ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے بیان کیا کہ کسی نے براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار کی طرح (لمبا پتلا) تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، چہرہ مبارک چاند کی طرح (گول اور خوبصورت) تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3552]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3552
حدیث حاشیہ: گول سے یہ غرض نہیں کہ بالکل گول تھا بلکہ گولائی تھی۔ عرب میں یہ حسن میں داخل ہے، اس کے ساتھ آپ کے رخسار پھولے نہ تھے، بلکہ صاف تھے جیسے دوسری روایت میں ہے۔ داڑھی آپ کی گول اور گھنی ہوئی، قریب تھی کہ سینہ ڈھانپ لے، بال بہت سیاہ، آنکھیں سرمگیں، ان میں لال ڈورا تھا۔ الغرض آپ حسن مجسم تھے۔ (صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3552
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3552
حدیث حاشیہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق آپ کا چہرہ بدر کا مل(چودھویں کے چاند) کی طرح چمکدار اور گولائی لیے ہوئے تھا اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق آپ کا چہرہ ماہ وخورشید کی طرح روشن وتابناک اورقدرے گول تھا۔ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6084(2344) حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ایسالگتا کہ سورج طلوع ہورہا ہے۔ (سنن الدارمي: 31/1) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس پُرنور اور انتہائی خوبصورت تھا۔ جب کوئی آپ کے چہرے کی رعنائی بیان کرتا تو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دیتا،یعنی لوگوں کو آپ کاروئے زیبا چمکتے ہوئے چاند کی طرح جگمگاتا ہوا نظر آتا۔ (دلائل النبوة: 298/1) ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا چہرہ لمبائی میں تلوار جیسا نہیں بلکہ گولائی میں چاند جیسا تھا۔ چاند میں گولائی اورچمک دونوں پائی جاتی ہیں۔ لہذا تلوار سے تشبیہ دینے کی نسبت چاند سے تشبیہ دینے میں فوقیت پائی جاتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3552