ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے نوکروں کو اس نے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب تم کسی کو مفلس پاؤ (جو میرا قرض دار ہو) تو اسے معاف کر دیا کرو۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرما دے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملا تو اللہ نے اسے بخش دیا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3480]
يداين الناس فيقول لرسوله خذ ما تيسر واترك ما عسر وتجاوز لعل الله أن يتجاوز عنا فلما هلك قال الله له هل عملت خيرا قط قال لا إلا أنه كان لي غلام وكنت أداين الناس فإذا بعثته ليتقاضى قلت له خذ ما تيسر واترك ما عسر وتجاوز لعل الله يتجاوز عنا قال الله قد تجاوزت
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4698
´قرض وصول کرنے میں اچھے سلوک اور نرمی برتنے کی فضیلت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی نے کبھی کوئی بھلائی کا کام نہیں کیا تھا لیکن وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا، پھر اپنے قاصد سے کہتا: جو قرض آسانی سے واپس ملے اسے لے لو اور جس میں دشواری پیش آئے، اسے چھوڑ دو اور معاف کر دو، شاید اللہ تعالیٰ ہماری غلطیوں کو معاف کر دے، جب وہ مر گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: کیا تم نے کبھی کوئی خیر کا کام کیا؟ اس نے کہا: نہیں، سوائے اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4698]
اردو حاشہ: (1) جو شخص اللہ عزوجل کے بندوں کے ساتھ حسن معاملہ اور شفقت ونرمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ فرمائے گا، اور اس کا بدلہ جنت کی صورت میں دے گا۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سابقہ شریعت بھی ہمارے لیے، ہماری اپنی شریعت ہی کی طرح واجب العمل اور واجب الطاعۃ ہے الا یہ کہ قرآن وحدیث کی تردید کر دیں۔ اس مسئلے کی بابت اگرچہ اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم اہل علم کا صحیح قول ہے یہی ہے۔ امام بخاری، امام مسلم اور امام نسائی رحمہم اللہ وغیرہ کا مسلک یہی ہے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے جہاں تنگ دست شخص کو مہلت دینے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے وہاں مفلس و قلاش شخص کے ذمہ تمام یا کچھ قرض معاف کر دینے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ ﴿وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾(المطففین:83: 26) (4) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی معمولی سی نیکی بھی بہت سے گناہوں کے مٹا دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ (5) غلام کو وکیل بنانے اور معاملات میں تصرف کرنے کا اختیار دینا جائز ہے۔ (6) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان خود نیکی کا کام نہ کرے بلکہ کسی اور سے کرائے تو اس کام کرنے والے کے ساتھ ساتھ کرانے والے کو بھی پورا اجر ملے گا۔ (7) شریعت مطہرہ نے یہ ہدایات اس لیے دی ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے والے شخص کو بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ خوش اخلاقی بہت بڑی نیکی ہے، نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ خوش اخلاق تاجر کے کاروبار میں بہت برکت ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4698
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3998
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی لوگوں سے ادھار لین دین کرتا تھا، لوگوں کو ادھار سامان دیتا تھا، اور اپنے خادم سے کہتا تھا، جب تو تنگدست کے پاس جائے تو اس سے درگزر کرنا، امید ہے، اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے گا، تو جب وہ اللہ سے ملا، اللہ تعالیٰ نے اس سے (اس کے گمان کے مطابق) درگزر فرمایا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3998]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: تنگدست سے درگزر کرنے کی مختلف صورتیں ہیں، مثلا اس کو رقم کلی طور پر چھوڑدینا، قرضہ کا کچھ حصہ معاف کر دینا، اس کو سہولت اور آسانی کے ساتھ قرض ادا کرنے کی مہلت دینا، رقم قسطوں کی صورت میں لینا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3998
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2078
2078. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "ایک تاجر شخص لوگوں سے قرض کا لین دین کرتا تھا۔ جب وہ دیکھتا کہ کوئی تنگ دست آدمی ہے تو اپنے اہل کاروں سے کہتا کہ قرض معاف کردو، شایداللہ ہمیں معاف کردے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر کا معاملہ فرمایا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2078]
حدیث حاشیہ: تنگ دست کو مہلت دینا اور اس پر سختی نہ کرنا عنداللہ محبوب ہے، مگر ایسے لوگوں کو بھی ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہئیے کہ مال والے کا مال تلف ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ مقروض اگر دل میں ادائیگی قرض کی نیت رکھے گا تو اللہ پاک بھی ضرور اس کا قرض ادا کرا دے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2078
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2078
2078. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "ایک تاجر شخص لوگوں سے قرض کا لین دین کرتا تھا۔ جب وہ دیکھتا کہ کوئی تنگ دست آدمی ہے تو اپنے اہل کاروں سے کہتا کہ قرض معاف کردو، شایداللہ ہمیں معاف کردے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر کا معاملہ فرمایا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2078]
حدیث حاشیہ: (1) قرآن کریم میں ہے: (وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ) اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینا لازم ہے اور اور اگر تم اس پر صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ "(البقرۃ280: 2) لہٰذا غریب اور نادار آدمی پر مہربانی کرنی چاہیے جس کی دوصورتیں ہیں: ٭اسے حالات درست ہونے تک مزید مہلت دی جائے۔ ٭اسے قرض بالکل معاف کردیا جائے۔ (2) صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایسے شخص کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دیتا ہے یا اسے معاف کردیتا ہے تو قیامت کے دن اللہ اسے اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا۔ "(صحیح مسلم،الذھد،حدیث: 7512(3006) ایک دوسری حدیث میں ہے: "جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اسے قیامت کے دن پریشانیوں سے نجات مل جائے تو اسے چاہیے کہ تنگ دست مقروض کو مزید مہلت دے یا اسے قرض معاف کردے۔ "(صحیح مسلم،المساقاۃ،حدیث: 4000(1563)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2078