ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسن بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے کسی ذمی کو (ناحق) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ/حدیث: 3166]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3166
حدیث حاشیہ: 1۔ اگرچہ اس حدیث میں ”ناحق“ کے الفاظ نہیں ہیں لیکن قواعد شرعیہ کا یہی تقاضا ہے کہ اس سے مراد قتل ناحق ہے تاہم بعض روایات میں بغیرحق کی تصریح موجودہے، نیز سنن نسائی میں ہے: ”جس شخص نے کسی ذمی کو ناحق قتل کیا اس پر جنت حرام ہے۔ “(سنن النسائي، القسامة، حدیث: 4752) 2۔ مذکورہ شخص اس وقت تک جنت کی خوشبو نہیں پائے گا جب تک اپنے جرم کی سزانہ پالے یا اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے جائز اور حلال خیال کرکے ذمی کو قتل کیا ہو۔ بہرحال یہ حدیث سخت وعید پر محمو ل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3166
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1129
´جزیہ اور صلح کا بیان` سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ ”جس کسی نے عہدی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا اور جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔“(بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1129»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجزية والموادعة، باب إثم من قتل معاهدًا بغير جرم، حديث:3166.»
تشریح: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی ذمی اور معاہد کو بلاوجہ اور کسی شرعی حق کے بغیر قتل کرنا حرام ہے‘ البتہ ایسے مسلمان قاتل سے دنیا میں قصاص نہیں لیا جاتا‘ اس لیے اس کی اخروی سزا بیان کی گئی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1129
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4754
´ذمی (معاہد) کو قتل کرنے کی شناعت و وعید کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آتی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4754]
اردو حاشہ: ”چالیس سال“ چالیس سال میں ستر کی نفی نہیں، لہٰذا یہ روایت سابقہ روایت کے خلاف نہیں۔ اور اگر کثرت کے معنیٰ مراد ہوں تو پھر تو سرے سے کوئی اشکال نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ جنت سے بہت دور رہے گا۔ لیکن اس سے مراد ابتدا ہے ورنہ آخر کار ہر مومن جنت میں جائے گا جیسا کہ پیچھے بیان ہو چکا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4754
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6914
6914. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس کسی نے ایسے شخص کو مارا جس نے عہد کیا گیا تھا، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھنے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6914]
حدیث حاشیہ: اس میں وہ سب کافر آگئے جن کو دارالاسلام میں امان دیا گیا ہو خواہ بادشاہ اسلام کی طرف سے جزیہ یا صلح پر یا کسی مسلمان نے اس کو امان دی ہو لیکن اگر یہ بات نہ ہو تو اس کافر کی جان لینا یا اس کا مال لوٹنا شرع اسلام کی رو سے درست ہے۔ مثلاً وہ کافر جو دارالاسلام سے باہر سرحد پر رہتے ہوں، ان کی سرحد میں جا کر ان کو یا ان کی کافر رعیت کو لوٹنا مارنا حلال ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں یوں ہے کہ بہشت کی خوشبو ستر برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے اور طبرانی کی ایک روایت میں سو برس مذکور ہیں۔ دوسری روایت میں پانچ سو برس اور فردوس دیلمی کی روایت میں ہزار برس مذکور ہیں اور یہ تعارض نہیں اس لیے کہ ہزار برس کی راہ سے بہشت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے تو پانچ سو یا سو یا ستر یا چالیس برس کی راہ سے اور زیادہ محسوس ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6914
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6914
6914. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس کسی نے ایسے شخص کو مارا جس نے عہد کیا گیا تھا، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھنے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6914]
حدیث حاشیہ: (1) معاہد سے مراد وہ غیر مسلم ہے جس کی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں پر عائد ہوتا ہو،یعنی وہ اسلامی حکومت کا شہری ہو،خواہ سربراہ مملکت کی طرف سے جزیہ یا صلح پر اسے امان دی گئی ہویا کسی مسلمان نے اسے پناہ دے رکھی ہو،ان سب صورتوں میں کسی کافر کو ناجائز نہیں مارا جائے گا۔ (فتح الباري: 323/12)(2) اگر کوئی غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے جارحانہ کارروائی کرتا ہے تو اس کا نوٹس لینا حکومت کا فرض ہے۔ اسی طرح اگر اسلامی ملک کی سرحدوں پر کافر لوگ باغیانہ کارروائیوں میں مصروف رہتے ہوں یا مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچاتے ہوں تو ان کا سدباب کرنا بھی اسلامی حکومت کا اولین فرض ہے۔ مسلمانوں رعایا کو قانون ہاتھ میں لے کر کسی قسم کی کارروائی نہین کرنی چاہیے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی یا معاہد کو قتل کر دے تو مسلمان کو قصاص کے طور پر قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس حدیث میں اس کے قتل پر اخروی وعید ہی بیان کی گئی ہے، دنیاوی سزا کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ (فتح الباري: 234/12) اس کے متعلق ہم آئندہ کسی وقت گفتگو کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6914