ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا کہ ہشام نے ہمیں اپنے والد عروہ سے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہا کہ احد کی لڑائی میں جب مشرکین کو شکست ہو گئی تو ابلیس نے چلا کر کہا کہ اے اللہ کے بندو! (یعنی مسلمانو) اپنے پیچھے والوں سے بچو، چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے کی طرف پل پڑے اور پیچھے والوں کو (جو مسلمان ہی تھے) انہوں نے مارنا شروع کر دیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے والد یمان رضی اللہ عنہ بھی پیچھے تھے۔ انہوں نے بہتیرا کہا کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں۔ لیکن اللہ گواہ ہے کہ لوگوں نے جب تک انہیں قتل نہ کر لیا نہ چھوڑا۔ بعد میں حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا کہ خیر۔ اللہ تمہیں معاف کرے (کہ تم نے غلط فہمی سے ایک مسلمان کو مار ڈالا) عروہ نے بیان کیا کہ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے قاتلوں کے لیے برابر مغفرت کی دعا کرتے رہے۔ تاآنکہ اللہ سے جا ملے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3290]
لما كان يوم أحد هزم المشركون فصاح إبليس أي عباد الله أخراكم فرجعت أولاهم فاجتلدت هي وأخراهم فنظر حذيفة فإذا هو بأبيه اليمان فقال أبي فوالله ما احتجزوا حتى قتلوه فقال حذيفة غفر الله لكم
لما كان يوم أحد هزم المشركون هزيمة بينة فصاح إبليس أي عباد الله أخراكم فرجعت أولاهم على أخراهم فاجتلدت أخراهم فنظر حذيفة فإذا هو بأبيه فنادى أبي فقالت فوالله ما احتجزوا حتى قتلوه فقال حذيفة غفر الله لكم
هزم المشركون يوم أحد هزيمة تعرف فيهم فصرخ إبليس أي عباد الله أخراكم فرجعت أولاهم فاجتلدت هي وأخراهم فنظر حذيفة بن اليمان فإذا هو بأبيه فقال أبي قالت فوالله ما انحجزوا حتى قتلوه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3290
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا تو حذیفہ ؓ کو ان کے باپ کی دیت آپ دلانے گئے۔ لیکن حذیفہ ؓ نے وہ بھی مسلمانوں کو معاف کردیا، سبحان اللہ! صحابہ ؓکی ایک ایک نیکی ہماری عمر بھر کی عبادت سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3290
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3290
حدیث حاشیہ: 1۔ ابلیس لعین کا یہ مقصد تھا کہ مسلمانوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرکے انھیں آپس میں لڑادے، چنانچہ اگلے لوگوں نے پچھلوں کو مشرک سمجھتے ہوئے ان پر حملہ کردیا اور وہ آپس میں الجھ کررہ گئے۔ اس بھگدڑ کے نتیجے میں حضرت یمان ؓقتل کردیے گئے۔ 2۔ بہرحال یہ ابلیس کا ایک فریب تھا، جس میں وہ کامیاب ہوا جو کہ شدت کی جنگ تھی۔ مسلمان غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے، اس لیے اس غلطی میں حضرت حذیفہ ؓ کے والد گرامی قتل ہوگئے۔ حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کردیا اور ہمیشہ ان کے لیے دعا اور استغفار کرتے رہے۔ اگرہمارے جیسا کوئی ہوتا تو ایسے موقع پر ہنگامہ کھڑا کردیتا لیکن یہ صحابہ کرام ؓ کی عظمت تھی کہ وہ مشکل حالات میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے تھے۔ ۔ ۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین۔ ۔ ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3290
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3824
3824. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب غزوہ اُحد میں مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگنے لگے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ آگے والے مسلمان پیچھے والے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور گھمسان کی جنگ ہونے لگی۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے والد گرامی کو دیکھا (کہ مسلمان انہیں قتل کر رہے ہیں) توبہ آواز بلند کہا: اللہ کے بندو! یہ میرے والد گرامی ہیں۔ یہ میرے باپ ہیں۔ لیکن لوگ نہ رُکے حتی کہ انہوں نے ان کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہیں معاف فرمائے۔ ہشام کے والد عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے باعث ہمیشہ دعا کرتے رہتے حتی کہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3824]
حدیث حاشیہ: اس سے ان کے صبر و استقلال اور فہم و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ غلط فہمی میں انسان کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے۔ ا س لئے اللہ کا ارشاد ہے کہ ہر سنی سنائی خبر کا یقین نہ کرلیا کرو جب تک اس کی تحقیق نہ کر لو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3824
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6668
6668. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عنہا روایت ہے انہوں نے فرمایا: غزوہ احد میں مشرکین شکست سے دوچار ہوئے اور اپنی شکست ان میں مشہور ہوگئی تو شیطان لعین زور سے چلایا: اللہ کے بندو اپنے پیچھے سے دشمن کا خیال کرو، چنانچہ آگے والے لوگ پیچھے کی طرف پلٹ پڑے پھر یہ (آگے والے) اور پیچھے والے باہم مصروف پیکار ہو گئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اچانک ان کے والد اس جماعت میں ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پکارنے لگے: یہ میرا باپ ہے۔ یہ میرا باپ ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! لوگ پھر بھی نہ رکے حتی کہ انہیں قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالٰی تمہاری مغفرت کرے۔ حضرت عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اپنے والد گرامی کی اس طرح شہادت کا آخر وقت افسوس رہا یہاں تک کہ وہ اپنے اللہ سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6668]
حدیث حاشیہ: جنگ احد میں ابلیس معلون نے دھوکا دیا پیچھے سے مسلمان ہی آ رہے تھے مگر ان کو کافر بتلا کر آگے والے مسلمانوں کو ان سے ڈرایا وہ گھڑاہٹ میں اپنے ہی لوگوں پر پلٹ پڑے اورحضرت حذیفہ کے والد یمان کو شہید کر دیا۔ اس روایت کی مطابقت باب سے یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے قسم کھا کر کہا۔ بعضوں نے یہ مطابقت بتلائی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان مسلمانوں سےکچھ نہیں کہا جنہوں نے حذیفہ کے باپ کو بھول سے قتل كر دیا تھا تو اس طرح بھول چوک سے اگر قسم توڑ دے تو کفارہ واجب نہ ہوگا۔ حضرت حذیفہ کو رسو ل کریم ﷺ کا خاص رازداں کہا گیا ہے۔ شہادت عثمان کے چالیس دن بعد 35ھ میں مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ ایک روایت میں بقیة خیر کا لفظ ہے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ حذیفہ پر مرتے دم تک اس خیر وبرکت کا اثر رہا یعنی اس دعا کا جو انہوں نے مسلمانوں کے لیے کی تھی کہ اللہ تم کو بخشے اس روایت کی مطابقت باب سے یوں ہےکہ حضرت عائشہ ؓ نے قسم کھا کر کہا فواللہ مازالت في حذیفة۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6668
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3824
3824. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب غزوہ اُحد میں مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگنے لگے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کو قتل کرو۔ آگے والے مسلمان پیچھے والے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور گھمسان کی جنگ ہونے لگی۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے والد گرامی کو دیکھا (کہ مسلمان انہیں قتل کر رہے ہیں) توبہ آواز بلند کہا: اللہ کے بندو! یہ میرے والد گرامی ہیں۔ یہ میرے باپ ہیں۔ لیکن لوگ نہ رُکے حتی کہ انہوں نے ان کو قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی تمہیں معاف فرمائے۔ ہشام کے والد عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس کے باعث ہمیشہ دعا کرتے رہتے حتی کہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3824]
حدیث حاشیہ: 1۔ ممکن ہے کہ ابلیس نے مشرکین کو آواز دے کر کہا ہو کہ تم اپنے پچھلے لوگوں پر حملہ کروجو مسلمان ہیں، لیکن اس سے مسلمان غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ چونکہ وہ شدت کی لڑائی تھی اور اس میں غلطی سے حضرت حذیفہ ؓ کے والد محترم حضرت یمان ؓ مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے جنھوں نے اسے قتل کیاتھا وہ عقبہ بن مسعود ؓ تھے، حضرت حذیفہ ؓ نے انھیں معاف کردیا اور ان کے قاتل کے لیے ہمیشہ دعا اور استغفار کرتے رہے۔ 2۔ اس حدیث سے حضرت حذیفہ ؓ کے صبرواستقلال اور ان کی فہم وفراست کا پتہ چلتا ہے۔ 3۔ غلط فہمی سے انسان کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے، اس لیے حکم ہے کہ ہر سنی سنائی بات کا یقین نہ کرو جب تک اس کی تحقیق نہ کرلو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3824
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6668
6668. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عنہا روایت ہے انہوں نے فرمایا: غزوہ احد میں مشرکین شکست سے دوچار ہوئے اور اپنی شکست ان میں مشہور ہوگئی تو شیطان لعین زور سے چلایا: اللہ کے بندو اپنے پیچھے سے دشمن کا خیال کرو، چنانچہ آگے والے لوگ پیچھے کی طرف پلٹ پڑے پھر یہ (آگے والے) اور پیچھے والے باہم مصروف پیکار ہو گئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اچانک ان کے والد اس جماعت میں ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پکارنے لگے: یہ میرا باپ ہے۔ یہ میرا باپ ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! لوگ پھر بھی نہ رکے حتی کہ انہیں قتل کر دیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالٰی تمہاری مغفرت کرے۔ حضرت عروہ نے کہا: اللہ کی قسم! حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اپنے والد گرامی کی اس طرح شہادت کا آخر وقت افسوس رہا یہاں تک کہ وہ اپنے اللہ سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6668]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ''بقية خير'' کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4065) اس روایت کے مطابق ترجمہ یوں ہو گا: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پر مرتے دم تک اس دعا کی خیر و برکت کا اثر رہا جو اس وقت انہوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کے لیے کی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔ (فتح الباري: 674/11)(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو کچھ نہیں کہا جنہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کو بھول کر غلطی اور لاعلمی میں شہید کر دیا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بھول چوک سے اپنی قسم توڑ دے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہو گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6668