ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ابوحیان نے، ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک ہموار اور وسیع میدان میں جمع کرے گا، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا (کیونکہ یہ میدان ہموار ہو گا، زمین کی طرح گول نہ ہو گا) اور لوگوں سے سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت کا ذکر کیا کہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور خلیل ہیں۔ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کیجئے، پھر انہیں اپنے جھوٹ (توریہ) یاد آ جائیں گے اور کہیں گے کہ آج تو مجھے اپنی ہی فکر ہے۔ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3361]
بعض الناس ألا ترون إلى ما أنتم فيه إلى ما بلغكم ألا تنظرون إلى من يشفع لكم إلى ربكم فيقول بعض الناس أبوكم آدم فيأتونه فيقولون يا آدم أنت أبو البشر خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وأمر الملائكة فسجدوا لك وأسكنك الجنة ألا تشفع لنا إلى ربك ألا ترى ما نحن ف
أنا سيد الناس يوم القيامة يجمع الله الناس الأولين والآخرين في صعيد واحد يسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون ولا يحتملون فيقول الناس ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم فيقول بعض الناس لبعض عليكم
الله يجمع يوم القيامة الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس منهم فذكر حديث الشفاعة فيأتون إبراهيم فيقولون أنت نبي الله وخليله من الأرض اشفع لنا إلى ربك فيقول فذكر كذباته نفسي نفسي اذهبوا إلى موسى
سيد الناس يوم القيامة يجمع الله يوم القيامة الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون وما لا يحتملون فيقول بعض الناس لبعض ألا ترون ما أنتم فيه ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم
ألا يتبع كل إنسان ما كانوا يعبدونه فيمثل لصاحب الصليب صليبه ولصاحب التصاوير تصاويره ولصاحب النار ناره فيتبعون ما كانوا يعبدون ويبقى المسلمون فيطلع عليهم رب العالمين فيقول ألا تتبعون الناس فيقولون نعوذ بالله منك نعوذ بالله منك الله ربنا هذا مكاننا حتى نرى
أنا سيد الناس يوم القيامة يجمع الله الناس الأولين والآخرين في صعيد واحد فيسمعهم الداعي وينفذهم البصر وتدنو الشمس منهم فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون ولا يحتملون فيقول الناس بعضهم لبعض ألا ترون ما قد بلغكم ألا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم فيقول الن
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3361
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے جاہل نادان مسلمانوں کی مذمت نکلی جو اپنے مصنوعی اماموں اور پیروں پر بھروسا کئے بیٹھے ہیں۔ کہ قیامت کے دن وہ ان کو بخشوالیں گے۔ مقلدین ائمہ اربعہ میں سے اکثر جہال کا یہی خیال ہے کہ ان کے امام ان کی بخشش کے ذمہ دار ہیں، ایسے ناقص خیالات سے ہر مسلمان کو بچنا بہت ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3361
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3361
حدیث حاشیہ: 1۔ عنوان سابق میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا،اس حدیث میں اس کی وضاحت فرمائی کہ لوگ بھی قیامت کے دن اس بات کی گواہی دیں گے کہ واقعی آپ اللہ کے خلیل ہیں۔ 2۔ حضرت انس ؓ کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں کہ حضرت نوح ؑ لوگوں سے کہیں گے: تم حضرت ابراہیمؑ کے پاس جاؤ جوخلیل الرحمٰن ہیں۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7440) اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کے خلیل اللہ ہونے کا ذکرہے، اور عنوان بھی اسی سے متعلق ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3361
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3340
´شفاعت محمدیہ کا اثبات` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ...: 3340]
تخريج الحديث: [120۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 17 سورة الإسراء: 5 باب ذرية من حملنا مع نوح 3340، مسلم 194] لغوی توضیح: «فَنَهَسَ» دانتوں سے نوچا۔ «صَعِيْد وَاحِد» ایک چٹیل میدان۔ فھم الحدیث: ان احادیث میں شفاعت محمدیہ کا اثبات ہے۔ روز قیامت جب تمام انبیاء اپنی اپنی لغزشوں کو یاد کر کے کانپ رہے ہوں گے اس وقت صرف اور صرف ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی شفاعت کے لیے آگے بڑھیں گے۔ یہ چیز آپ کے تمام انبیاء سے افضل ہونے کی بھی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنے کے لیے یہ دعا پڑھنی چاہیے «اللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِيْ وَعَدْتَّهُ» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو بھی اذان سن کر یہ دعا پڑھے گا اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔ [بخاري: كتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء 614] جس روایت میں ہے کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی، وہ موضوع و من گھڑت ہے۔ [موضوع ارواء الغليل 4؍336 ضعيف الجامع الصغير 5607]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 120
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2434
´قیامت کے دن کی شفاعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا: ”قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہو گا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کر س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2434]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کی اس شفاعت کا بیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے، چونکہ انبیاء علیہم السلام ایمان و تقوی کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے، اسی وجہ سے وہ بار گاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے، لیکن نبی اکرم ﷺ اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے، اس سے آپ ﷺ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہوگی، آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے، جو مختلف مرحلوں میں ہوگی، اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے، جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2434
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 480
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا، کیونکہ آپ ﷺ کو دستی مرغوب تھی۔ آپ نے اس سے دانتوں سے ایک دفعہ گوشت کاٹا اور فرمایا: ”قیامت کے دن میں تمام انسانوں کا سردار ہوں گا، اور کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہوگا؟ اللہ عز و جل قیامت کے دن تمام پہلوں اور پچھلوں کو ایک کھلے ہموارمیدان میں جمع کرے گا۔ منادی کی آواز سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نظر سب پر پڑے گی۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:480]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) فَنَهَسَ: دانت سے کاٹنا۔ (2) صَعِيد: کھلی اور ہموار زمین۔ (3) يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ: نظر تمام انسانوں کا احاطہ کرے گی، دیکھنے والے سے کوئی اوجھل نہیں ہو گا۔ (4) مَصَارِيعٌ: مِصْراعٌ کی جمع ہے، دروازے کے پٹ۔ ہجر اور بصری: دو قدیمی معروف شہر ہیں، جن کے درمیان کافی مسافت ہے۔ فوائد ومسائل: (1) سید اس شخصیت کوکہتےہیں، جو سب سے برتر اورفائق ہو، اورگھبراہٹ وپریشانی میں لوگ اس کی پناہ میں آئیں۔ قیامت کوتمام انسان، آدمؑ سےلےکر آخری فرد تک آپ کی جھنڈےتلےہوں گے، اورآپ سےسفارش کےطالب ہوں گے، اس لیے آپ ﷺ نےتحدیث نعمت کے طور پر فرمایا: ”کہ میں قیامت کوتمام انسانوں کاسردارہوں گا۔ “(2) آپ ﷺنے دنیا میں اس بات کا اظہار فرمایاہے، کہ شفاعت کبریٰ کا اہل میں ہوں اورکوئی رسول اس کام کےلیے آمادہ نہ ہوگا۔ قیامت کے روز آپ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق لوگ تدریجاً آپ کےپاس پہنچیں گے، آپ کی امت کاکوئی فردبھی یہ مشورہ نہ دے سکے گا، کہ سفارش تو آخری رسول کی قبول ہونی ہے، چلو اس کےپاس چلیں، تا کہ عملاً آپ ﷺ کی فضیلت وبرتری کا سب انسانوں کےسامنےظہورہوسکے۔ (3) انبیاءؑ کے بیان کردہ عذرمعاف ہوچکےہیں، کیونکہ ان میں سےکسی سےقصور و کوتاہی شعوری طورپرسرزدنہیں ہوگی، اس کےباوجود، انہوں نے توبہ واستغفار کا ورد جاری رکھا، لیکن قیامت کی وحشت اور ہولناکی کی بنا پر وہ ان معاف شدہ باتوں کویادکر کے سفارش کرنےسےمعذرت کااظہارفرمائیں گے۔ (4) اللہ تعالیٰ صفتِ غضب سےمتصف ہے، لیکن اس کی کیفیت کوبیان کرناممکن نہیں ہے، اس لیےکسی قسم کی تاویل وتعطیل کی ضرورت نہیں ہے۔ (5) اس حدیث میں حضرت ابراہیمؑ نےتین کذبات بولنے کی بنا پر سفارش سےمعذرت کا اظہارفرمایا ہے، عربی زبان میں علامہ انباری کے بقول (کذب) کالفظ پانچ معانی کےلیے استعمال ہوتاہے۔ علامہ انباری نے مثالیں بھی دی ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئے تاج العروس: (1/449)(1) جھوٹ۔ (2) چوک جانا۔ (3) آرزو اور امید کا خاک میں ملنا۔ (4) کسی کو دھوکا میں رکھنا۔ (5) توریہ وتعریض سے کام لینا۔ یعنی ایساقول جو بظاہر خلاف واقعہ نظر آتا ہے، لیکن اگرغورو فکر سے کام لیا جائے، تو وہ بالکل واقعہ کےمطابق ہوتا ہے۔ جن واقعات کوحضرت ابراہیمؑ نے کذبات سےتعبیرکیا ہے، تو ان میں تینوں اقوال بظاہر خلافِ واقعہ نظرآتےہیں، لیکن اگرغور کیا جائے تو وہ تینوں اقوال بالکل واقعہ کےمطابق ہیں، یہ حضرت ابراہیمؑ کی شان کی رفعت وبلندی ہے، کہ انہوں نے توریہ وتعریض کوبھی جو بالکل جائز اور درست ہے، اپنی شان رفیع سے فروتر سمجھا، اور ان کو کذب سےتعبیرکیا۔ (6) احادیث صحیحہ میں شفاعت کبریٰ جو تمام انسانوں کے حساب وکتاب شروع کرنے کے لیے ہوگی، کا تذکرہ موجودنہیں ہے، بلکہ آپ کی امت کے گناہ گاروں کی سفارش کا ذکرہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سفارش کبریٰ کا اسلام کا نام لیوا فرقوں میں سےکوئی فرقہ منکر نہیں ہے، جبکہ گناہ گاروں کی سفارش کا خوارج اورمعتزلہ وغیرہما نے انکارکیا ہے، اس لیے گناہ گاروں کی سفارش کےلیے احادیث کے بیان پر زور دیا گیا، اورمتفقہ سفارش کے تذکرہ کونظر اندازکردیا گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 480
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7206
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"قیامت کے دن سورج مخلوق سے قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل کے بقدر جائے گا۔"سلیم بن عامر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا میل سے ان کی مراد کیا تھی کیا زمین کی مسافت یا وہ میل جس سے آنکھوں میں سرمہ ڈالا جاتا ہے آپ نے فرمایا:"لوگ اپنے اعمال کے بقدرپسینہ میں شرابورہوں گے(یعنی جس قدر اعمال زیادہ برے ہوں گے، اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7206]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قیامت میں پیش آنے والے ان واقعات و مناظر کی واقعی اور حقیقی صورت کا صحیح تصور اس دنیا میں مکمل طور پر نہیں کیا جاسکتا، پورا انکشاف بس اس وقت ہوگا، جب انسان حقائق سے دوچار ہوگا اور یہ مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجائیں گے، کیونکہ آخرت کے امورکودنیاپرقیاس نہیں کیا جاسکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7206
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4712
4712. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ چونکہ آپ کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا، اس لیے آپ نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمہیں علم ہے کہ یہ کس وجہ سے ہو گا؟ اللہ تعالٰی تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کر دے گا۔ اس دوران میں پکارنے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ان سب پر اس کی نظر پہنچے گی سورج بالکل قریب آ جائے گا، چنانچہ لوگوں کو غم اور تکلیف اس قدر ہوگی جو ان کی طاقت سے باہر اور ناقابل برداشت ہو گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے: تم دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایسا مقبول بندہ نہیں جو اللہ کے حضور تمہاری سفارش کرے؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ حضرت آدم ؑ کے پاس جانا چاہئے، چنانچہ سب لوگ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4712]
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں یوں ہے کہ عیسٰی فرمائیں گے عیسائی لوگوں نے مجھ کو خدا کا بیٹا بنا رکھا تھا میں ڈرتا ہوں پروردگار مجھ سے کہیں پوچھ نہ لے کہ تو اللہ یا اللہ کا بیٹا تھا؟ مجھے آج یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ میری مغفرت ہو جائے۔ حمیر سے صنعاء خیبر یمن کا پایئہ تخت مراد ہے بصرٰی سام کے ملک میں ہے۔ حدیث میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔ اس حدیث میں شفاعت کبریٰ کا ذکر ہے جس کا شرف سیدناو مولانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہوگا۔ باب اور آیت میں مطابقت حضرت نوح کے ذکر سے ہے جہاں یا نوحُ إنكَ أولُ الرُسُلِ إلی أھل الأرض۔ الفاظ مذکور ہیں۔ حضرت آدمؑ کے بعد عام رسالت کا مقام حضرت نوح ؑ کو حاصل ہوا۔ آپ کو آدم ثانی بھی کہا گیا ہے۔ کیونکہ طوفان نوح کے بعد انسانی نسل کے مورث اعلیٰ صرف آپ ہی ہیں۔ آپ کے چار بیٹے ہوئے جن میں سام کی نسل سے عرب فارس ہند وغیرہ ہیں اور یافث کی نسل سے روس ترک چین جاپان وغیرہ ہیں اور ھام کی نسل سے حبش اور اکثر افریقہ والے اور نوح کی نسل سے رٹرز فرانس جرمن آسٹریلیا اٹالیا اور مصر و یونان وغیرہ ہیں۔ اسی حقیقت کے پیش نظرآپ کو اول الرسل کہا گیا ہے۔ ورنہ آپ سے پہلے اور بھی کئی نبی ہو چکے ہیں مگر وہ عام رسول نہیں تھے۔ روایت میں ابراہیم ؑ سے منسوب تین جھوٹ یہ ہیں۔ پہلا جبکہ بت پرستوں کے تہوار میں عدم شرکت کے لئے لفظ ﴿إني سَقِیم﴾(الصافات: 89) استعمال کئے اور بت شکنی کا معاملہ بڑے بت پر ڈالتے ہوئے کہا ﴿بَل فَعَلَهُ کَبیرُھُم ھَذَا﴾(الأنبیاء: 63) استعمال کئے اور بت شکنی کا معاملہ بڑے بت پر ڈالتے ہیں اور سارہ کو اپنی بہن کہا اگرچہ یہ ظاہر اً جھوٹ نظر آتے ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے یہ جھوٹ نہ تھے پھر یہ ذات باری غنی اور صمد سے ہے وہ معمولی کام پر بھی گرفت کر سکتا ہے۔ اسی لئے حضرت ابراہیم ؑ نے اس موقع پر اظہار معذرت فرمایا۔ (صلی اللہ علیهم أجمعین) انی سقیم میں بیمار ہوں اسلئے میں تمہارے ساتھ تمہاری تقریب میں چلنے سے معذور ہوں۔ آپ بظاہر تندرست تھے۔ مگر آپ کے دل میں ان کی نازیبا حرکتوں کا سخت صدمہ تھا اور مسلسل صدمات سے انسان کی طبیعت ناساز ہونا بعید نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ کا ایسا کہنا جھوٹ نہ تھا۔ بت شکنی کا معاملہ بڑے بت پر بطور استہزاء ڈالا تھا تاکہ مشرکین خود اپنی حماقت کا احساس کرسکیں۔ قرآن مجید کے بیان کا سیاق وسباق بتلا رہا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ کہنا صرف اس لئے تھا تاکہ مشرکین خوداپنی زبان سے اپنے معبودان باطلہ کی کمزوری کا اعتراف کر لیں چنانچہ انہوں نے کیا۔ جس پر حضرت ابراہیم ؑ نے ان سے کہا کہ اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ صد افسوس تم پر اور تمہارے معبودان باطلہ پر جن کو تم کمزور کہتے ہو، معبود بنائے بیٹھے ہو۔ بیوی کو بہن کہنا دینی لحاظ سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وہ ہی ایک عورت ذات تھی جو ایسے نازک وقت میں حضرت ابراہیم ؑ کے ہم مذہب تھیں۔ بہر حال یہ تنیوں امور بظاہر جھوٹ نظر آتے ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے جھوٹ بالکل نہیں ہیں اور انبیاء کرامؑ کی ذات اس سے بالکل بری ہوتی ہے کہ ان سے جھوٹ صادر ہو۔ (صلی اللہ علیهم أجمعین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4712
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3340
3340. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک دعوت میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے، آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ کو انتہائی پسند تھا۔ آپ اسے اپنے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھانے لگے اور فرمایا: ”میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس لیے؟ وجہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا، دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا اور ہر پکارنے والا ان کو اپنی آواز سناسکے گا اور سورج ان کے قریب آچکا ہوگا توکچھ لوگ کہیں گے: کیا تم اپنا حال نہیں دیکھتے کہ کیا(غم اور کرب) تمھیں لاحق ہواہے؟ کوئی ایسا آدمی تلاش کرو جو تمہارے رب کے حضور تمہاری سفارش کرسکے؟ تو کچھ کہیں گے: تمہارا باپ آدم ؑ موجود ہے، چنانچہ لوگ ان کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے آدم ؑ! آپ ابو البشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر آپ کے اندر اپنی روح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3340]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر تمام کائنات کے سردار ہیں اور قیامت کے دن صرف آپ کی سیادت ظاہر ہوگی۔ تمام انبیاء اور دیگر لوگ آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت نوح ؑ کے متعلق آیا ہے کہ آپ اول الرسل ہیں یعنی اولوالعزم رسولوں میں سے پہلے ہیں جنھیں اللہ کے راستے میں سخت آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا نیز حضرت نوح ؑ وہ پہلے رسول ہیں جو اہل ارض کے لیے مبعوث ہوئے تھے حقیقت کے اعتبار سے حضرت آدم ؑ پہلے رسول ہیں لیکن ان کی رسالت صرف اپنی اولاد تک تھی وہ بھی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے تھی اس کے برعکس حضرت نوح ؑ کی رسالت تمام امت کے لیے تھی جو تمام شہروں میں پھیل چکی تھی جبکہ حضرت آدم ؑ کی اولاد صرف ایک شہر تک محدود تھی۔ چونکہ اس روایت میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ان کا تذکرہ متعدد مرتبہ آیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3340
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4712
4712. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ چونکہ آپ کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا، اس لیے آپ نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمہیں علم ہے کہ یہ کس وجہ سے ہو گا؟ اللہ تعالٰی تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کر دے گا۔ اس دوران میں پکارنے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ان سب پر اس کی نظر پہنچے گی سورج بالکل قریب آ جائے گا، چنانچہ لوگوں کو غم اور تکلیف اس قدر ہوگی جو ان کی طاقت سے باہر اور ناقابل برداشت ہو گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے: تم دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایسا مقبول بندہ نہیں جو اللہ کے حضور تمہاری سفارش کرے؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ حضرت آدم ؑ کے پاس جانا چاہئے، چنانچہ سب لوگ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4712]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں حضرت نوح ؑ کے متعلق صراحت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھے۔ عنوان میں ذکر کردہ آیت میں حضرت نوحؑ کی اس صفت کا حوالہ تھا۔ عنوان اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ 2۔ علامہ عینی ؒ نے مفسرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت نوح ؑ جب کھانا کھاتے تو کہتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے کھانا کھلایا، اگروہ چاہتا تو مجھے بھوکا رکھتا۔ جب پانی پیتے تو کہتے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے پانی پلایا، اگر وہ چاہتا تو مجھے پیاسا رکھتا۔ جب لباس پہنتے تو کہتے: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے لباس پہنایا، اگر وہ چاہتا تو مجھے برہنہ رکھتا۔ جب جوتا پہنتے تو کہتے: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے جوتا پہنچایا، اگر وہ چاہتا تو مجھے ننگے پاؤں رکھتا۔ جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو کہتے! اللہ کا شکر ہے جس نے اذیت سے نجات دی اور مجھے صحت سے نوازا، اگر وہ چاہتا تو اسے روک لیتا۔ اس شکر گزاری کی وجہ سے آپ کو عبدالشکور کا لقب دیا گیا ہے۔ (عمدة القاری: 114/13) حدیث کے متعلق دیگر مباحث کتاب احادیث الانبیاء میں گزر چکے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4712