35. باب: (یونس علیہ السلام کا بیان) سورۃ الصافات میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان ”اور بلاشبہ یونس یقیناً رسولوں میں سے تھا“ اس قول تک ”تو ہم نے انہیں ایک وقت تک فائدہ دیا“۔
حدیث نمبر: Q3412-3
لَتَنُوءُ سورة القصص آية 76 لَتُثْقِلُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُولِي الْقُوَّةِ سورة القصص آية 76 لَا يَرْفَعُهَا الْعُصْبَةُ مِنَ الرِّجَالِ يُقَالُ الْفَرِحِينَ سورة القصص آية 76 الْمَرِحِينَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ سورة القصص آية 82 مِثْلُ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ سورة الرعد آية 26 وَيُوَسِّعُ عَلَيْهِ وَيُضَيِّقُ.
(آیت میں) «لتنوء» بمعنی «لتثقل» یعنی بھاری ہوتی تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «أولي القوة» کی تفسیر میں کہا کہ اس کی کنجیوں کو لوگوں کی ایک طاقتور جماعت بھی نہ اٹھا پاتی تھی۔ «الفرحين» بمعنی «المرحين» اترانے والے۔ «ويكأن» «ألم تر أن» کی طرح ہے۔ «الله يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر» یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں فراخی کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3412-3]
حدیث نمبر: Q3412-2
إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لِأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ وَمِثْلُهُ وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ سورة يوسف آية 82 وَاسْأَلْ الْعِيرُ سورة يوسف آية 94 يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ وَأَهْلَ الْعِيرِ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا سورة هود آية 92 لَمْ يَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ يُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ حَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا قَالَ الظِّهْرِيُّ أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ مَكَانَتُهُمْ وَمَكَانُهُمْ وَاحِدٌ يَغْنَوْا سورة هود آية 95 يَعِيشُوا يَيْأَسُ سورة يوسف آية 87 يَحْزَنْ آسَى سورة الأعراف آية 93 أَحْزَنُ، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ سورة هود آية 87 يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَيْكَةُ: الْأَيْكَةُ يَوْمِ الظُّلَّةِ سورة الشعراء آية 189 إِظْلَالُ الْغَمَامِ الْعَذَابَ عَلَيْهِمْ.
اس کی مثال جیسے سورۃ یوسف میں فرمایا «واسأل القرية واسأل العير» یعنی بستی والوں سے اور قافلہ والوں پوچھ لے «ظهريا» یعنی ادھر ادھر پھر کر نہیں دیکھتے۔ عرب لوگ جب ان کا کام نہ نکلے تو کہتے ہیں «ظهرت حاجتي» یا «جعلتني ظهريا» تو نے میرا کام پس پشت ڈال دیا ‘ یا مجھ کو پس پشت کر دیا۔ «ظهري» اس جانور یا «ظرف» کو کہتے ہیں جس کو تو اپنی قوت بڑھانے کے لیے ساتھ رکھے «مكانتهم» اور «مكانهم» دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ «لم يغنوا» زندہ نہیں رہے تھے۔ وہاں بسے ہی نہ تھے (سورۃ المائدہ میں) «فلاتاس» رنجیدہ نہ ہو (سورۃ الاعراف میں) «آسى» رنجیدہ ہوں ‘ غم کروں ‘ امام حسن بصری نے کہا (سورۃ ہود میں) کافروں کا جو یہ قول نقل کیا۔ «إنك لأنت الحليم الرشيد» تو یہ کافروں نے ٹھٹھے کے طور پر کہا تھا۔ مجاہد نے کہا سورۃ الشعراء میں «ليكة» سے مراد «أيكة» ہے یعنی جھاڑی میں۔ «يوم الظلة» یعنی جس دن عذاب ایک سائبان کی شکل میں نمودار ہوا (ابر، بادل میں سے آگ برسی)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3412-2]
مجاہد نے کہا: «مليم» گنہگار۔ «المشحون» بوجھل بھری ہوئی۔ «فلولا أنه كان من المسبحين» آخر تک۔ «فنبذناه بالعراء» کا معنی روئے زمین۔ «يقطين» وہ درخت جو اپنی جڑ پر کھڑا نہیں رہتا جیسے کدو وغیرہ۔ «وأرسلناه إلى مائة ألف أو يزيدون فآمنوا فمتعناهم إلى حين» ۔ (سورۃ ن میں فرمایا) «مكظوم» جو «كظيم» کے معنی میں ہے یعنی مغموم رنجیدہ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3412]
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اعمش نے بیان کیا (دوسری سند) ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص میرے متعلق یہ نہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام سے بہتر ہوں۔“ مسدد نے یونس بن متی علیہ السلام کے لفظ بڑھا کر روایت کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3412]