الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
7. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} :
7. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ الانفال میں) کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو، بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تقسیم کریں گے۔
حدیث نمبر: 3117
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا أُعْطِيكُمْ وَلَا أَمْنَعُكُمْ أَنَا قَاسِمٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے بلال نے بیان کیا ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ میں تمہیں کوئی چیز دیتا ہوں ‘ نہ تم سے کسی چیز کو روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ جہاں جہاں کا مجھے حکم ہوتا ہے بس وہیں رکھ دیتا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3117]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريما أعطيكم ولا أمنعكم أنا قاسم أضع حيث أمرت
   سنن أبي داودما أوتيكم من شيء وما أمنعكموه إن أنا إلا خازن أضع حيث أمرت
   صحيفة همام بن منبهما أوتيكم من شيء ولا أمنعكموه إن أنا إلا خازن أضع حيث أمرت

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3117 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3117  
حدیث حاشیہ:
اموال غنیمت پر اشارہ ہے کہ اس کی تقسیم امرالہیٰ کے مطابق میرا کام ہے‘ دینے والا اللہ پاک ہی ہے‘ اس لئے جس کو جو کچھ مل جائے اسے بخوبی قبول کرنا چاہئے اورجو ملے گا وہ عین اس کے حق کے مطابق ہی ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3117   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3117  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عطا کرنے والا اور منع کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، رسول اللہ ﷺ کو جو حکم ہوتا آپ اس کے مطابق عمل کرتے۔

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اموال غنیمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس کی تقسیم امر الٰہی، یعنی اللہ کے حکم کے مطابق میرا کام ہے۔
دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے جس کو جو کچھ مل جائے اسے بخوشی قبول کرلے اور جو ملے گا اس میں رسول اللہ ﷺ کا ذاتی کوئی عمل دخل نہیں ہوگا بلکہ وہ عین اس حق کے مطابق ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مال خمس کے مالک نہیں تھے بلکہ آپ صرف قاسم تھے اور تقسیم بھی امرالٰہی کے مطابق کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3117   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   43  
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خزانچی ہیں`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں ذاتی طور پر نہ تو تمہیں کوئی چیز عطاء کرتا ہوں اور نہ ہی کسی چیز سے تمہیں روکتا ہوں میں محض خازن ہوں، میں مال وہاں تصرف میں لاتا ہوں جہاں مجھے حکم دیا گیا ہے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 43]
شرح الحديث:
اس حدیث کا تعلق بالخصوص مسئلہ خُمس سے اور بالعموم اسلام کے تمام اوامر و نواہی سے ہے، یعنی رسول الله صلى الله عليه وسلم کو کسی معاملہ میں تصرف اور منع کا کوئی اختیار نہیں تھا، بلکہ رسول الله صلى الله عليه وسلم صرف وہی چیز عطا کرتے اور صرف اس چیز سے منع فرماتے، جس کا حکم الله عزوجل کی طرف سے نازل ہوتا۔ کیونکہ وہی ہستی تمام اموال و اختیارات کی مالک اور متصرف فی الامور ہے، وہی دینے والا اور روکنے والا مختار کل ہے، اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی ذات مبارکہ تو نگرانِ خزانہ کی سی ہے، جو الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کیے ہوئے احکامات کو نافذ کرنے والی ہے۔ اب چاہے کسی کو کم ملے یا وافر مقدار میں، یہ دونوں حکم الہی پر محمول ہوں گے۔
علاوہ ازیں اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ جب تک مال غنیمت کی تقسیم اور خمس (1/5) (جو مال الله اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کے لیے وقف ہو اس کو خمس کہتے ہیں) الله تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حصہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس وقت تک رسول الله صلى الله عليه وسلم مال غنیمت کی تقسیم اپنے اجتہاد سے کیاکرتے تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ الله تبارک و تعالیٰ نے مال غنیمت اور خمس کے متعلق بڑے جامع انداز کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ربانی ہے۔
«وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ» [الانفال: 41]
"اور جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو الله کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا."

مال غنیمت اور مال فے کے مابین فرق:
یہاں یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ غنیمت اور مال فیٔ کے مابین کیا فرق ہے۔
غنیمت: اس مال کو کہتے ہیں، جو کفار سے جنگ کے بعد (مسلمانوں کے) ہاتھ میں آئے۔
«فئي:» ‏‏‏‏ اس مال کو کہتے ہیں، جو کفار سے جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے۔
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مال غنیمت کو پانچ حصوں پر تقسیم کیا جائے گا جن میں سے ایک حصہ الله اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کے رشتہ داروں، مسکینوں، یتیموں اور مسافروں کے لیے وقف کیا جائے گا۔ اور بقیہ چار حصوں کو پورے پورے عدل و انصاف کے ساتھ ان مجاہدین پر تقسیم کیا جائے گا۔ جو اس معرکہ میں شریک ہوئے۔
اس مال کو تقسیم کرنے کی صورت (عین) اس طرح ہوگی، جس طرح رسول الله صلى الله عليه وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر فرمائی تھی۔ وہ اس طرح کہ جو مجاہد پیدل ہے، اسے صرف ایک حصہ اور جو گھوڑ سوار ہے اسے تین حصوں سے نوازا جائے گا، یعنی ایک حصہ اس کی ذات کے لیے اور دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے۔
علامہ ابن القیم رحمة الله علیه لکھتے ہیں:
"رسول الله صلى الله عليه وسلم معرکہ سے فارغ ہونے کے بعد ہر قسم کے مال غنیمت کو جمع کرنے کا حکم دیتے تھے اور جس مجاہد نے کسی کافر سے کوئی چیز چھینی ہوتی تھی، وہ اس کے سپرد کر دیتے اور پهر اس مال سے پانچواں حصہ الگ کرکے اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور حاجت مند مسافروں پر خرچ کر دیتے تھے، اس کے بعد جو مال بچ جاتا اسے اسلام اور مسلمانوں کے مصالح عامہ پر خرچ کر دیا کرتے تھے، اور اس کے بعد بقیہ مال کا کچھ حصہ ان عورتوں، بچوں اور غلاموں کو دے دیا کرتے جن کا مال غنیمت میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، پھر آخر میں باقی مال اس معرکہ میں شریک ہونے والے تمام مسلمان مجاہدین کے مابین پورے عدل و انصاف کے ساتھ برابر برابر تقسیم کر دیتے تھے۔ " [زاد المعاد]
رسول الله صلى الله عليه وسلم کے دنیا سے رخلت فرمانے کے بعد سیدنا ابوبکر و عمر رضی الله عنہم ان کا اور ان کے ذوالقربیٰ کا مالی حصہ جہاد کی ضروریات و تیاریوں میں صرف کر دیا کرتے تھے۔ اس سے متعلق سیدنا ابوبکر، علی اور قتادہ رضی الله عنہم وغیرہم کی یہی رائے تھی۔ جب کہ امام مالک اور اکثر اسلاف صالحین کی یہ رائے تھی کہ مال غنیمت میں سے آپ صلى الله عليه وسلم کا حصہ خمس حاکم وقت کے سپرد کر دیا جائے تاکہ وہ دیانت داری کے ساتھ اسے اسلام اور مسلمانوں کی مصالح عامہ پر خرچ کرے۔ امام ابن تیمیہ رحمة الله علیه نے بھی اس رائے کو راجح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں امام نسائی رحمة الله علیه نے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے، جو اس رائے کی کسی حد تک تائید کرتی ہے، چناچہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "مال غنیمت میں سے خمس (پانچواں حصہ) میری ذات کے لیے ہے لیکن (وہ بھی) تم پر ہی خرچ ہوگا۔ " [تيسير الرحمن: 532/1]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 43   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2949  
´امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2949]
فوائد ومسائل:
نبی کریم ﷺ پوری امت اسلامیہ بلکہ بنی نوع انسان کے سید اور سردار ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے خزانچی باور کرا رہے ہیں۔
تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے وسائل حکمرانوں کی ملکیت نہیں ہوتے۔
ان کے خرچ کرنے میں وہ خود مختار نہیں ہوتے۔
بلکہ تمام شرکاء یعن تمام بندوں کا ان میں حق ہوتا ہے۔
اور سب کو اس کے مطابق ان سے مستفید ہونے کا برابر موقع ملنا چاہیے۔
بلکہ جو نادار اور محتاج ہوں۔
ان کو زیادہ ملنا چاہیے۔
لیکن خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت میں مسلمانوں کے وسائل کے استعمال میں حکمران زیادہ سے زیادہ خود مختار ہوتے گئے اور خزانے کو اپنے لئے شیرمادر سمجھنے لگے۔
اور جس کسی کو کچھ دیتے تو استحقاق کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنے ساتھ وفاداری وغیرہ کی وجہ سے دیتے، یہ خیانت کے مترادف ہے۔
اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2949