5062. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک آدمی سے سنا جو ایک آیت ایسے طریقے سے پڑھ رہا تھا کہ انہوں نے نبی ﷺ سے اس کے خلاف سنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم دونوں ٹھیک پڑھتے ہو۔ میرا غالب گمان ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: بلاشبہ تم سے پہلے لوگوں نے کتاب اللہ میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کردیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5062]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں جس اختلاف سے منع کیا گیا ہے۔
اس سے دو قسم کا اختلاف مراد ہے۔
۔
قراءت کا وہ اختلاف جو احرف سبعہ سے خارج ہو اور اس کی بنیاد خبر واحد یا قراءت شاذ ہو۔
۔
احرف سبعہ کا ایسا اختلاف جو قرآءت متواترہ کا ذریعہ بن جائے۔
اس سے وہ اختلاف قطعاً مراد نہیں جس کا تعلق حروف سبعہ سے ہے اور اس کی بنیاد و متواتر اسناد ہیں کیونکہ یہ اختلاف آسانی کا باعث ہے مثلاً:
۔
کسی حروف کے حذف و اثبات کا اختلاف جیسے
﴿وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا﴾ (البقرة: 116/5) اس میں داؤ کا حذف اور اثبات دونوں طرح ہے۔
حرکات کا اختلاف، جیسے
﴿وَمَنْ يَقْنَط﴾ میں نون پر زبر اور زیر کا اختلاف۔
۔
واحد اور جمع کا اختلاف،جیسے
﴿ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ﴾ (الانبیاء21/104) میں کتاب مفرد اور کتب کا اختلاف
۔
تذکیر و ثانیت کا اختلاف جیسے
﴿لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ﴾ میں يحصن اور تحصن
۔
حرف کا اختلاف جیسے
(كِذَّابًا) میں تشدید اور تخفیف کا اختلاف۔
۔
نحو کا اختلاف جیسے
﴿ذُوالْعَرْشِ الْمَجِيدْ﴾ (بروج: 15/85) میں المجید پر رفع اور کسرہ کا اختلاف، بہر حال احرف سبعہ کا اختلاف قطعاً مراد نہیں کیونکہ اس اختلاف کی بنیاد متواتر اسناد ہیں ہاں ان کے متعلق ایسا اختلاف جو دوسری قرآءت متواترہ کے انکار کا باعث ہو وہ یقیناً قابل مذمت ہے۔
(عمدة القاري: 598/13)