حدیث حاشیہ: 1۔
کان سے جب سونا چاندی نکالاجاتا ہے تو اس کی ذاتی صفت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اسی طرح لوگوں میں جو ذاتی شرافت ہوتی ہے۔
وہ اسلام سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں میں برقراررہتی ہے۔
اگر وہ دین میں فقاہت اور سمجھ پیدا کرلے تو اس کی ذاتی شرافت میں مزید چمک اور روئیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔
اس اعتبار سے لوگوں کی اپنے مقابل کے اعتبار سے چارقسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
ایک آدمی دورجاہلیت میں شریف الطبع تھا وہ مسلمان ہوا اوردین میں خوب سمجھ پیدا کی تو اس کے مقابلے میں وہ شخص انتہائی براہے جو دورجاہلیت میں بدمعاش تھا، نہ اسلام لایا اور نہ اس نے کوئی اپنی سمجھ بوجھ ہی کو جلابخشی۔
۔
جو شخص زمانہ جاہلیت میں شریف الطبع تھا وہ مسلمان ہوا لیکن دینی معاملات میں بصیرت پیدا نہ کرسکاتو اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو دور جاہلیت میں شرافت والا نہیں تھا، وہ مسلمان نہ ہوا، البتہ وہ صاحب البصیرت ضرورتھا۔
۔
دور جاہلیت میں شریف تھا لیکن وہ مسلمان نہ ہوا اور نہ فقاہت کا مالک ہی بنا، اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو دور جاہلیت میں بدخصلت تھاوہ مسلمان ہوا اوردین میں سمجھ بوجھ پیدا کی۔
۔
دورجاہلیت میں شرافت کا حامل تھا لیکن وہ مسلمان نہ ہوا، البتہ صاحب بصیرت تھا،اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو زمانہ جاہلیت میں شرارتی تھا، وہ مسلمان تو ہوا لیکن دینی معاملات میں سمجھ بوجھ پیدا نہ کرسکا۔
ان میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو زمانہ جاہلیت میں شریف الطبع تھا، پھر مسلمان ہوا اور اپنے دین میں فہم وبصیرت پیدا کی۔
اس کےبعد وہ شخص جو زمانہ جاہلیت میں کمینہ خصلت تھا لیکن اسلام لایا اور علم دین حاصل کیا۔
اس کے بعد اس شخص کا درجہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں شریف تھا، اسلام لایا لیکن علم دین حاصل نہ کیا۔
سب سے آخر میں وہ شخص ہے جو زمانہ جاہلیت میں بری خصلتوں کاحامل تھا، وہ مسلمان ہوا لیکن بصیرت حاصل نہ کرسکا۔
اگرکوئی مسلمان نہیں ہواتو اسے دورجاہلیت کی شرافت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، خواہ وہ صاحب بصیرت ہویا اس کے بغیر رہا ہو۔
شرافت سے مراد اچھے اخلاق، مثلاً:
سخاوت، عفت اور بردباری سے متصف ہو اور اس کے برعکس بری صفات، مثلاً:
بخل، فسق وفجور اور ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرنے والا ہو۔
(فتح الباري: 638/6)