ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے، وہ سعید بن حارث سے، کہا ہم نے جابر بن عبداللہ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر (غزوہ بواط) میں گیا۔ ایک رات میں کسی ضرورت کی وجہ سے آپ کے پاس آیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہیں، اس وقت میرے بدن پر صرف ایک ہی کپڑا تھا۔ اس لیے میں نے اسے لپیٹ لیا اور آپ کے بازو میں ہو کر میں بھی نماز میں شریک ہو گیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا جابر اس رات کے وقت کیسے آئے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ضرورت کے متعلق کہا۔ میں جب فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ تم نے کیا لپیٹ رکھا تھا جسے میں نے دیکھا۔ میں نے عرض کی کہ (ایک ہی) کپڑا تھا (اس طرح نہ لپیٹتا تو کیا کرتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ کشادہ ہو تو اسے اچھی طرح لپیٹ لیا کر اور اگر تنگ ہو تو اس کو تہبند کے طور پر باندھ لیا کر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 361]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:361
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ اور حضرت جبار بن صخر ؓ کو غزوہ بواط کے موقع پر اس غرض سے روانہ کیا تھا کہ وہ آگے چل کر منزل پر پانی وغیرہ کا انتطام کریں۔ جیساکہ صحیح مسلم میں صراحت ہے۔ علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں: چونکہ حضرت جابر ؓ نے کپڑے کو بدن پر اس طرح لپیٹ لیا تھا کہ اس سے ہاتھ وغیرہ بسہولت باہر نہیں نکلتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انکار فرمایا۔ (إعلام الحدیث: 253/1) شاید انھوں نے اشتمال صماء کی وجہ سے یہ توجیہ کی ہے، بصورت دیگرصحیح مسلم میں اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ کپڑا انتہائی تنگ تھا، انھوں نے اسے اس طرح پہنا کہ اس کے دونوں کناروں کو ٹھوڑی کے نیچے دباکر آگے کو جھکے ہوئے تھے تاکہ ستر نہ کھل جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انھیں بایں حالت دیکھاتو فرمایا کہ کناروں کو الٹ کر پہننا اس وقت ہے جب کپڑا کشادہ ہوتنگ ہونے کی صورت میں اسے بطورازار پہننا ہی کافی ہے، کیونکہ مقصد ستر کو چھپانا ہے۔ (فتح الباری: 612/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 361