الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
54. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3476
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ الْهِلَالِيَّ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ آيَةً، وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ خِلَافَهَا فَجِئْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ الْكَرَاهِيَةَ، وَقَالَ:" كِلَاكُمَا مُحْسِنٌ وَلَا تَخْتَلِفُوا فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا فَهَلَكُوا".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے نزال بن سبرہ ہلالی سے سنا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک صحابی (عمرو بن العاص) کو قرآن مجید کی ایک آیت پڑھتے سنا۔ وہی آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف قرآت کے ساتھ میں سن چکا تھا، اس لیے میں انہیں ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر اس کی وجہ سے ناراضی کے آثار دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اچھا پڑھتے ہو۔ آپس میں اختلاف نہ کیا کرو۔ تم سے پہلے لوگ اسی قسم کے جھگڑوں سے تباہ ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3476]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريكلاكما محسن فاقرءا أكبر علمي قال فإن من كان قبلكم اختلفوا فأهلكهم
   صحيح البخاريكلاكما محسن ولا تختلفوا فإن من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا
   صحيح البخاريسمعت رجلا قرأ آية سمعت من النبي خلافها فأخذت بيده فأتيت به رسول الله فقال كلاكما محسن

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3476 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3476  
حدیث حاشیہ:
یعنی قرآن مجید میں جو اختلاف قرات ہے، اس میں ہرآدمی کواختیار ہے جوقرات چاہے وہ پڑھے۔
اس امر میں لڑنا جھگڑنا منع ہے۔
ایسے ہی فروعی اور قیاسی مسائل میں لڑنا جھگڑنا منع ہے اور خواہ مخواہ کسی کو قیاسی مسائل کےلیے مجبور کرنا کہ وہ صرف حضرت امام ابوحنیفہ ؒ یا صرف حضرت امام شافعی ؒ کےاجتہاد پرچلے یہ ناحق کا تحاکم اور جبر اورظلم ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3476   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3476  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے جس اختلاف سے ڈرایا ہے اس سے مراد وہ اختلاف ہے جو انسان کو کفر و شرک یا بدعت تک پہنچا دے مثلاً:
نفس قرآن میں اختلاف کرنا البتہ قرآءت کے سلسلے میں آدمی کو اختیار ہے کہ جسے چاہے پڑھے۔
اسی طرح اظہار حق کے لیے جو مناظرات ہیں وہ ممنوع نہیں نیز فروعی اور قیاسی مسائل میں لڑنا جھگڑنا اور بال کی کھال اتارنا کوئی مستحن کام نہیں۔
اسی طرح قیاسی مسائل میں کسی ایک امام کے اجتہادات تسلیم کرنے پر کسی کو مجبور کرنا بھی درست نہیں۔

واضح رہے کہ ہمارے ہاں اختلافات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک حدیث پیش کی جاتی ہے۔
میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے۔
یہ خود ساختہ اور بناوٹی حدیث ہے۔
محدثین کے معیار صحت پر یہ پوری نہیں اترتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3476   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2410  
´قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان`
«. . . قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ:"سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ آيَةً سَمِعْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِلَافَهَا، فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَأَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كِلَاكُمَا مُحْسِنٌ". قَالَ شُعْبَةُ: أَظُنُّهُ قَالَ: لَا تَخْتَلِفُوا، فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا فَهَلَكُوا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس کے خلاف سنا تھا۔ اس لیے میں ان کا ہاتھ تھامے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرا اعتراض سن کر) فرمایا کہ تم دونوں درست ہو۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْخُصُومَاتِ: 2410]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2410 کا باب: «بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الإِشْخَاصِ وَالْخُصُومَةِ بَيْنَ الْمُسْلِمِ وَالْيَهُودِ:» باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرضدار اور مسلمان یہودی کے جھگڑے کا ذکر فرمایا ہے مگر حدیث میں نہ ہی قرضدار کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی کسی یہودی کا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مناسبت دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«والمقصود منه هنا قوله: فأخذت بيده فأتيت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فانه مناسب للترجمة» [فتح الباري، ج 2، ص: 61]
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں مقصود یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا۔ پس مناسبت ترجمۃ الباب سے انہی الفاظ کے ساتھ ہے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب سے مطابقت ان الفاظ حدیث میں ہے:
«لا تختلفوا» آخر تک، وہ اختلاف جس میں ہلاکت ہو وہ جھگڑے سے زیادہ سخت ترین ہے۔ [عمدة القاري، ج 12، ص367]

محمد ذکریا کاندھلوی فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ان الفاظ میں ہے:
«فأخذت بيده فأتيت به» ۔ [الأبواب والتراجم، ج 4، ص: 33]

یعنی صحابی نے ایک دوسرے شخص کو پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ یہ اختلاف قرآن مجید کی قرأت کے متعلق تھا۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح عام حالات میں لڑائی جھگڑا کسی بھی اعتبار سے منع ہے تو بالاولیٰ قرآن مجید کے معاملے میں بھی اختلاف کرنا حرام ہے۔

قلت:
ترجمۃ الباب میں الفاظ قرضدار کو پکڑ کر لے جانا، اس کی نسبت تو حدیث کے ساتھ شارحین کی وضاحت کے تناظر میں واضح ہوئی، مگر ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء جس میں یہودی اور مسلمان کا ذکر ہے، تو کس طرح حدیث کے ساتھ اس کی مناسبت ہو گی۔۔۔؟ غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بڑے دقیق الفاظوں کے ساتھ ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ «من كان قبلكم اختلفوا فأهلكوا» یہ اختلاف کرنے والے کون تھے؟ یہ یہود و نصاری تھے جنہوں نے اختلاف کیا۔ لہٰذا یہاں پر مقصود امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو قرآن میں جھگڑتا نہیں ہے اور اس میں اختلاف کو پیدا نہیں کرتا تو وہ مسلم ہے، اور اگر اس میں کوئی اختلاف پیدا کرتا ہے یا پھر وہ آیات میں جھگڑتا ہے تو وہ یہود اور نصاری کی روش کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ کیونکہ یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ جو جس کی اتباع کرے گا اس کا حشر بھی اسی کے ساتھ ہو گا۔ لہٰذا آیات میں جھگڑا کرنا یہود و نصاری کی پیروی کرنا ہے، اور جو ان کی پیروی کرے گا تو اس کا حشر بھی انہی کے ساتھ ہو گا، اور جو اختلاف سے دور رہے گا تو وہ یقیناً مسلمانوں میں شمار ہو گا۔ ممکن ہے دوسرے جزء کا تعلق اس تطبیق کے ساتھ وابستہ ہے۔ «والله اعلم»

فائدہ:
مذکورہ بالا حدیث میں سبعۃ احرف پر دلیل ہے کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے جس کی اصل نص کتب احادیث میں ملتی ہے۔ آج کے پر فتن دور میں سبعۃ احرف پر بھی حملہ کیا گیا ہے اور کئی منکرین حدیث کے گروہ نے اس مسئلے کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ کتب احادیث میں واضح طور پر ان سات قرأتوں کا ذکر موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی کے لیے سات لہجوں کو چنا تاکہ امت بآسانی تلاوت قرآن مجید سے استفادہ کرے۔ لہٰذا ان قراء میں اختلاف کرنا ہرگز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ تھا۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک حدیث کا ذکر فرمایا ہے کہ:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ رحمٰن پڑھائی، پھر میں مسجد کی طرف نکلا تو وہاں لوگوں کی ایک جماعت بیٹھی تھی، میں نے ایک شخص سے کہا کہ آپ مجھے قرآن پڑھ کر سنائیں، پھر انہوں نے اس طرح پڑھا جس طرح میں نہیں پڑھتا، میں نے پوچھا: اس طرح سے پڑھنا آپ کو کس نے سکھایا؟ تو ان صاحب نے فرمایا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور وہاں پہنچے، اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم دونوں کی قرأت کے اختلاف کے بارے میں بتلایا، پس (یہ سنتے ہی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیرہ ہو گیا۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ تم سے پہلے لوگ اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دیتے ہیں کہ ہر شخص اسی طرح سے قرآن پڑھے جس طرح سے وہ سکھایا گیا ہے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ اسی حدیث کے ذکر کے بعد رقمطراز ہیں کہ:
پس یہ اس بات پر دلیل ہے کہ یہ تمام قراءۃ سبعۃ سے ماخوذ ہیں، پس اس کا اصل قراءۃ سبعہ ہے جس کا ذکر امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا ہے۔ [عمدة القاري، ج 13، ص: 368]

امام طبرانی رحمہ اللہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کرتے ہیں:
«جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أقرأني ابن مسعود رضي الله عنه سورة أقرانيها زيد بن ثابت و أقرانيها ابي بن كعب۔۔۔» [معجم الكبير للطبراني: 4937]
ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: مجھے سیدنا ابن مسعود اور سیدنا زید بن ثابت اور سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہم نے ایک سورت مختلف قرأت میں پڑھائی ہے، میں ان میں سے کس کی قرأت کو اختیار کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے جب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف فرما تھے، انہوں نے فرمایا کہ ہر انسان کو اس طرح پڑھنا چاہیے جس طرح اسے سکھایا گیا ہے، وہی طریقہ بہتر ہے۔
لہٰذا سبعہ احرف کی قرأت امت کے لیے آسانی کو پیدا کرنا ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی زندگی میں ہمیشہ جاری و ساری رکھا۔

امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرآن مجید کے سبعہ احرف پر نازل کرنے کا بنیادی مقصد اس امت کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے اس امت کے ساتھ نرمی اور آسانی کا معاملہ فرمایا ہے۔

قارئین! ایک ضروری بات دامن گیر فرما لیجیے، سبعہ احرف کا اختلاف تنوع اور تغایر کا ہے نا کہ تضاد و تناقص کا۔ سبعہ احرف پر درجنوں نہیں بلکہ سلف سے خلف تک سینکڑوں کی تعداد میں کتب لکھی جا چکی ہیں۔ ہم بطور استفادہ ذیل میں چند نام تحریر کیے دیتے ہیں تاکہ طالب ان کتب کی طرف مراجعت فرما سکیں۔

پہلی صدی ہجری:
1- «وضع رموز الضبط الدالة على الحركات والتنوين، ابوالاسود الدؤلي (م 69هـ)»
2- «منظومة فى القرأءت، اذ ابراهيم بن محمد بن ابي بكر القاهري (م 163هـ)»
3- «الاختيارات، عيسي بن عمر الثقفي (م 149هـ)»
4- «اعشار القرآن، از قتاده رحمہ الله (م 118هـ)»
5- «القراءة نافع بن عبد الرحمن بن ابي نعيم الليثي رحمہ الله (م 169هـ)»
6- «ال قرأت از عباس بن الفضل الانصاري الواقفي رحمہ الله (م 180هـ)»

تیسری صدی ہجری:
7- «كتاب الشواذ از ابوالعباس احمد بن يحييٰ شيباني رحمہ الله (ت 291هـ)»
8- «كتاب الخمسة از احمد بن جبير بن محمد كوفي رحمہ الله (ت 258هـ)»
9- «قراءة ابي عمرو بن العلاء از يحييٰ بن مبارك يزيدي رحمہ الله (ت 202هـ)»
10- «قراءة النبى صلى الله عليه وسلم از ابوعمر حفص بن عمرو دوري رحمہ الله (ت 246هـ)»

چوتھی صدی ہجری:
11- «اختلاف قراءة الامصار از محمد بن موسى بن عباس بن مجاهد رحمہ الله (ت 324هـ)»
12- «المصاحف از ابوبكر عبدالله بن سليمان الاشعث سجستاني رحمہ الله (ت 348هـ)»
13- «شواذ السبعة از ابوطاهر عبدالواحد بن عمر البغدادي رحمہ الله (349هـ)»
14- «الصحاح فى ال قرأت از ابوبكر محمد بن حسن بغدادي رحمہ الله (354هـ)»
15- «السبعة فى منازل القراء از ابوبكر احمد بن موسيٰ رحمہ الله (324هـ)»

پانچویں صدی ہجری:
16- «معاني ال قرأت از ابوالعباس الأندلسي رحمہ الله (410هـ)»
17- «المجتبيٰ فى السبعة از ابوالقاسم عبدالجبار بن أحمد طرطوسي رحمہ الله (ت 420هـ)»
18- «الهداية فى السبعة از ابوالعباس احمد بن ابي العباس المهدوي رحمہ الله (ت 430هـ)»
19- «الروضة فى العشرة از ابوالعباس احمد بن ابي العباس المهدوي رحمہ الله (ت 430هـ)»
20- «بيان السبب الموجب لاختلاف ال قرأت وكثرة للطرق والروايات از ابوعباس احمد بن عماد المهدوي رحمہ الله (ت 430هـ)»
21- «المقنع فى الرسم از عثمان بن سعيد بن عثمان المعروف بالدافي رحمہ الله (ت 444هـ)»
22- «جامع البيان از عثمان بن سعيد ابن عثمان اندلسي رحمہ الله (ت 444هـ)» - (نوٹ: ان کی مختلف علوم پر تقریبا 120 کتابیں ہیں)
23- «المفيد فى العشر از ابونصر احمد بن مسرور بغدادي رحمہ الله (ت 442هـ)»
24- «التلخيص لأصول قراءة نافع بن عبدالرحمن از ابوعمرو عثمان بن سعيد الداني رحمہ الله (ت 444هـ)»
25- «معاني الاحرف السبعة از ابوالفضل عبدالرحمن بن أحمد الرازي رحمہ الله (454هـ)»

چھٹی صدی ہجری:
26- «المفتاح از ابومنصور محمد بن عبدالمالك بغدادي رحمہ الله (ت 539هـ)»
27- «إرادة الطالب از ابومحمد على بن احمد بغدادي رحمہ الله (ت 541هـ)»
28- «كفاية كبريٰ از ابوالعز محمد بن حسين واسطي رحمہ الله (ت 521هـ)»
29- «كفاية فى الست از محمد بن عبدالله بن على بن احمد بغدادي رحمہ الله (ت 541هـ)»
30- «الايجاز فى ال قرأت السبع از ابومحمد عبدالله البغدادي رحمہ الله (ت541هـ)»
31- «المقصد خلاصة المرشد از محمد ابن جوزي رحمہ الله (ت 597هـ)»
32- «خيرة فى العشر از ابوالفتح مبارك بن احمد الواسطى رحمہ الله (ت 596هـ)»
33- «المفاتيح از ابوالعلا محمد ابي المحاسن كرماني رحمہ الله (ت 563هـ)»
34- «البهجة فى ال قرأت السبع از هبة الله بن يحيىٰ بن محمد رحمہ الله (580هـ)»
35- «تذكرة از ابوالفرج عبدالرحمن بن على رحمہ الله (ت 597ھ)»

ساتویں صدی ہجری:
36- «البرهان فى قرأت القرآن از فخرالدين الرازي رحمہ الله (ت 606هـ)»
37- «نثر الدرر فى ال قرأت از علم الدين ابوالحسن سخاوي شافعي رحمہ الله (ت 643هـ)»
38- «تقريب البيان فى شواذ القرآن از صفراوي رحمہ الله (ت 636هـ)»
39- «الجامع الأكبر والبحر الازخر از ابوالقاسم عيسي بن عبدالعزيز اسكندري رحمہ الله (ت 629هـ)»
40- «مختصر التبصرة فى ال قرأت از ابوجعفر ابن ابي حجة رحمہ الله (ت 643هـ)»
41- «شرف المراتب و المنازل فى ال قرأت از محمد بن سليمان الشاطبي رحمہ الله (672هـ)»
42- «الشمعة المضية بنشر قرأت السبعة المرضية از كمال الدين ابوعبدالله محمد حنبلي رحمہ الله (ت 656هـ)»

آٹھویں صدی ہجری:
43- «الاختيار فى ال قرأت از احمد بن محمد بن يحييٰ الدمشقي رحمہ الله (ت 732هـ)»
44- «الشرعة فى ال قرأت السبعة از علامه جعبري أبواسحاق رحمہ الله (ت 732هـ)»
45- «تحفة البرزة فى ال قرأت العشرة از محمد عبدالله بن عبدالرحمن رحمہ الله (ت 740هـ)»
46- «الكنز فى ال قرأت العشر از نجم الدين ابومحمد واسطي رحمہ الله (ت 740هـ)»
47- «خلاصة الأبحاث فى شرح نهج ال قرأت الثلاث از علامه جعبرى أبواسحاق ابراهيم بن عمر رحمہ الله (ت 732هـ)»
48- «كنز الاماني فى شرح حرز الاماني از ابراهيم بن عمرو الجبوري رحمہ الله (ت 732هـ)»
49- «لذة السمع فى السبع از ابوجعفر أحمد بن حسن رحمہ الله (ت 728هـ)»
50- «نزهة البررة فى قراءة الأئمة العشرة از علامه جعبري ابراهيم بن عمر رحمہ الله (ت 732هـ)»

نویں صدی ہجری:
51- «مصطلح الارشادات از نورالدين ابوالبقا على بن عثمان بغدادي رحمہ الله (ت 801هـ)»
52- «الكفاية فى القراءة از ابوالبقاء على بن عثمان بن القاصح رحمہ الله (ت 801هـ)»
53- «مسند ال قرأت از اسماعيل بن اسحاق ازدي رحمہ الله (ت 820هـ)»
54- «سراج القاري از نورالدين بغدادي رحمہ الله (ت 801هـ)»
55- «النشر الكبير فى العشرة از ابوالخير شمس الدين محمد جزري رحمہ الله (ت 833هـ)»
56- «طبقات القراء الصغرٰي از ابوالخير شمس الدين محمد جزري رحمہ الله (ت 833هـ)»
57- «طبقات القراء الكبرٰي از أبوالخير شمس الدين محمد جزري رحمہ الله (ت 833هـ)»
58- «ال قرأت از محمد بن محمد بن مرزوق العيسي التلمساني رحمہ الله (ت 842هـ)»
59- «شرح الطيبة من ال قرأت العشر لابن الجوزي از ابوالقاسم محمد بن محمد النويري رحمہ الله (ت 857هـ)»
60- «نظم ال قرأت العشر از فتح الدين محمد بن عبدالرحمن الشافعي رحمہ الله (ت 860هـ)»

دسویں صدی ہجری:
61- «بلوغ الاماني فى قراءة ورش از شهاب الدين احمد بن بدرالدين الطيبي رحمہ الله (ت 989هـ)»
62- «الفنون ال قرأت از ابوالعباس محمد بن بكر قسطلاني رحمہ الله (ت 923هـ)»
63- «الدر النشير فى قراءة ابن كثير از جلال الدين السيوطي رحمہ الله (ت 911هـ)»
64- «منظومة ال قرأت از احمد بن احمد الدمشقي رحمہ الله (ت 981هـ)»
65- «اجازة بال قرأت از محمد بن بدرالدين بن محمد رضي الدين رحمہ الله (ت 984هـ)»

گیارہویں صدی ہجری:
66- «القول النص فى رواية حفص از محمد بن حمدان الموصلي رحمہ الله» - نوٹ: یہ گیارہویں صدی ہجری میں زندہ تھے۔
67- «الأصول المختصرة عن ال قرأت السبع از سيف الدين بن عطاء الله رحمہ الله (ت 1020هـ)»
68- «ال قرأت الاربع الزائدة على العشر از سلطان بن احمد مزاحي رحمہ الله (ت 1075هـ)»
69- «النكت الوذعية على شرح الجزرية از ذين العابدين بن محي الدين بن ذكريا انصاري رحمہ الله (ت 1068هـ)»
70- «حل الجزرية از عبدالحق بن سيف الدين بن سعدالله رحمہ الله (ت 1052هـ)»

بارہویں صدی ہجری:
71- «القصيدة المهذية از على بن محمد بن سليمان المنصوري رحمہ الله (ت 1134هـ)»
72- «اتحاف فضلاء البشر بال قرأت الاربع عشر از احمد بن محمد دمياطي عرف البناء رحمہ الله (ت 1117هـ)»
73- «زبدة العرفان فى وجوه القرآن از حامد بن عبدالفتاح الرومي رحمہ الله»
74- «أحكام النون الساكنة از على بن سليمان المنصوري رحمہ الله (ت 1143هـ)»

تیرہویں صدی ہجری:
75- «الفوائد المعتبر از علامه محمد بن احمد شمس معروف به علامه متولى رحمہ الله (ت 1213هـ)»
76- «هبة المنان منظومة فى ال قرأت از محمد بن خليل الطباخ رحمہ الله (ت 1250هـ)»
77- «توضيح المقام از علامه محمد بن أحمد معروف به علامه متولي رحمہ الله (ت 1213هـ)»

چودہویں صدی ہجری:
78- «الرحيق المختوم از حسن بن خلف رحمہ الله (ت 1324هـ)»
79- «تحفة الابرار از أحمد بن عبدالسلام الصفصاني رحمہ الله (ت 1344هـ)»
80- «الفتح الرباني فى ال قرأت السبع من طريق حرز الاماني از محمد البيعرى الدمنهوري رحمہ الله (ت 1335هـ)»

محترم قارئین! ہم نے پچھلی صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک ان کتب اور اہل علم کے اسماء درج کیے ہیں جنہوں نے «سبعة أحرف» پر ہر اٹھنے والے اعتراض کے جوابات دیے۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہر صدی میں سبعۃ احرف کو ایک بہت بڑا مقام حاصل تھا۔ عصر حاضر میں جو دانشور اور محققین حدیث و قرأت کے انکاری ہیں ان تمام حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہر صدی میں مسلمانوں کی ان قرأت کو حجت مانتی چلی ہے جو کہ تواتر کی واضح دلیل فراہم کرتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 370   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2410  
2410. حضرت عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو قرآن کی ایک آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ نبی کریم ﷺ سے میں نے وہ آیت اس کے خلاف سنی تھی۔ میں نے اس کاہاتھ پکڑا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم دونوں کی قراءت ٹھیک ہے۔ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا: میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2410]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس شخص کو پکڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے گئے جب قرآن غلط پڑھنے پر پکڑ کر لے جانا درست ٹھہرا تو اپنے حق کے بدل بھی پکڑ کر لے جانا درست ہوگا جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے ویسا ہی دوسرا بھی۔
آپ کا مطلب یہ تھا کہ ایسی چھوٹی باتوں میں لڑنا جھگڑنا، جنگ و جدل کرنا برا ہے۔
عبداللہ ؓ کو لازم تھا کہ اس سے دوسری طرح پڑھنے کی وجہ پوچھتے۔
جب وہ کہتا کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے تو آپ سے دریافت کرتے۔
اس حدیث سے ان متعصب مقلدوں کو نصیحت لینا چاہئے، جو آمین اور رفع یدین اور اسی طرح کی باتوں پر لوگوں سے فساد اور جھگڑا کرتے ہیں۔
اگر دین کے کسی کام میں شبہ ہو تو کرنے والے سے نرمی اوراخلاق کے ساتھ اس کی دلیل پوچھے۔
جب وہ حدیث یا قرآن سے کوئی دلیل بتلا دے بس سکوت کرے۔
اب اس سے معترض نہ ہو۔
ہر مسلمان کو اختیارہے کہ جس حدیث پر چاہے عمل کرے، بشرطیکہ وہ حدیث بالاتفاق منسوخ نہ ہو۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ اختلاف یہ نہیں ہے کہ ایک رفع یدین کرے، دوسرا نہ کرے۔
ایک پکا رکر آمین کہے ایک آہستہ۔
بلکہ اختلاف یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ناحق جھگڑے، اس کو ستائے۔
کیوں کہ آپ نے ان دونوں کی قراءتوں کو اچھا فرمایا۔
اور لڑنے جھگڑنے کوبرا کہا۔
و قال المظهري الاختلاف في القرآن غیر جائز لأن کل لفظ منه إذا جاز قراءته علی وجهین أو أکثر فلو أنکر أحد و أحد من ذینك الوجهین أو الوجوہ فقد أنکر القرآن ولا یجوز في القرآن بالرأي لأن القرآن سنة متبعة بل علیهما أن یسألا عن ذلك ممن هو أعلم منهما۔
(قسطلانی)
یعنی مظہری نے کہا کہ قرآن مجید میں اختلاف کرنا ناجائز ہے کیوں کہ اس کا ہر لفظ جب اس کی قرات دونوں طریقوں پر جائز ہو تو ان میں سے ایک قرات کا انکار کرنا یا دونوں کا انکار یہ سارے قرآن کا انکار ہوگا۔
اور قرآن شریف کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید مسلسل طور پر نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
پس ان اختلاف کرنے والوں کو لازم تھا کہ اپنے سے زیادہ جاننے والے سے تحقیق کرلیتے۔
الغرض اختلاف جو موجب شقاق و افتراق و فساد ہو وہ اختلاف سخت مذموم ہے اور طبعی اختلاف مذموم نہیں ہے۔
حدیث باب سے یہ بھی نکلا کہ دعویٰ اور مقدمات میں ایک مسلمان کسی بھی غیر مسلم پر اور کوئی بھی غیر مسلم کسی بھی مسلمان پر اسلامی عدالت میں دعویٰ کرسکتا ہے۔
انصاف چاہنے کے لیے مدعی اور مدعا علیہ کا ہم مذہب ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2410   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5062  
5062. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک آدمی سے سنا جو ایک آیت ایسے طریقے سے پڑھ رہا تھا کہ انہوں نے نبی ﷺ سے اس کے خلاف سنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم دونوں ٹھیک پڑھتے ہو۔ میرا غالب گمان ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: بلاشبہ تم سے پہلے لوگوں نے کتاب اللہ میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5062]
حدیث حاشیہ:
اختلاف و نزاع سے قرآن و حدیث میں جس قدر روکا گیا ہے صد افسوس کہ مسلمانوں نے اسی قدر باہمی اختلاف و نزاعات کو اپنایا ہے۔
مسلمان گروہ در گروہ اس قدر تقسیم ہوئے ہیں کہ تفصیل کے لئے دفاتر کی ضرورت ہے۔
خود اہل اسلام میں کتنے فرقے بن گئے ہیں اور فرقوں میں پھر فرقے پیدا ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں اللہ پاک اس چودھویں صدی کے خاتمے پر مسلمانوں کو سمجھ دے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو ختم کر دیں اور ایک خدا، ایک رسول، ایک قرآن، ایک کعبہ پر سارے کلمہ گو متحد ہوجائیں۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5062   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2410  
2410. حضرت عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو قرآن کی ایک آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ نبی کریم ﷺ سے میں نے وہ آیت اس کے خلاف سنی تھی۔ میں نے اس کاہاتھ پکڑا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم دونوں کی قراءت ٹھیک ہے۔ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا: میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2410]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کے دو جز ہیں:
پہلا یہ ہے کہ کسی شخص کو گرفتار کر کے دوسری جگہ لے جانا۔
اگر ملزم کسی جگہ ہو اور اس کے غائب ہونے یا بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اسے گرفتار کر کے دوسری جگہ منتقل کرنے یا اس کی نگرانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جب ایک شخص کی قراءت سنی جو اس طریقے سے مختلف تھی جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی تو اسے پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔
جب قرآن کریم بزعم خویش غلط پڑھنے پر پکڑ کے لے جانا درست ہے تو اپنے حق کے بدلے میں پکڑ کر لے جانے میں کیا حرج ہے؟ جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے دوسرے کی حیثیت بھی وہی ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں اسے ہاتھ سے پکڑنے کا ذکر ہے، امام بخاری ؒ نے اسی سے اپنے عنوان کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پایا جاتا ہے۔
اس حدیث کے آخر میں اختلاف سے بچنے کی تلقین ہے کیونکہ طبعی اختلاف قابل مذمت نہیں بلکہ وہ اختلاف باعث ہلاکت ہے جو موجب افتراق و فساد ہو۔
اس میں شک نہیں کہ تفرقہ امت کو کمزور کرنے والی بیماری ہے جس سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2410   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5062  
5062. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک آدمی سے سنا جو ایک آیت ایسے طریقے سے پڑھ رہا تھا کہ انہوں نے نبی ﷺ سے اس کے خلاف سنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم دونوں ٹھیک پڑھتے ہو۔ میرا غالب گمان ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: بلاشبہ تم سے پہلے لوگوں نے کتاب اللہ میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5062]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں جس اختلاف سے منع کیا گیا ہے۔
اس سے دو قسم کا اختلاف مراد ہے۔
۔
قراءت کا وہ اختلاف جو احرف سبعہ سے خارج ہو اور اس کی بنیاد خبر واحد یا قراءت شاذ ہو۔
۔
احرف سبعہ کا ایسا اختلاف جو قرآءت متواترہ کا ذریعہ بن جائے۔
اس سے وہ اختلاف قطعاً مراد نہیں جس کا تعلق حروف سبعہ سے ہے اور اس کی بنیاد و متواتر اسناد ہیں کیونکہ یہ اختلاف آسانی کا باعث ہے مثلاً:
۔
کسی حروف کے حذف و اثبات کا اختلاف جیسے ﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا﴾ (البقرة: 116/5)
اس میں داؤ کا حذف اور اثبات دونوں طرح ہے۔
حرکات کا اختلاف، جیسے ﴿وَمَنْ يَقْنَط﴾ میں نون پر زبر اور زیر کا اختلاف۔
۔
واحد اور جمع کا اختلاف،جیسے ﴿ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ﴾ (الانبیاء21/104)
میں کتاب مفرد اور کتب کا اختلاف
۔
تذکیر و ثانیت کا اختلاف جیسے ﴿لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ﴾ میں يحصن اور تحصن
۔
حرف کا اختلاف جیسے (كِذَّابًا)
میں تشدید اور تخفیف کا اختلاف۔
۔
نحو کا اختلاف جیسے ﴿ذُوالْعَرْشِ الْمَجِيدْ﴾ (بروج: 15/85)
میں المجید پر رفع اور کسرہ کا اختلاف، بہر حال احرف سبعہ کا اختلاف قطعاً مراد نہیں کیونکہ اس اختلاف کی بنیاد متواتر اسناد ہیں ہاں ان کے متعلق ایسا اختلاف جو دوسری قرآءت متواترہ کے انکار کا باعث ہو وہ یقیناً قابل مذمت ہے۔
(عمدة القاري: 598/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5062