ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان اور ابن مہدی دونوں نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے اسی طرح بیان کیا (اس زیادتی کے ساتھ) کہ جب آپ کسی بات کو برا سمجھتے تو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہو جاتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: Q3563]
مجھ علی بن جعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا، اگر آپ کو مرغوب ہوتا تو کھاتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3563]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3563
حدیث حاشیہ: اللہ والوں کی یہی شان ہوتی ہے، برخلاف اس کے دنیا پرست شکم پرور لوگ کھانا کھانے بیٹھتے ہیں اورلقمہ لقمہ میں عیب جوئیاں شروع کردیتے ہیں، اللہ پاک ہر مسلمان کو اسوہ رسول پر عمل کی توفیق بخشے۔ (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3563
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3563
حدیث حاشیہ: اللہ والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ کبھی کسی کھانے کو معیوب قرارنہیں دیتے،اس کے برعکس دنیا پرست اور شکم پرور(پیٹو) لوگ جو کھانے بیٹھتے ہیں تو لقمے لقمے میں عیب نکالنا شروع کردیتے ہیں اور ہمارے ہاں تو یہ عام رواج ہے کہ کھانا کھاتے وقت مرچ نمک کی کمی کا شکوہ شروع ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہمیں اس روش کا جائزہ لینا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3563
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3763
´کھانے کی برائی بیان کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ بات ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر رغبت ہوتی تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3763]
فوائد ومسائل: 1۔ انسان اللہ کی نعمت کھانے سے رہ بھی نہ سکے۔ اور پھر اس کی عیب جوئی بھی کرے۔ یہ بہت بُری خصلت ہے۔ اگر کھانا تیار کرنے والے کی تقصیر ہوتو اس کو مناسب انداز سے سمجھا دینا چاہیے۔
2۔ اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا جا سکتا ہے۔ کہ انسان نے کسی شخص یا کسی ادارے سے کوئی معاہدہ طے کیا ہو۔ اور طے شدہ امور وشرائط پر معاملہ چل رہا ہو تو مناسب نہیں کہ اس ادارے یا افراد پر بلاوجہ معقول طعن وتشنیع کرے۔ یا تو بخیر وخوبی ساتھ نبھائے یا بھلے انداز سے جدا ہو جائے۔ تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا اسلامی شرعی اور اخلاق حق اچھے طریقے سے ادا کیا جانا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3763
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5409
5409. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے اگر ناپسند ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5409]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ کھانے کاعیب بیان کرنا جیسے یوں کہنا کہ اس میں نمک نہیں ہے یا پھیکا ہے یا نمک زیادہ ہے۔ یہ ساری باتیں مکروہ ہیں۔ پکانے اور ترکیب میں کسی نقص کی اصلاح کرنا مکروہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5409
5409. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے اگر ناپسند ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5409]
حدیث حاشیہ: (1) اس سے مراد حلال کھانا ہے کیونکہ حرام کھانے کی مذمت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ وہ تو سراپا عیب ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مذمت کرتے اور اسے کھانے سے منع فرماتے تھے۔ (2) بعض حضرات کا خیال ہے کہ خلقت کے اعتبار سے اسے معیوب قرار دینا منع ہے، البتہ تیار شدہ کھانے پر عیب لگایا جا سکتا ہے لیکن الفاظ میں عموم ہے، کسی صورت میں اسے معیوب کہنا صحیح نہیں، خواہ بنانے اور تیار کرنے کے اعتبار سے کیوں نہ ہو۔ اس طرح کھانا تیار کرنے والے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کھانے کے آداب میں سے ہے کہ اس میں عیب نہ نکالے جائیں کہ اس میں نمک نہیں ہے یا پھیکا ہے یا نمک زیادہ ہے یا اس کا شوربا اچھی طرح پکا ہوا نہیں ہے۔ یہ تمام باتیں مکروہ ہیں، البتہ پکانے اور ترکیب میں کسی نقص کی اصلاح کرنا مکروہ نہیں ہے۔ (فتح الباري: 678/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5409