مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2371
2371. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑا کسی کے لیے اجر بنتا ہے تو کسی کے لیے پردہ بنتا ہے، نیز کسی کے لیے بوجھ بھی ہوتا ہے۔ ثواب کا ذریعہ اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں کام کے لیے رکھا۔ وہ شخص اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں دراز کردے تو جتنا کچھ بھی اس کے دائرے میں رہتے ہوئے چراگاہ یا باغ میں چرے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ اگلی ٹانگیں اٹھا کر ایک دو چھلانگیں لگائے (اور دوڑے)تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کی لید اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگروہ کسی نہر کے پاس سے گزر ے اور اس سے پانی پیے۔ حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ بھی نہیں تھا تو بھی اس کے لیے نیکیوں کا باعث ہے۔ اور وہ شخص جس نے مال داری اور سوال سے بچنے کے لیے گھوڑا باندھا، پھر اس کی گردن اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2371]
حدیث حاشیہ:
باب کا مضمون حدیث کے جملہ و لو أنها مرت بنهر الخ سے نکلتا ہے کیوں کہ اگر جانوروں کو نہر سے پانی پی لینا جائز نہ ہوتا تو اس پر ثواب کیوں ملتا۔
اور جب غیر پلانے کے قصد کے ان کے خود بخود پانی پی لینے سے ثواب ملا، تو قصداً پلانا بطریق اولیٰ جائز ہے بلکہ موجب ثواب ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2371
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4962
4962. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گھوڑا تین طرح کے لوگ پالتے ہیں: ایک شخص کے لیے باعث اجر و ثواب ہے، دوسرے کے لیے باعث پردہ ہے اور تیسرے کے لیے وبال جان ہے۔ جس شخص کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہے، وہ ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں جہاد کی نیت سے باندھا ہے۔ وہ چرا گاہ یا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے، جس قدر وہ چراگاہ یا باغ میں چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ ایک یا دو بلندیاں (ٹیلے) دوڑ جائے تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے۔ اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے، حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ یہ گھوڑا اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ اور جس شخص نے مالداری اور لوگوں سے سوال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4962]
حدیث حاشیہ:
پہلا شخص جس کے لئے گھوڑا باعث اجر و ثواب ہے وہ جس نے اسے فی سبیل اللہ کے تصور سے رکھا۔
دوسرا وہ جس کے لئے وہ معافی ہے اپنی ذاتی ضروریات کے لئے پالنے والا نہ بطور فخر و ریا کے۔
تیسرا محض ریا و نمود، فخر و غرور کے لئے پالنے والا۔
آج کل کی جملہ برقی سواریاں بھی سب اسی ذیل میں ہیں۔
گردن کا جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ اگر وہ تجارتی ہیں تو ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔
پشت کا حق یہ کہ تھکے ماندے مسافر مانگنے والے کو عاریتاً سواری کے لئے دیدے۔
آج کل برقی سواریاں بھی سب اسی ذیل میں آ کر باعث عذاب و ثواب بن سکتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4962
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2860
2860. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑے تین قسم کے ہیں: کسی شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ، کسی کے لیےبچاؤ کا سبب اور کسی کے لیے گناہ کا باعث ہوتے ہیں۔ ثواب کا ذریعہ تو اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں باندھا اور اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں لمبا کردیا۔ جس قدروہ چراگاہ یا باغ میں چاراکھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ رسی توڑڈالے اور وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید اور قدموں کے نشانات اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پیے۔ حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا تو اس میں اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور جس شخص نے اسے فخر وغرور، نمود ونمائش اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے لیے باندھا تو وہ اس کے لیے گناہ کا سبب ہے۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2860]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں اس کا ذکر چھوڑ دیا جس کے لئے ثواب ہے نہ عذاب۔
دوسری روایت میں اس کا بیان ہے وہ وہ شخص ہے جو اپنی تونگری کی وجہ سے اور اس لئے کہ کسی سے سواری مانگنا نہ پڑے باندھے پھر اللہ کا حق فراموش نہ کرے یعنی تھکے ماندے محتاج کو ضرورت کے وقت سوار کرا دے‘ کوئی مسلمان عاریتاً مانگے تو اس کو دے دے۔
آیت مذکورہ کو بیان فرما کر آپ ﷺنے لوگوں کو استنباط احکام کا طریقہ بتلایا کہ تم لوگ آیت اور احادیث سے استدلال کرسکتے ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2860
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4963
4963. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس اکیلی اور جامع آیت کے سوا مجھ پر اور کوئی خاص حکم ان کے متعلق نازل نہیں ہوا، وہ آیت یہ ہے: جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4963]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس آیت کے ذیل گدھے بھی اگر کوئی نیک نیتی سے پالے گا تو اسے ثواب ملے گا، بدنیتی سے پالے گا تو اس کو عذاب ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4963
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7356
7356. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں: ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا باعث ثواب ہے۔ دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا سبب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر کا باعث ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے میں باندھے رکھا اور اس کی رسی کو چراگاہ میں دراز کر دیا، وہ گھوڑا جس قدر چراگاہ میں گھوم پھر کر چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑ جائے تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کے لید بھی مالک کے لیے باعث اجر وثواب ہوگی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پئیے جبکہ مالک نے اسے پانی پلانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے اجر وثواب کا موجب ہوگا۔ اور جس نے اپنے گھوڑے کا اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھا پھر اس کی گردن اور پیٹھ کے متعلق اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7356]
حدیث حاشیہ:
گدھے پال کر ان سے اپنا کام لینا اور بوجھ وغیرہ اٹھانے کے لیے کسی کو بطور امداد اپنا گدھا دے دینا آیت (فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ)
کے تحت باعث خیر وثواب ہوگا صلی اللہ علیہ وسلم نے امر خیر پر اس آیت کو بطور دلیل عام پیش فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7356
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2371
2371. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑا کسی کے لیے اجر بنتا ہے تو کسی کے لیے پردہ بنتا ہے، نیز کسی کے لیے بوجھ بھی ہوتا ہے۔ ثواب کا ذریعہ اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں کام کے لیے رکھا۔ وہ شخص اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں دراز کردے تو جتنا کچھ بھی اس کے دائرے میں رہتے ہوئے چراگاہ یا باغ میں چرے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ اگلی ٹانگیں اٹھا کر ایک دو چھلانگیں لگائے (اور دوڑے)تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کی لید اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگروہ کسی نہر کے پاس سے گزر ے اور اس سے پانی پیے۔ حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ بھی نہیں تھا تو بھی اس کے لیے نیکیوں کا باعث ہے۔ اور وہ شخص جس نے مال داری اور سوال سے بچنے کے لیے گھوڑا باندھا، پھر اس کی گردن اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2371]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں گھوڑے کا نہر کے پاس سے گزرنے اور وہاں سے پانی پینے کا ذکر ہے، اگر اس کے مالک کی گھوڑے کو پانی پلانے کی نیت نہ ہو تو بھی اسے اجروثواب ملے گا اور اگر اسے پانی پلانے کا ارادہ اور نیت ہو تو بالاولیٰ ثواب کا حق دار ہو گا۔
جب رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق سوال ہوا کہ ان کا حکم بھی گھوڑوں جیسا ہے تو آپ نے فرمایا:
”اگر ان سے خیر مطلوب ہے تو اس کی جزا دیکھ لے گا اور قیامت کے دن اسے ثواب ملے گا بصورت دیگر عقاب و سزا کا حق دار ہو گا۔
“ (2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جو نہریں راستے پر واقع ہوں، ان میں سے آدمی اور حیوانات پانی پی سکتے ہیں۔
وہ کسی کے لیے خاص نہیں ہو سکتیں، اور نہ ان کے متعلق کوئی حق ملکیت کا دعویٰ ہی کر سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2371
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2860
2860. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑے تین قسم کے ہیں: کسی شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ، کسی کے لیےبچاؤ کا سبب اور کسی کے لیے گناہ کا باعث ہوتے ہیں۔ ثواب کا ذریعہ تو اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں باندھا اور اس کی رسی کو چراگاہ یا باغ میں لمبا کردیا۔ جس قدروہ چراگاہ یا باغ میں چاراکھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ رسی توڑڈالے اور وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید اور قدموں کے نشانات اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پیے۔ حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا تو اس میں اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور جس شخص نے اسے فخر وغرور، نمود ونمائش اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے لیے باندھا تو وہ اس کے لیے گناہ کا سبب ہے۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2860]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں گھوڑوں کی دوسری قسم کا ذکر نہیں ہے۔
دوسری روایات میں اس کا بیان ہے کہ جس نے تونگری کی بنا پر گھوڑوں کو باندھا تاکہ بوقت ضرورت کسی سے مانگنا نہ پڑے اور ان میں اللہ کا حق بھی اداکیا تو اس قسم کے گھوڑے اس کے لیے بچاؤ اور پردہ پوشی کاباعث ہیں۔
2۔
امام بخاری ؒنےدانستہ اس مختصر روایت کا انتخاب کیا ہے تاکہ گھوڑوں میں برکت اور نحوست کی وضاحت کریں:
یعنی پہلی قسم کے گھوڑے انسان کے لیے خیر و برکت کا باعث ہیں جو جہاد کے لیے تیارکررکھے ہیں۔
ان کی برکت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی لید،پیشاب وغیرہ بھی نامہ اعمال میں اضافے کا باعث ہوگا جبکہ دوسری قسم میں گھوڑوں کی نحوست کا ذکر ہے جو شخص محض ریاکاری اور مسلمانوں سے دشمنی کی بناپر گھوڑے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لیے وبال جان اور قیامت کے دن عذاب وعقاب کا باعث ہو ں گے۔
3۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ گھوڑوں میں نحوست ذاتی نہیں بلکہ انسان کے اپنے کردار سے پیدا ہوتی ہے،لہذا حیوانات میں ذاتی طور پر نحوست کا عقیدہ رکھنا دور جاہلیت کی باقیات سے ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2860
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4962
4962. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”گھوڑا تین طرح کے لوگ پالتے ہیں: ایک شخص کے لیے باعث اجر و ثواب ہے، دوسرے کے لیے باعث پردہ ہے اور تیسرے کے لیے وبال جان ہے۔ جس شخص کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہے، وہ ہے جس نے اسے اللہ کی راہ میں جہاد کی نیت سے باندھا ہے۔ وہ چرا گاہ یا باغ میں اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے، جس قدر وہ چراگاہ یا باغ میں چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ اور اگر اس کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ ایک یا دو بلندیاں (ٹیلے) دوڑ جائے تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے ثواب بن جاتی ہے۔ اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے، حالانکہ اس کا پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ یہ گھوڑا اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ اور جس شخص نے مالداری اور لوگوں سے سوال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4962]
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلا شخص جس نے فی سبیل اللہ کی نیت سے پالا وہ گھوڑا باعث اجر و ثواب ہے اور جس نے اپنی ضروریات کے لیے گھوڑا رکھا۔
لیکن فخر اور ریا کاری مقصود نہیں وہ قابل معافی ہے اور جس نے محض نمود و نمائش، دکھلاوے اور فخر و غرور کے لیے گھوڑا رکھا وہ باعث عذاب اور وبال جان ہے۔
آج کل دیگر تمام سواریاں بھی اسی ذیل میں آکر باعث ثواب یا موجب عذاب بن سکتی ہیں۔
2۔
سواری کی گردن میں اللہ کا حق یہ ہے کہ اگر وہ تجارتی کام میں استعمال ہوتی ہے تو اس کی زکاۃ ادا کی جائے اور پشت کا حق یہ ہے کہ کسی تھکے ماندے مسافر کو ساتھ بٹھا لیا جائے یا کسی کو بوقت ضرورت عاریتاً دے دی جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4962
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4963
4963. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اس اکیلی اور جامع آیت کے سوا مجھ پر اور کوئی خاص حکم ان کے متعلق نازل نہیں ہوا، وہ آیت یہ ہے: جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4963]
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گدھے نیک نیتی سے پالے گا۔
تو اسے ثواب ملے گا اور اگر بدنیتی سے پالے گا۔
تو اسے عذاب ہو گا۔
بہرحال قیامت کے دن چھوٹی نیکی یا برائی انسان کے سامنے آجائے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو کو درمیان میں لا رکھیں گے۔
پھر کسی پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا۔
اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا۔
ہم اسے لا حاضرکریں گے۔
اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔
“ (الأنبیاء: 21۔
47)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4963
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7356
7356. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں: ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا باعث ثواب ہے۔ دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا سبب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر کا باعث ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے میں باندھے رکھا اور اس کی رسی کو چراگاہ میں دراز کر دیا، وہ گھوڑا جس قدر چراگاہ میں گھوم پھر کر چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑ جائے تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کے لید بھی مالک کے لیے باعث اجر وثواب ہوگی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پئیے جبکہ مالک نے اسے پانی پلانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے اجر وثواب کا موجب ہوگا۔ اور جس نے اپنے گھوڑے کا اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھا پھر اس کی گردن اور پیٹھ کے متعلق اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7356]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص چیز کے حکم کو عام کے تحت داخل فرمایا ہے۔
یہ بھی کتاب وسنت سے تمسک (دلیل پکڑنے)
کی ہی ایک صورت ہے۔
ہرامرخیر کے لیے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب ہے کہ جو کوئی ان گدھوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں باندھے رکھے وہ خیر کاعامل ہے اور وہ قیامت کے دن اس خیر کی جزا دیکھ لے گا اور جو کوئی فخر وریاء اور مسلمانوں سے دشمنی کے لیے انھیں باندھتا ہے وہ شر کا عامل ہے اور اپنے اس شر کی سزا قیامت کے دن پالے گا۔
بہرحال گدھوں کو اپنے کام کے لیے پالنا، پھر انھیں دوسروں کو بطور تعاون دینا باعث خیر وثواب ہے جیسا کہ آیت کریمہ کا تقاضا ہے۔
اسے دلالت شرعی کہا جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7356