ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو سب سے زیادہ محبت تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رزق بھی ان کو ملتا وہ اسے صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (کسی سے) کہا ام المؤمنین کو اس سے روکنا چاہیے (جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی بات پہنچی) تو انہوں نے کہا: کیا اب میرے ہاتھوں کو روکا جائے گا، اب اگر میں نے عبداللہ سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرنے کے لیے) قریش کے چند لوگوں اور خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نانہالی رشتہ داروں (بنو زہرہ) کو ان کی خدمت میں معافی کی سفارش کے لیے بھیجا لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا پھر بھی نہ مانیں۔ اس پر بنو زہرہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہوتے تھے اور ان میں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جا بیٹھیں تو تم ایک دفعہ آن کر پردہ میں گھس جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا (جب عائشہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں تو) انہوں نے ان کی خدمت میں دس غلام (آزاد کرانے کے لیے بطور کفارہ قسم) بھیجے اور ام المؤمنین نے انہیں آزاد کر دیا۔ پھر آپ برابر غلام آزاد کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کر دیئے پھر انہوں نے کہا کاش میں نے جس وقت قسم کھائی تھی (منت مانی تھی) تو میں کوئی خاص چیز بیان کر دیتی جس کو کر کے میں فارغ ہو جاتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3505]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3505
حدیث حاشیہ: یعنی صاف یوں نذر مانتی کہ ایک غلام آزاد کروں گی اتنے مسکینوں کو کھانا کھلاؤں گی تو دل میں تردد نہ رہتا۔ حضرت عائشہ ؓنے مبہم منت مانی اور کوئی تفصیل بیان نہیں کی، اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کئے۔ اس سے بعض علماءنے دلیل لی ہے کہ مجہول نذر درست ہے مگر وہ اس میں ایک قسم کا کفارہ کافی سمجھتے ہیں۔ یہ عبداللہ بن زبیر ؓ، حضرت عائشہ ؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءبنت ابی بکر ؓ کے بیٹے ہیں، لیکن ان کی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے ان کی سگی خالہ حضرت عائشہ ؓنے کی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3505
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3505
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بڑی ہمشیر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے لڑکے ہیں۔ ان دونوں بہنوں کے باپ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مائیں مختلف ہیں، یعنی یہ دونوں پدری بہنیں ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں اولاد نہیں تھی، اس لیے انھوں نے اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس رکھا اور ان کی تعلیم وتربیت کاخصوص اہتمام کیا۔ آپ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ناراضی اور پھر معافی کا واقعہ تو حدیث میں مذکور ہے۔ 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبہم نذر مانی تھی، اس لیے ایک دوغلام آزاد کرنے پر ان کا دل مطمئن نہ تھا، اس لیے انھوں نے چالیس غلام آزاد کیے، البتہ اگرآپ نذر متعین کرلیتیں تو وہی غلام آزادکرنے سے آپ فارغ ہوجاتیں۔ صحیح مسلم میں ہے: ”نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔ “(صحیح مسلم، النذر، حدیث: 4253(1645) شاید انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو، بصورت دیگر وہ ایسا نہ کرتیں اور نہ چالیس غلام ہی آزاد کرتیں۔ بہرحال آپ نے کسی قسم کی تفصیل کے بغیر مبہم نذر مانی تھی۔ اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کیے۔ 3۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے چند قریشیوں کوحضرت عائشہ ؓکے پاس سفارش کے لیے بھیجا، یعنی وہ اس قابل تھے کہ ان سے سفارش کرائی جاتی تھی۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3505