ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عامر نے، کہا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے والد (عبداللہ بن عمرو بن حرام، جنگ احد میں) شہید ہو گئے تھے۔ اور وہ مقروض تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میرے والد اپنے اوپر قرض چھوڑ گئے۔ ادھر میرے پاس سوا اس پیداوار کے جو کھجوروں سے ہو گی اور کچھ نہیں ہے اور اس کی پیداوار سے تو برسوں میں قرض ادا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیے تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ کر زیادہ منہ نہ پھاڑیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (لیکن وہ نہیں مانے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے جو ڈھیر لگے ہوئے تھے پہلے ان میں سے ایک کے چاروں طرف چلے اور دعا کی۔ اسی طرح دوسرے ڈھیر کے بھی۔ پھر آپ اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کھجوریں نکال کر انہیں دو۔ چنانچہ سارا قرض ادا ہو گیا اور جتنی کھجوریں قرض میں دی تھیں اتنی ہی بچ گئیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3580]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3580
حدیث حاشیہ: آپ کی دعائے مبارک سے کھجوروں میں برکت ہوگئی۔ باب اور حدیث میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3580
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3580
حدیث حاشیہ: دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی تھے جب قرض ادا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ سے کہا: جاؤ حضرت عمر ؓ کو اس کے ادا ہونے کی خبر دے دو کیونکہ حضرت عمر ؓ اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے۔ جب انھیں پتہ چلا تو فرمایا: مجھے تو اس وقت ہی یقین ہو گیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے ڈھیروں کے گرد چکر لگایا کہ اللہ تعالیٰ ان میں ضرور برکت دے گا۔ ”بہر حال اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے کہ آپ کی دعا سے ان میں اس قدر برکت ہوئی کہ قرض بھی ادا ہو گیا پھر گھر کی گزر اوقات کے لیے کھجوریں بھی بچ گئیں۔ “(فتح الباري: 726/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3580