ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم کو زینب بنت ابی جحش رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت پریشان نظر آ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، عرب کے لیے تباہی اس شر سے آئے گی جس کے واقع ہونے کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا شگاف پیدا ہو گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں سے حلقہ بنا کر اس کی وضاحت کی۔ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں نیک لوگ ہوں گے پھر بھی ہم ہلاک کر دیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جب خباثتیں بڑھ جائیں گی (تو ایسا ہو گا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3598]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3598
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث میں شر سے مراد وہ فتنے ہیں جو عربوں میں ظاہر ہوئے۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جو فتنے ظاہر ہوئے وہ بہت المناک اور دلدوز ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یا جوج و ماجوج کی دیوار کا سوراخ دیکھا جو دو انگلیوں کےحلقے کے برابر تھا۔ یہ سوراخ بھی فتنوں کے ظاہر ہونے کی علامت ہے۔ 2۔ حدیث میں خبث سےمراد فسق و فجور اور گناہ ہیں۔ یعنی جب لوگ بہت گناہ کرنے لگیں گے تو یقینی طور پر ان کی ہلاکت قریب ہو گی کیونکہ جب خبائث کا غلبہ ہو جائے تو نیک لوگوں کی نیکیاں مغلوب ہو کر رہ جاتی ہیں۔ 3۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ فارس اور روم کے خزانے ملنے کے بعدفتنوں کا دور دورہ ہو گا کیونکہ جب فتوحات کی کثرت ہوگی تو مال و دولت کی فراوانی سے حسد و عدوات اور مخالفت و عناد پیدا ہوگا جو خونریزی اور قتل وغٖارت کے پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ 4۔ بعض شارحین نے اس فتنے سے ترک مراد لیے ہیں جنھوں نے بغداد اور دیگر بلاد اسلام میں فتنے برپا کیے جو خروج دجال تک جاری رہیں گے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3598
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7237
حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھبرائے ہوئے نکلے، آپ کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، آپ نے فر رہے تھے۔"لا الہ الا اللہ، عربوں کے لیے اس شر سے ہلاکت ہے جو قریب آچکا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیواراتنی کھل چکی ہے:"آپ نے اپنے انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی شہادت سے حلقہ بنایا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے، جبکہ ہم میں نیک لوگ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7237]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ نے عربوں کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ اس وقت مسلمانوں میں ان کو اکثریت اور غلبہ حاصل تھا اور حکومت واقتدار پر وہی متمکن تھے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا، آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے، بروں کی اکثریت میں نیک لوگوں کی اقلیت بھی تباہی سے بچ نہیں سکتی، کیونکہ وہ اکثریت کے آگے بند باندھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، یا ان کی کوشش رائیگاں جاتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7237
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7059
7059. سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ نبی ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ انور سرخ تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عربوں کی تباہی اس آفت سے ہوگی جو قریب ہی آلگی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔“ سفیان نے نوے یا سو کا اشارہ کر کے بتایا: پوچھا کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں جب بدکاری اور خباثت زیادہ بڑھ جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7059]
حدیث حاشیہ: نوے کا اشارہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کے کلمے کی انگلی کی نوک اس کی جڑ پر جمائی اور سو کا اشارہ بھی اس کے قریب قریب ہے۔ برائی سے مراد زنا یا اولاد زنا کی کثرت ہے دیگر فسق وفجور بھی مراد ہیں۔ یاجوج ماجوج کی سد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتنی کھل گئی تھی تو اب معلوم نہیں کتنی کھل گئی ہوگی اور ممکن ہے برابر ہوگئی ہو یا پہاڑوں میں چھپ گئی ہو اور جغرافیہ والوں کی نگاہ اس پر نہ پڑی ہو۔ یہ مولانا وحید الزماں کا خیال ہے۔ اپنے نزدیک واللہ أعلم بالصواب آمنا بما قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7059
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7135
7135. سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے، کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں گھبرائے ہوئے تشریف لائے۔ آپ فر رہے تھے: ”عربوں کے لیے اس برائی کی وجہ سے تباہی ہے جو بالکل قریب آلگی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا کھل گیا ہے۔“ اور آپ نے اپنے انگوٹھے اور اسکے قریب والی انگلی کو ملا کر ایک حلقہ سا بنایا۔سیدہ زینب بنت حجش ؓا نے یہ سن کر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی میں بھی ہلاک کردیے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب بدکاری بہت بڑھ جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7135]
حدیث حاشیہ: ہمارے زمانہ میں بہت سے لوگ اس میں شبہ کرتے ہیں کہ جب یاجوج ماجوج اتنی بڑی قوم ہے کہ اس میں کا کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ہزار آدمی اپنی نسل کے نہیں دیکھ لیتا تو یہ قوم اس وقت دنیا کے کس حصہ میں آباد ہے۔ اہل جغرافیہ نے تو ساری دنیا کو چھانڈالا ہے یہ ممکن ہے کہ کوئی چھوٹا سا جزیدہ ان کی نظر سے رہ گیا ہو مگر اتنا بڑا ملک جس میں ایسی کثیر التعداد قوم بستی ہے نظر نہ آنا قیاس سے دور ہے۔ دوسرے اس زمانہ میں لوگ بڑے بڑے اونچے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں ان میں ایسے ایسے سوراخ کرتے ہیں جس میں سے ریل چلی جاتی ہے تو یہ دیوار ان کو کیوں کہ روک سکتی ہے؟ سخت سے سخت چیز دنیا میں فولاد اس میں بھی بہ آسانی سوراخ ہوسکتا ہے کتنی ہی اونچی دیوار آلات کے ذریعہ سے اس پر چڑھ سکتے ہیں۔ ڈائنامائٹ سے اس کو دم بھر میں گراسکتے ہیں۔ ان شبہوں کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ دیوار اب تک موجود ہے اور یاجوج ماجوج کو روکے ہوئے ہے۔ البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ضرور موجود تھی اور اس وقت تک دنیا میں صنعت اور آلات کا ایسا رواج نہ تھا تو یاجوج ماجوج کی وحشی قومیں اس دیوار کی وجہ سے رکی رہنے میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ رہا یہ کہ یاجوج ماجوج کے کسی شخص کا نہ مرنا جب تک وہ ہزار آدمی اپنی نسل سے نہ دیکھ لے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسی وقت تک کا بیان ہو جب تک آدمی کی عمر ہزار دو ہزار سال تک ہوا کرتی تھی نہ کہ ہمارے زمانہ کا جب عمر انسانی کی مقدار سو برس یا ایک سو بیس برس رہ گئی ہے۔ آخر یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں ہماری عمر وں کی طرح ان کی عمر یں بھی گھٹ گئی ہوں گی اب یہ جو آثار صحابہ اور تابعین سے منقول ہیں کہ ان کے قدوقامت اور کان ایسے ہیں، ان کی سندیں صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں اور جغرافیہ والوں نے جن قوموں کو دیکھا ہے انہیں میں سے دو بڑی قومیں یاجوج اور ماجوج ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7135
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3346
3346. حضرت زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھبرائے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ عرب کی تباہی اس آفت کی وجہ سے ہونے والی ہے جو بالکل قریب آلگی ہے۔ آج یا جوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔“ آپ ﷺ نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے سوراخ بنا کر اس کی مقدار بتائی۔ حضرت زینب بنت حجش ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی میں ہلاک ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں جب برائی زیادہ پھیل جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3346]
(1) ان کا تعلق آدم کی اولاد سے ہے۔ ، آدم کے علاوہ وہ کسی اور سے پیدا شدہ نہیں ہیں۔ (2) وہ اس قدر کثرت سے ہیں کہ ملت اسلامیہ ان کافروں کا ہزارواں حصہ ہو گی۔ (3) دنگا فساد ان کی سرشت ہے۔ ذوالقرنین نے ان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ان دروں کولوہے سے بند کردیا تھا جن کے ذریعے سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ (4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اس سد سکندری کو دیکھا تھا جو منقش چادر کی طرح تھی۔ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ دیوار کچھ کمزور ہو چکی تھی کہ اس میں معمولی سا سوراخ ہوگیا تھا۔ (6) قیامت کے نزدیک وہ دیوار پیوند زمین ہو جائے گی اور یاجوج و ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے۔ (7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی۔ جب تک نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔ ان میں ایک یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہونا ہے۔ ان کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہو جائے گی۔ جو روایات ان قدو قامت کے متعلق منقول ہیں وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ حدیث ترجمہ: ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے، ان سے زینب بنت جحش ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف لائے آپ کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آجائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کردیا ہے پھر آنحضرت ﷺ نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بناکر بتلایا۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا یارسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کردئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا۔ (تو یقینا بربای ہوگی) حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3346
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7059
7059. سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ نبی ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ انور سرخ تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عربوں کی تباہی اس آفت سے ہوگی جو قریب ہی آلگی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔“ سفیان نے نوے یا سو کا اشارہ کر کے بتایا: پوچھا کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں جب بدکاری اور خباثت زیادہ بڑھ جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7059]
حدیث حاشیہ: 1۔ عربوں کے ہاں نوے کا عدد اس طرح ہے کہ شہادت والی انگلی کا سر انگوٹھے کی جڑ پر رکھیں، پھر انگوٹھے کو انگلی کے ساتھ اس طرح ملا دیں کہ اندر گول دائرے کا نشان بن جائے۔ 2۔ حدیث میں خباثت سے مراد فسق وفجور کی بہتات اور زنا واولاد زنا کی کثرت ہے۔ یاجوج ماجوج سے مراد وہ انتہائی شمال مشرقی علاقے کی وحشی قومیں ہیں جو پہاڑی دروں کے راستے سے یورپ اورایشاء کی مہذب قوموں پر حملہ آور ہوتی تھیں۔ ذوالقرنین نے ایک پچاس میل لمبی اور 1فٹ چوڑی دیوار بنا کر ان دروں کو پاٹ دیا تھا، جس پر چڑھا جا سکتا ہے نہ اس میں شگاف کیا جا سکتا ہے۔ قرب قیامت یہ دیوار ختم ہو جائے گی تو یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بے شمار تعداد میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے اور اس طرح حملہ آور ہوں گے جس طرح کوئی شکاری جانور پنجرے سے آزاد ہو کر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ یہ دونوں قومیں متحد ہوکر شورش برپا کریں گی اور ایسا قیامت کے قریب ہوگا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حملے کو قیامت کی نشانی قراردیاہے۔ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث 7285(2901) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وہ دیوار تھوڑی سی کھل گئی تھی جو دن بدن زیادہ ہوتی جائے گی حتی کہ قیامت کے قریب وہ بالکل ختم ہوجائےگی۔ حدیث میں عرب کو اس لیے خاص کیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے یہی لوگ تھے اور جب فتنوں کا آغاز ہوگا تو سب سے پہلے یہی لوگ ان کا شکار ہوں گے۔ (فتح الباري: 18/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7059