22. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ طہٰ میں) فرمان فرمانا ”اے نبی تو نے موسیٰ کا قصہ سنا ہے جب انہوں نے آگ دیکھی“ آخر آیت «بالوادي المقدس طوى» تک۔
حدیث نمبر: Q3393
آنَسْتُ سورة طه آية 10 أَبْصَرْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ سورة طه آية 10 الْآيَةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْمُقَدَّسُ الْمُبَارَكُ طُوًى اسْمُ الْوَادِي سِيرَتَهَا سورة طه آية 21 حَالَتَهَا وَ النُّهَى سورة طه آية 54 التُّقَى بِمَلْكِنَا سورة طه آية 87 بِأَمْرِنَا هَوَى سورة طه آية 81 شَقِيَ فَارِغًا سورة القصص آية 10 إِلَّا مِنْ ذِكْرِ مُوسَى رِدْءًا سورة القصص آية 34 كَيْ يُصَدِّقَنِي وَيُقَالُ مُغِيثًا أَوْ مُعِينًا يَبْطُشُ وَيَبْطِشُ يَأْتَمِرُونَ سورة القصص آية 20 يَتَشَاوَرُونَ وَالْجِذْوَةُ قِطْعَةٌ غَلِيظَةٌ مِنَ الْخَشَبِ لَيْسَ فِيهَا لَهَبٌ سَنَشُدُّ سورة القصص آية 35 سَنُعِينُكَ كُلَّمَا عَزَّزْتَ شَيْئًا فَقَدْ جَعَلْتَ لَهُ عَضُدًا وَقَالَ غَيْرُهُ كُلَّمَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهِيَ عُقْدَةٌ أَزْرِي سورة طه آية 31 ظَهْرِي فَيُسْحِتَكُمْ سورة طه آية 61 فَيُهْلِكَكُمْ الْمُثْلَى سورة طه آية 63 تَأْنِيثُ الْأَمْثَلِ، يَقُولُ: بِدِينِكُمْ، يُقَالُ: خُذْ الْمُثْلَى خُذْ الْأَمْثَلَ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا سورة طه آية 64 يُقَالُ: هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ فَأَوْجَسَ سورة طه آية 67 أَضْمَرَ خَوْفًا فَذَهَبَتِ الْوَاوُ مِنْ خِيفَةً سورة طه آية 67 لِكَسْرَةِ الْخَاءِ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ سورة طه آية 71 عَلَى جُذُوعِ خَطْبُكَ سورة طه آية 95 بَالُكَ مِسَاسَ سورة طه آية 97 مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا لَنَنْسِفَنَّهُ سورة طه آية 97 لَنُذْرِيَنَّهُ الضَّحَاءُ الْحَرُّ قُصِّيهِ سورة القصص آية 11 اتَّبِعِي أَثَرَهُ وَقَدْ يَكُونُ أَنْ تَقُصَّ الْكَلَامَنَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ سورة يوسف آية 3 عَنْ جُنُبٍ سورة القصص آية 11 عَنْ بُعْدٍ وَعَنْ جَنَابَةٍ وَعَنِ اجْتِنَابٍ وَاحِدٌ، قَالَ مُجَاهِدٌ: عَلَى قَدَرٍ سورة طه آية 40مَوْعِدٌ وَلا تَنِيَا سورة طه آية 42 لَا تَضْعُفَا يَبَسًا سورة طه آية 77 يَابِسَا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ سورة طه آية 87 الْحُلِيِّ الَّذِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ فَقَذَفْتُهَا أَلْقَيْتَهَا أَلْقَى سورة طه آية 87 صَنَعَ فَنَسِيَ سورة طه آية 88 مُوسَى هُمْ يَقُولُونَهُ: أَخْطَأَ الرَّبَّ أَنْ لَا يَرْجِعَ إِلَيْهِمْ، قَوْلًا: فِي الْعِجْلِ.
«آنست» کا معنی میں نے آگ دیکھی (تم یہاں ٹھہرو) میں اس میں سے ایک چنگاری تمہارے پاس لے آؤں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ‘ «مقدس» کا معنی مبارک۔ «طوى» اس وادی کا نام تھا جہاں اللہ پاک نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا۔ «سيرتها» یعنی پہلی حالت پر۔ «النهى» یعنی پرہیزگاری۔ «بملكنا» یعنی اپنے اختیار سے۔ «هوى» یعنی بدبخت ہوا۔ «فارغا» یعنی موسیٰ کے سوا اور کوئی خیال دل میں نہ رہا۔ «ردءا» یعنی فریاد رس یا مددگار۔ «يبطش بضم طا» اور «يبطش بكسر طا» دونوں طرح قرآت ہے۔ «يأتمرون» یعنی مشورہ کرتے ہیں۔ «جذوة» یعنی لکڑی کا ایک موٹا ٹکڑا جس میں سے آگ کا شعلہ نہ نکلے (صرف اس کے منہ پر آگ روشن ہو)۔ «سنشد عضدك» یعنی تیری مدد کریں گے۔ جب تو کسی چیز کو زور دے گویا تو نے اس کو «عضد» بازو دیا۔ (یہ سب تفسیریں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں) اوروں نے کہا «عقدة» کا معنی یہ ہے کہ زبان سے کوئی حرف یہاں تک کہ ”ت“ یا ”ف“ بھی نہ نکل سکے۔ «أزري» یعنی پیٹھ «فيسحتكم» یعنی تم کو ہلاک کرے۔ «المثلى»، «الأمثل» کی مونث ہے، یعنی تمہارا دین خراب کرنا چاہتے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں «خذ المثلى، خذ الأمثل.» یعنی اچھی روش ‘ اچھا طریقہ سنبھال۔ «ثم ائتوا صفا» یعنی قطار باندھ کر آؤ۔ عرب لوگ کہتے ہیں آج تو «صف» میں گیا یا نہیں یعنی نماز کے مقام پر۔ «فأوجس» یعنی موسیٰ کا دل دھڑکنے لگا «خيفة» کی اصل «خوفة» تھی واؤ کی بوجہ «كسره ما قبل» کے ”ی“ سے بدل دیا گیا۔ «في جذوع النخل» یعنی «على جذوع النخل» ۔ «خطبك» یعنی تیرا حال۔ «مساس» مصدر ہے «ماسه» «مساسا» سے۔ «لا مساس» یعنی تجھ کو نہ چھوئے ‘ نہ تو کسی کو چھوئے۔ «لننسفنه» یعنی ہم اس کو راکھ کر کے دریا میں اڑا دیں گے۔ «لا تضحي» «ضحى» سے ہے، یعنی گرمی۔ «قصيه» یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا کبھی «قصص» کا معنی کہنا اور بیان کرنا بھی آتا ہے۔ (سورۃ یوسف میں) اسی سے «نحن نقص عليك» ہے۔ لفظ «عن جنب» اور «عن جنابة» اور «عن اجتناب» سب کا معنی ایک ہی ہے، یعنی دور سے۔ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا «على قدر» یعنی وعدے پر۔ «لا تنيا» یعنی سستی نہ کرو۔ «يبسا» یعنی خشک۔ «من زينة القوم» یعنی زیور میں سے جو بنی اسرائیل نے فرعون والوں سے مانگ کر لیے تھے۔ «فقذفتها» یعنی میں نے اس کو ڈال دیا۔ «ألقى» یعنی بنایا۔ «فنسي» اس کا مطلب یہ ہے کہ سامری اور اس کے لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے غلطی کی جو اس بچھڑے کو خدا نہ سمجھ کر دوسری جگہ چل دیا۔ «أن لا يرجع إليهم قولا» یعنی وہ بچھڑا ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3393]
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس رات کے متعلق بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا کہ جب آپ پانچویں آسمان پر تشریف لے گئے تو وہاں ہارون علیہ السلام سے ملے۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون علیہ السلام ہیں ‘ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: خوش آمدید ‘ صالح بھائی اور صالح نبی۔ اس حدیث کو قتادہ کے ساتھ ثابت بنانی اور عباد بن ابی علی نے بھی انس رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3393]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3393
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ہارون علیہ السلام سیدنا موسیٰ ؑکے بڑے بھائی تھے۔ اس حدیث میں ان کا ذکر ہے نیز حدیث اسراء میں موسیٰ ؑ کا بھی ذکر خیر ہے۔ اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ ثابت اورعباد نے صرف ہارون ؑ کے پانچویں آسمان میں ہونے کے بارے میں متابعت کی ہے۔ تمام حدیث میں متابعت مقصود نہیں۔ حضرت ثابت کی روایت کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیاہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 411(162) لیکن اس میں مالک بن صعصعہ کا ذکر نہیں ہے۔ قاضی شریک نے بھی اپنی روایت میں حضرت ہارون ؑ کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ پانچویں آسمان میں ہیں۔ (فتح الباري: 519/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3393