ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے، انہوں نے شقیق سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ”اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور آپ کو بھیجا۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّيَمُّمِ/حدیث: 347]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:347
حدیث حاشیہ: 1۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کئی ایک کا یہی قول ہے کہ تیمم میں چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی ضرب ہے۔ ان میں حضرت علی ؓ، حضرت عمار ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ ہیں پھر تابعین میں سے حضرت شعبی، حضرت عطاء ؒ، اورحضرت مکحول ؒ وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے۔ اسی طرح آئمہ میں سے امام احمد بن حنبل ؒ اور امام اسحاق بن راہویہ ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ جب کہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ تیمم میں ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ضرب ہاتھوں کہنیوں تک کے لیے ہے۔ ان میں حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت جابر ؓ ہیں حضرت ابراہیم نخعیؒ، حسن بصری ؓ اور سفیان ثوری ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ آئمہ میں سے امام مالک ؒ، امام عبد اللہ بن مبارک ؒ اور امام شافعی ؒ نے اسی موقف کو اپنایا ہے۔ امام بخاری ؒ اس مسئلے میں امام احمد بن حنبل ؒ کی تائید میں ہیں کہ ایک ہی بار زمین پر ہاتھ مارا جائے، پھر چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کر لیا جائے، اگرچہ اس روایت میں اختصار ہے کہ دائیں ہاتھ کی پشت پر بایاں ہاتھ پھیرا یا بائیں ہاتھ کی پشت پر دائیں ہاتھ سے مسح کیا، یعنی اس روایت میں صرف ہاتھ کی پشت کا ذکر ہے، باطن کف یعنی ہاتھ کے اندر کی جانب مسح کا ذکر نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ ابو داود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین پر ہاتھ مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر بائیں سے دائیں اور دائیں سے بائیں کا، یعنی ہتھیلیوں کا مسح کیا، اس کے بعد چہرے کا مسح کیا۔ (سنن بي داود، الطهارة، حدیث: 321) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ اسماعیلی ؒ کے حوالے سے جو روایت نقل کی ہے، وہ بہت ہی واضح ہے۔ رسول ؒﷺ نے حضرت عمار ؒ سے فرمایا: ” تجھے اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتا پھر انھیں جھاڑتا پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کا مسح کرتا، اس کے بعد اپنے چہرے کا مسح کرتا۔ “(فتح الباري: 5959/1) 2 یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ جنبی کے لیے تیمم کا طریقہ بتانا چاہتے ہوں کہ جنبی کا تیمم بھی حدث اصغر کے تیمم کی طرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنابت کا تیمم کرنے کے لیے بھی مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حضرت عمار ؓ نے کیا تھا، بلکہ اس کے لیے زمین پر ہاتھ مار کر مسح کر لینا کافی ہے، لیکن ہمارے نزدیک پہلا موقف زیادہ قرین قیاس ہے کہ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تیمم میں ایک ہی ضرب کافی ہے، ایسا نہیں کہ ایک دفعہ ضرب لگانے سے وہ مستعمل ہو گئی، پھر چہرے کے لیے دوبارہ ضرب لگائی جائے بلکہ ایک ہی ضرب سے چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کر لیا جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 347
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 321
´تیمم کا بیان۔` ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا: تیمم نہ کرے، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ سورۃ المائدہ کی اس آیت: «فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا»”پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو“ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں۔ اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات (جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟!۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 321]
321۔ اردو حاشیہ: ➊ کوئی بھی مسلمان دینی امور میں کسی فاضل علم کے ملنے تک اجتہاد کر سکتا ہے، پھر اس سے اپنے عمل کی توثیق وتصحیح کرا لے جیسے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کیا۔ ➋ تمیّم کی صحیح تر روایات میں زمین پر ایک ہی دفعہ ہاتھ مارنا ہے اور پھر ہاتھوں اور چہرے کا مسح کرنا ہے۔ اور یہ عمل پانی ملنے تک حدث اصغر اور حدث اکبر (جنابت یا حیض سے طہارت) دونوں کے لیے کافی ہے۔ ➌ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے مگر انہیں نسیان ہو گیا اور یاد نہیں رہا اور بعض اوقات ایسے ہو جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 321
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 321
´جنبی کے تیمم کا بیان۔` ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، تو ابوموسیٰ نے کہا: ۱؎ آپ نے عمار رضی اللہ عنہ کی بات جو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہی نہیں سنی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ضرورت سے بھیجا، تو میں جنبی ہو گیا، اور مجھے پانی نہیں ملا، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اس طرح کر لینا ہی کافی تھا“، اور آپ نے اپنا دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا، پھر انہیں جھاڑا، پھر آپ نے اپنی بائیں (ہتھیلی) سے اپنی داہنی (ہتھیلی) پر اور داہنی ہتھیلی سے اپنی بائیں (ہتھیلی) پر مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں اور اپنے چہرے کا مسح کیا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن نہیں ہوئے؟۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 321]
321۔ اردو حاشیہ: ➊ حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے جب کہ حضرت عمار اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تیمم کو غسل کی جگہ بھی کافی سمجھتے تھے۔ اس تناظر میں مندرجہ بالا مکالمہ ہوا۔ ➋ اگرچہ اس روایت میں ذکر نہیں، مگر اس سے قبل تمام روایات میں یہ صراحت ہے کہ جنابت والا واقعہ حضرت عمر اور عمار رضی اللہ عنہما دونوں کو پیش آیا تھا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ یاد نہ آسکا، اس لیے انہیں اطمینان نہ ہوا اور وہ اپنے موقف پر قائم رہے مگر جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی جلالت کے پیش نظر اس واقعے کی روایت سے دست بردار ہونے کی پیش کش کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا: ”تم اپنی ذمے داری پر بیان کرو۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ اختلاف ختم ہو گیا۔ اب امت مسلمہ کا متفقہ موقف ہے کہ جنبی کو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم ہی کافی ہے۔ ➌ امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت متعدد دفعہ بیان کی ہے جس میں الفاظ کا معمولی فرق ہے۔ کہیں اختصار بھی ہے۔ تمام روایتیوں کو ملانے سے واقعے کی جو صورت بنتی ہے اور جس کی تفصیل اس روایت میں بھی ہے، وہی اصل ہے۔ ہر کثرت طرق والی روایت سے استدلال کا یہی درست طریقہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 321
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 346
346. حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ”تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:346]
حدیث حاشیہ: قرآنی آیت: ﴿أولامستم النساء﴾(المائدة: 6) سے صاف طور پر جنبی کے لیے تیمم کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ یہاں لمس سے جماع مراد ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ یہ آیت سن کر کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہاں ایک مصلحت کا ذکر فرمایا۔ مسندابن ابی شیبہ میں ہے کہ بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنے اس خیال سے رجوع فرمالیاتھا اور امام نووی ؒ نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے بھی اپنے قول سے رجوع فرمالیاتھا۔ امام نووی ؓ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ جنبی اور حائضہ اور نفاس والی سب کے لیے تیمم درست ہے، جب وہ پانی نہ پائیں یا بیمارہوں کہ پانی کے استعمال سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو یا وہ حالات سفر میں ہوں اور پانی نہ پائیں توتیمم کریں۔ حضر ت عمرؓ کو یہ عمار ؓ والا واقعہ یاد نہیں رہاتھا۔ حالانکہ وہ سفرمیں عمار کے ساتھ تھے۔ مگر ان کو شک رہا۔ مگرعمار کا بیان درست تھا، اس لیے ان کی روایت پر سارے علماء نے فتویٰ دیا کہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کے خیالوں کو چھوڑدیاگیا۔ جب صحیح حدیث کے خلاف ایسے جلیل القدر صحابہ کرام کا قول چھوڑا جا سکتا ہے توامام یا مجتہد کا قول خلاف حدیث کیوں کر قابل تسلیم ہوگا۔ اسی لیے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے خود فرمادیاکہ ''إذا صح الحدیث فهومذهبي'' ”صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔ “ پس میرا جو قول صحیح حدیث کے خلاف پاؤ اسے چھوڑدینا اور حدیث صحیح پر عمل کرنا۔ رحمه اللہ تعالیٰ، آمین!
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 346
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:346
346. حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ”تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:346]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر پانی صرف اتنا ہے جس سے پیاس بجھائی جا سکے تو ایسے حالات میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور اگر پانی زیادہ ہے جو وضو یا غسل کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استعمال سے کسی بیماری یا موت کا اندیشہ ہو تو بھی تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے دو روایات پیش کی ہیں، پہلی روایات مختصر بھی ہے اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت اس لیے بیان فرمادی تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے درمیان مناظرے کی اصل صورت کیا تھی؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جنبی کو تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے پہلے تو حضرت عمار اور حضرت عمر ؓ کا قصہ پیش کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مناظرا نہ اصول کے مطابق اس کا جواب دیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عمار ؓ کو کہا تھا کہ تم اس معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ مطلب یہ تھا کہ آپ جس واقعے کو بطور استدلال پیش کررہتے ہیں اس کا تو خود صاحب واقعہ منکر ہے، ایسے حالات میں وہ دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ ؓ نے آیت تیمم بطور دلیل پیش کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کا جواب نہ دے سکے، بلکہ اصل مصلحت سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ میرا انکار مصلحت شرعیہ کی وجہ سے ہے کہ اس جواز کی آڑ میں ہر شخص ذرا سی سردی میں بھی تیمم کرنے لگے گا جو شریعت کا منشا نہیں۔ اس مصلحت کے پیش نظر میں یہ فتوی نہیں دینا چاہتا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جنبی کے تیمم کے متعلق اپنے اس فتوی سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔ (فتح الباري: 593/1) 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بطور دلیل جو آیت تیمم پیش فرمائی تھی اس میں ﴿ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ کے الفاظ ہیں اگر اس سے مراد جماع نہ ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بطور جواب کہہ سکتے تھے کہ تم جس آیت کو بطور استدلال پیش کررہے ہو۔ اس میں لمس سے مراد جماع نہیں بلکہ لمس بالید مراد ہے، یعنی یہاں تو جنابت کا قصہ ہی نہیں، بلکہ حدث اصغر کی بات ہو رہی ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایسا نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی اس آیت کریمہ میں لمس سے مراد لمس بالید نہیں بلکہ جماع ہے۔ (إعلام الحدیث للخطابي: 345/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 346