہ کسی طرح سے علامت نبوت کا ثبوت نکلتا ہے۔ اور یہی امام بخاری کا منشاءہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3648
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3648
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو کوئی اپنا کپڑا پھیلا رکھے حتی کہ میں اپنا کلام پورا کرلوں،پھر اس کپڑے کو اپنے سینے سے لگالےتو وہ اس کلام سے کوئی بات نہیں بھولے گا۔ “ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا کمبل ہی پھیلادیا۔ میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہیں تھا۔ جب آپ نے اپنا کلام پورا کرلیا تو میں نے اسے اپنے سینے سے لگالیا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے!اس وقت سے لے کر آج تک میں اس کلام کو نہیں بھولا ہوں۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2350) لیکن صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ میں اس دن کے بعد کوئی حدیث نہیں بھولا ہوں۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6397(2492) صحیح پیش کردہ حدیث میں بھی عموم ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ صرف وہی کلام نہیں بلکہ کوئی حدیث بھی نہیں بھولے ہیں۔ 2۔ چادر میں رسول اللہ ﷺ نے دعاؤں کے ساتھ برکت کو گویا لپ بھر کر ڈال دیا جس کی بدولت حضرت ابوہریرہ کا حافظہ تیز ہوگیا۔ آپ نے جب خیروبرکت سے اپنے سینے کو معمور کرلیا توحافظ حدیث اور راوی اسلام کہلائے۔ آپ کو پانچ ہزار سے زائد احادیث زبانی یاد تھیں۔ تف ہے ان لوگوں پر جو ایسے جلیل القدر حافظ حدیث کو حدیث فہمی میں ناقص ٹھہرا کر خود اپنی حماقت کا اظہار کرتے ہیں۔ 3۔ اس حدیث میں بھی علامات نبوت کا اثبات مقصود ہے۔ اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث بیان ہوئی ہیں،ان سب میں کسی نہ کسی طرح سے علامتِ نبوت کا ثبوت ملتا ہے اور یہی امام بخاری ؒ کا مقصد ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3648
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 119
´ علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں ` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ، قَالَ: ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ، قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ضُمَّهُ، فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور (میری چادر میں ڈال دی) فرمایا کہ (چادر کو) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو (اپنے بدن پر) لپیٹ لیا، پھر (اس کے بعد) میں کوئی چیز نہیں بھولا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ حِفْظِ الْعِلْمِ:: 119]
� تشریح: آپ کی اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ بعد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حفظ حدیث کے میدان میں سب سے سبقت لے گئے اور اللہ نے ان کو دین اور دنیا ہر دو سے خوب ہی نوازا۔ چادر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چلو ڈالنا نیک فالی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 119
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2350
2350. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: لوگ ابوہریرہ ؓ کے متعلق بکثرت احادیث بیان کرنے کا ا عتراض کرتے ہیں۔ آخر اس نے بھی اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے مہاجرین اور انصار اس (ابوہریرہ ؓ) کی طرح احادیث کیوں نہیں بیان کرتے؟بات دراصل یہ ہے کہ میرے مہاجر بھائی بازاروں میں کاروبار کے لیے مشغول رہتے تھے اور میرے انصاری بھائی اپنے مویشیوں کی ذمہ داری میں لگے رہتے تھے جبکہ میں ایک قلاش آدمی تھا، پیٹ بھر جاتا تو ہروقت رسول اللہ ﷺ کے پاس رہتا تھا۔ جب یہ لوگ غائب ہوتے تو میں وہاں موجود رہتا اور جب وہ بھول جاتے تو میں یادرکھتا تھا ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو کوئی اپنا کپڑا اس وقت تک پھیلائے رکھے جب تک میں اپنی گفتگو ختم کروں پھر اسے سمیٹ کراپنے سینے سے لگالے تو وہ میری گفتگو کو کبھی نہیں بولے گا۔“ یہ سن کر میں نے اپنی چادر بچھادی جبکہ اس چادر کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کپڑا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2350]
حدیث حاشیہ: یہ حدیث کئی جگہ نقل ہوئی ہے، اور مجتہد مطلق حضرات امام بخاری ؒ نے اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے، یہاں اس حدیث کے لانے کا مقصد یہ دکھلانا ہے کہ انصار مدینہ عام طور پر کھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کھیتوں اور باغوں کو ذریعہ معاش بنانا کوئی امر معیوب نہیں ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے کہ جتنی مخلوق ان سے فائدہ اٹھائے گی اس کے لیے اجر و ثواب میں زیادتی کا موجب ہوگا۔ والحمد للہ علی ذلك۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2350
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7354
7354. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: تم خیال کرتے ہو کہ ابو ہریرہ، رسول اللہ ﷺ کی بہت احادیث بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور سب نے جانا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں ایک مسکین شخص تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا جبکہ مہاجرین کو بازار کے کاروبار مشغول رکھتے اور انصار کو اپنی زمینوں کی دیکھ بھال مصروف رکھتی تھی ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے فرمایا: ”کون ہے جو اپنی چادر پھیلائے رکھے یہاں تک کہ میں اپنا کلام پورا کرلوں، پھر وہ اپنی چادر سمیٹ لے اور اس کے بعد کبھی مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولے۔“ تو میں نے اپنے بدن کی چادر پھیلا دی۔ اللہ کی قسم! جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ا سکے بعد میں نے آپ سےجو چیز بھی سنی اس کو نہیں بھولا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7354]
حدیث حاشیہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو پانچ ہزار سے زائد احادیث بر زبان یاد تھیں۔ بعض لوگ اس کثرت حدیث پر رشک کرتے‘ ان کے جواب میں آپ نے یہ بیان دیا جو یہاں مذکور ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7354
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6397
اعرج رحمۃ ا للہ علیہ کہتے ہیں،میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ کہہ رہے تھے:تم یہ سمجھتے ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتاہے،اللہ ہی کے پاس پیشی ہونی ہے۔میں ایک مسکین آدمی تھا،پیٹ بھرجانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگا رہتاتھا۔مہاجروں کو بازار میں گہ گہمی مشغول رکھتی تھی اور انصار کو اپنے مال(مویشی) وغیرہ کی نگہداشت مشغول رکھتی تھی،تو(جب)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کون اپنا کپڑا پھیلائے گا،پھر جو چیز بھی اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6397]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) والله الموعد: یعنی عندالله الموعد: اللہ ہی میرا اور تمہارا محاسبہ فرمائے گا، اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو میری گرفت فرمائے گا، اگر تم بدگمانی کرتے ہو تو تمہیں پوچھے گا۔ (2) علي مل بطني: جب پیٹ بھرنے کے بقدر چیز مل جاتی تو اس کو کھا کر سارا وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارتا، مجھے مال جمع کرنے کی فکر نہ تھی۔ (3) الصفق بالسواق: بازاروں کی خریدوفروخت، سودا پکا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے تھے اور صفق کا یہی معنی ہے۔ (4) يشغلهم القيام علي اموالهم: ان کو ان کی کاشتکاری اور زراعت کی سرانجام دہی مشغول رکھتی۔ فوائد ومسائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات صحابہ کرام سے زیادہ ہیں، کوئی صحابی بھی اس سلسلہ میں ان کا ہم پلہ نہیں ہے، وہ پانچ ہزار تین سو چوہتر (5374) روایات بیان کرتے ہیں، جن میں سے چھ سو نو بخاری اور مسلم ہیں اور اس کا بنیادی اور اساسی سبب یہی ہے کہ انہوں نے اپنا سارا وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارا، آپ سے دعا کی درخواست کی کہ میں آپ کی احادیث سنتا ہوں اور بھول جاتا ہوں تو آپ نے چادر پھیلانے کا حکم دیا، اسی طرح اس حدیث میں آپ نے خود فرمایا کہ جو شخص اپنی چادر بچھائے گا تو وہ مجھ سے سنی ہوئی کوئی چیز نہیں بھولے گا اور اس کی دوسری وجہ یاد رکھنے کا اہتمام کرنا ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6397
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:119
119. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی چادر پھیلاؤ۔“ میں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو سا بنایا (اور چادر میں ڈال دیا)، پھر فرمایا: ”اسے اپنے اوپر لپیٹ لو۔“ میں نے اسے لپیٹ لیا، اس کے بعد میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ ابراہیم بن منذر نے بھی ابو فدیک کے طریق سے ابن ابی ذئب سے یہ روایت بیان کی ہے، البتہ اس میں غرف بيديه کی جگہ غرف بيديه فيه کے الفاظ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:119]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں حفاظت علم کی اہمیت اور اس کے اسباب کو بیان کیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ علم سیکھنے کے بعد اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ علم کے ساتھ بے اعتنائی کفران نعمت ہے، نیز تعلیم و تبلیغ اور عمل بھی اسی بات پر موقوف ہے کہ معلومات کو محفوظ رکھا جائے۔ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان علم کے ساتھ جس قدر شغف اور مشغولیت رکھے گا، اسی قدر یادداشت تیز اور قوت حافظہ میں ترقی ہوگی، نیز دنیا کے تمام دھندوں سے الگ ہو کر علم حدیث کی خدمت میں مصروف ہوجائے۔ سیدنا راوی اسلام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی علم حدیث کے حصول کے لیے دنیا کی ہرآسائش کو قربان کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے وابستہ ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور رفاقت صرف ساڑھے تین سال تک رہی لیکن سماع حدیث میں کوئی دوسرا صحابی ان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ آپ کو نہ تنخواہ کی ضرورت اور نہ وظیفے کی طلب، آپ کے میزبان خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، پیٹ بھر کر کھانا مل جاتا اور علم حدیث کے حصول میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تین روایات پیش کی ہیں کیونکہ آپ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب ان کے جنازے میں شریک ہوئے تو ان کی اس خصوصیت کو بایں الفاظ بیان کیا: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل اسلام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو محفوظ رکھنے والے تھے۔ اگرچہ آپ نے اپنی تمام معلومات کو بیان نہیں کیا، اس کے باوجود آپ کی مرویات دیگرتمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ ہیں۔ (فتح الباري: 282/1) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کو مزید وضاحت سے نقل کیا ہے: تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بکثرت بیان کرتا ہے اور انصار و مہاجرین حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح زیادہ احادیث کیوں نہیں بیان کرتے؟ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2047) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان حدیث کے سلسلے میں اپنی احتیاط بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی دو آیات نہ ہوتیں تو میں کبھی کچھ بیان نہ کرتا، وہ آیات یہ ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ﴾ ﴿إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾(البقرة: 1؍ 159، 160) ”جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے (159) مگر وه لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں، تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہوں“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تجارت کی مشغولیات تھیں اور نہ کاشتکاری کی مصروفیات، بلکہ آپ معاشی مشکلات سے بھی بے پروا تھے، بلکہ خود بیان کرتے ہیں کہ صفہ کے مساکین کی طرح میں بھی ایک مسکین آدمی تھا اورہروقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رہتا تھا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2047) اس کی تائید حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے، فرماتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی باتیں سنیں، جو ہم نے نہیں سنیں، کیونکہ آپ ایک مسکین آدمی تھے، کوئی گھر بار نہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھاتے اور آپ کے ساتھ ہی رہتے۔ (المستدرك للحاکم: 511/3) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رہتے اورآپ کی احادیث کو ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔ (فتح الباري: 283/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ دوسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ قوت حافظہ ایک عطیہ ربانی ہے مگر اس کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوتے ہیں جوعطائے ربانی کاذریعہ بنتے ہیں۔ ان میں سے ایک صالحین کی خصوصی توجہ اور ان کی دعائیں ہیں جو ان کی مخلصانہ خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی قوت یادداشت کے متعلق ایک حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ میں نے اپنے حافظے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص دعا بھی حاصل کی ہے۔ الغرض جو کچھ تم دیکھ رہے ہو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے۔ 4۔ اس دوسری حدیث کے عموم کا تقاضا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسیان کو بالکل ختم کردیا گیا۔ حدیث اور دیگر معاملات میں آپ اس کا شکار نہ ہوتے تھے۔ لیکن صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں: دعائے نبوی کے بعد مجھے احادیث کے سلسلے میں کبھی نسیان لاحق نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے متعلق آ پ کا نسیان ختم کر دیا گیا، جبکہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے متعلق آپ کا نسیان ختم کر دیا گیا، جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احادیث بیان فرمائیں وہ ہمیشہ کے لیے یاد رہیں، ان کے متعلق نسیان نہیں ہوا۔ ان روایات میں کچھ تعارض معلوم ہوتا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد احادیث کے متعلق کبھی نسیان لاحق نہیں ہوا۔ اس پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک شاگرد حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ کے سامنے «لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ» حدیث بیان کی توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مجھے یاد نہیں ہے۔ اور محدثین اس روایت کو (نسي بعد ما حدث) کے باب میں بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی کبھار ایسا ہو سکتا ہے، نیز یہ کیا ضروری ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بھولے ہوں بلکہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہیں خود ہی بھول گئے ہوں، انھوں نے کسی اور سے حدیث سنی ہو اور اس کی نسبت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کردی ہو۔ ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہےکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت بھولے نہیں تھے بلکہ انھوں نے جب شاگرد کو دیکھا کہ کم فہم ہے اور روایات میں ٹکراؤ پیدا کرتا ہے توانکار کردیا۔ 5۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ آپ کی دعا سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسیان کو ختم کردیا گیا، حالانکہ یہ انسانی لوازمات سے ہے۔ 6۔ تیسری حدیث میں یہ راہنمائی ہے کہ جن علوم کی اشاعت سے عوام میں فتنہ فساد کا اندیشہ ہو، انھیں لوگوں میں نہیں پھیلانا چاہیے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس منافقین کے متعلق معلومات تھیں جسے انھوں نے نہیں پھیلایا۔ اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھی کچھ حوادثات اور فتن کے متعلق علوم تھے جن کی اشاعت فتنے فساد کا باعث ہوسکتی تھی، اس لیے آپ نے ان کی اشاعت نہیں فرمائی۔ اس کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن یاد کیے، ایک برتن کے علوم کو میں نے عام کردیا جو حلال و حرام، عقائد و نظریات سے متعلق تھے، لیکن دوسرے برتن کے علوم عام طور پر پھیلانے کے نہیں ہیں۔ بعض روایات میں تین برتنوں کے علوم کی صراحت ہے۔ ان میں بظاہر تعارض ہے لیکن اگر غور کیاجائے تو ان میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ حلت وحرمت کے متعلقہ علوم دوسرے علوم کے مقابلے میں دوگنا ہیں، جہاں ان کے دوگنا ہونے کی رعایت فرمائی، وہاں تین برتن کہا اور جہاں ان کی رعایت نہیں کی، وہاں دو برتن کہہ دیا۔ (فتح الباري: 286/1) 7۔ جن علوم کو آپ نے نہیں پھیلایا، ان سے مراد ایسی احادیث ہیں جن میں نام بنام ظالم وجابر حکام کے حق میں وعیدیں ہیں اور ان میں حوادثات اور فتنوں کی پیشین گوئیاں بھی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی کبھار اشارے کے طور پر ان کا ذکر بھی کر دیتے تھے جیسا کہ آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں 60 ہجری کے شر اوربچوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اس سال امت میں بہت فتنے برپا ہوئے اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پیدا ہوا۔ یہ سال بنو امیہ کی حکومت کا ہے۔ اگرچہ ان کی اسلامی خدمات بہت ہیں لیکن ان کے کردار میں کچھ خامیاں بھی تھیں۔ اس پر فتن دور میں ایسی احادیث بیان کرنے سے جان کوخطرہ تھا، لہٰذا مصلحتاً آپ نے خاموشی اختیار کی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا اور آپ59 ہجری میں فوت ہوگئے۔ (فتح الباري: 286/1) ملحوظہ: صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں تیسری حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بلعوم، گلے کا وہ حصہ ہےجس سے کھانا نیچے اترتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 119
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2350
2350. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: لوگ ابوہریرہ ؓ کے متعلق بکثرت احادیث بیان کرنے کا ا عتراض کرتے ہیں۔ آخر اس نے بھی اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے مہاجرین اور انصار اس (ابوہریرہ ؓ) کی طرح احادیث کیوں نہیں بیان کرتے؟بات دراصل یہ ہے کہ میرے مہاجر بھائی بازاروں میں کاروبار کے لیے مشغول رہتے تھے اور میرے انصاری بھائی اپنے مویشیوں کی ذمہ داری میں لگے رہتے تھے جبکہ میں ایک قلاش آدمی تھا، پیٹ بھر جاتا تو ہروقت رسول اللہ ﷺ کے پاس رہتا تھا۔ جب یہ لوگ غائب ہوتے تو میں وہاں موجود رہتا اور جب وہ بھول جاتے تو میں یادرکھتا تھا ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جو کوئی اپنا کپڑا اس وقت تک پھیلائے رکھے جب تک میں اپنی گفتگو ختم کروں پھر اسے سمیٹ کراپنے سینے سے لگالے تو وہ میری گفتگو کو کبھی نہیں بولے گا۔“ یہ سن کر میں نے اپنی چادر بچھادی جبکہ اس چادر کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کپڑا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2350]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ اس روایت کو شجرکاری کے باب میں لائے ہیں کیونکہ اس روایت میں انصار کے کام میں شجرکاری بھی داخل ہے۔ چونکہ انصار نخلستان کے علاقے میں آباد تھے، اس لیے باغات کی دیکھ بھال کا کام بھی عمل اموال میں شامل ہے۔ یہی عنوان کا مقصد ہے۔ (2) حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان حدیث کے ضمن میں جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ حسب ذیل ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٦٠﴾ ) ”بےشک جو لوگ ہماری نزل کردہ بینات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، اس کے بعد کہ ہم نے لوگوں کے لیے ان کو کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں، مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ اور اپنی اصلاح کر لی اور (چھپائی ہوئی آیات کی) وضاحت کر دی تو میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا انتہائی مہربان ہوں۔ “(البقرة: 160،159: 2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ عمل اموال سے مراد انصار کا کھیتی باڑی اور شجرکاری میں مصروف ہونا ہے، اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري: 36/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2350
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7354
7354. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: تم خیال کرتے ہو کہ ابو ہریرہ، رسول اللہ ﷺ کی بہت احادیث بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور سب نے جانا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں ایک مسکین شخص تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا جبکہ مہاجرین کو بازار کے کاروبار مشغول رکھتے اور انصار کو اپنی زمینوں کی دیکھ بھال مصروف رکھتی تھی ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے فرمایا: ”کون ہے جو اپنی چادر پھیلائے رکھے یہاں تک کہ میں اپنا کلام پورا کرلوں، پھر وہ اپنی چادر سمیٹ لے اور اس کے بعد کبھی مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولے۔“ تو میں نے اپنے بدن کی چادر پھیلا دی۔ اللہ کی قسم! جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ا سکے بعد میں نے آپ سےجو چیز بھی سنی اس کو نہیں بھولا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7354]
حدیث حاشیہ: 1۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پانچ ہزاراحادیث زبانی یاد تھیں۔ اس کثرت ِ حدیث پر بعض لوگوں کو شک تھا۔ ان کے جواب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی۔ اس کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی خبر دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غائب رہنے کی بنا پر انھیں معلوم نہ تھے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر عمل کرنے کے لیے متواتر ہونے کی شرط لگاتے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خصوصی عنایت کیوجہ سے اپنے حافظے پر بہت اعتماد تھا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ”جب اللہ تعالیٰ جنت میں آخری آدمی کو اس کی خواہش کے مطابق جگہ الاٹ کرے گا تو پھر فرمائے گا: تجھے اس کے برابر مزید جگہ دی جاتی ہے۔ “ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےبرابر جگہ کے بجائے دس گنا جگہ دینے کے متعلق کہا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مجھے تو یہی یاد ہے اور میں نے ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6574)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7354
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری 119
... ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور (میری چادر میں ڈال دی) فرمایا کہ (چادر کو) لپیٹ لو۔ ... [صحيح بخاري 119]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے) عظیم حافظہ عطا فرمایا تھا۔
ایک دفعہ مروان بن الحکم الاموی نے ان سے کچھ حدیثیں لکھوائیں اور اگلے سال کہا: وہ کتاب گم ہو گئی ہے، وہی حدیثیں دوبارہ لکھوا دیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہی حدیثیں دوبارہ لکھوا دیں۔ (بعد میں جب وہ کتاب مل گئی) اور دونوں کتابوں کو آپس میں ملایا گیا تو ایک حرف کا بھی فرق نہیں تھا۔
دیکھئے: [المستدرك للحاكم 3 / 510 وسنده حسن]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بہت عرصہ بعد ایک نوجوان نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کی تو بغداد کی جامع مسجد کی چھت سے ایک بڑاسانپ گرا اور اس نوجوان کے پیچھے دوڑنا شروع کیا اور پھر جب اس نوجوان نے تو بہ کی تو سانپ غائب ہو گیا۔
یہ نوجوان اہلِ الرائے میں سے (یعنی حنفی) تھا۔
دیکھئے: [ماهنامه الحديث حضرو شماره 32 صفحه 14]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر اُس شخص کے دشمن تھے جو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن تھا۔
دیکھئے: [طبقات ابن سعد 4/ 335 وسنده صحيح]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام ابوبکر محمد بن اسحاق الامام رحمہ اللہ نے بہترین کلام فرمایا، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
چار طرح کے آدمی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جرح کرتے ہیں: اوّل: جہمی معطل (جو صفاتِ باری تعالیٰ کے منکر ہیں) دوم: خارجی (تکفیری جو مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کے قائل ہیں) سوم: قدری (معتزلی جو تقدیر اور احادیثِ صحیحہ کے منکر ہیں) چہارم: جاہل (جو فقیہ بنے بیٹھے ہیں اور بغیر دلیل کے) تقلید کی وجہ سے صحیح احادیث کے مخالف ہیں۔
دیکھئے: [المستدرك للحاكم 3 / 513 ح 6176 وسنده صحيح]
مکمل مضمون کے لئے دیکھئے: [كتاب الاربعين لابن تيميه صفحه 61 تا 65]