ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو بلایا (اور ان کو قرآن مجید کی کتابت پر مقرر فرمایا، چنانچہ ان حضرات نے) قرآن مجید کو کئی مصحفوں میں نقل فرمایا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے (ان چاروں میں سے) تین قریشی صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب آپ لوگوں کا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے (جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے) قرآن کے کسی مقام پر (اس کے کسی محاورے میں) اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کے محاورے کے مطابق لکھنا، کیونکہ قرآن شریف قریش کے محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3506]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3506
حدیث حاشیہ: ہوا یہ کہ قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں تمام صحابہ کے اتفاق سے جمع ہوچکا تھا، وہی قرآن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کے پاس رہا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہی قرآن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے منگوا کر اس کی نقلیں مذکورہ بالا لوگوں سے لکھوائیں اور ایک ایک نقل عراق، مصر، شام اور ایران وغیرہ ملکوں میں روانہ کردیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو جامع قرآن کہتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ انہوں نے قرآن کی نقلیں صاف خطوں سے لکھوا کر ملکوں میں روانہ کیں، یہ نہیں کہ قرآن ان کے وقت میں جمع ہوا، قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی جمع ہوچکا تھا جو کچھ متفرق رہ گیا تھا وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سب ایک جگہ جمع کردیا گیا۔ یہاں باب کا مقصد قریش کی فضیلت بیان کرنا ہے کہ قرآن مجید ان کے محاورے کے مطابق نازل ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3506
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3506
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قریشی تھے اورآپ پر قرآن مجید کا نزول اسی مادری زبان کے مطابق ہواتھا تاکہ پہلے آپ خود اسے بخوبی سمجھیں، پھر دوسرے لوگوں کو احسن طریقے سے سمجھا سکیں۔ 2۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلکھوانے سے پہلے قرآن مجید لکھا ہوا موجودتھا اور اس کانسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس موجود تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ قرآنی صحیفے بھیج دیں جو ان کے پاس ہیں، ہم مصاحف لکھنے کے بعد انھین واپس کردیں گے، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی نقلیں تیار کرواکر اطراف عالم میں بھیج دیں۔ قرآن مجید لکھنے کی ہدایت کی اور فرمایا: اگرتمہارا کہیں قرآنی رسم الخط کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کے محاورے کے مطابق تحریرکرنا، چنانچہ ان کا لفظ تابوت کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے تابوۃ لکھنا چاہتے تھے جبکہ قریش کے ہاں اس کا رسم الخط تابوت تھا، تو اسی محاورے کے مطابق لکھا گیا۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے۔ انھوں نے کتاب الفضائل القرآن میں بھی اس حدیث پر اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے: قرآن قریش اور عرب کے محاورے کے مطابق نازل ہوا۔ (فتح الباري: 659/6) مصاحف لکھنے کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحیفہ واپس کر دیا گیا اور باقی ذاتی قسم کے صحائف جلادیے گئے۔ (عمدة القاري: 257/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3506