ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ(غزوہ بنو لحیان میں جو 6 ھ میں ہوا) عسفان سے واپس ہوتے ہوئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپ نے سواری پر پیچھے (ام المؤمنین) صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو بٹھایا تھا۔ اتفاق سے آپ کی اونٹنی پھسل گئی اور آپ دونوں گر گئے۔ یہ حال دیکھ کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی فوراً اپنی سواری سے کود پڑے اور کہا ‘ یا رسول اللہ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے ‘ کچھ چوٹ تو نہیں لگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے عورت کی خبر لو۔“ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ‘ پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے قریب آئے اور وہی کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا۔ اس کے بعد دونوں کی سواری درست کی ‘ جب آپ سوار ہو گئے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ پھر جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی «آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون.»”ہم اللہ کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد پڑھنے والے ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا برابر پڑھتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3085]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3085
حدیث حاشیہ: روایت میں راوی سے سہو ہو گیا ہے۔ صحیح یوں ہے کہ جب آنحضرتﷺ خیبر سے لوٹے اس وقت حضرت صفیه ؓ آپ کے ساتھ تھیں۔ کیونکہ یہ خاتون آپ کو جنگ خیبر ہی میں ملی تھیں۔ جو ۷ھ میں ہوئی۔ جنگ بنو لحیان ۶ھ میں ہوئی ہے۔ اس وقت حضرت صفیہ ؓ موجود نہ تھیں۔ حضرت ابو طلحہ اپنے منہ پر کپڑا ڈال کر اس لئے آئے کہ حضرت صفیہ ؓ پر نظر نہ پڑے۔ واپسی پر آنحضرتﷺ کی زبان مبارک پر الفاظ طیبہ ''آئبون تائبون'' جاری تھے۔ باب سے یہی وجہ مناسبت ہے۔ اب بھی سنت یہی ہے کہ سفر حج ہو یا اور کوئی سفر خیریت سے واپسی پر اس دعا کو پڑھا جائے۔ عورت کو اپنے مرد کے پیچھے اونٹنی پر سواری کرنا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا۔ وفي الخیر الجاري أنما قالت من عسفان لأن غزوة خیبر کانت عقبها کأنه لم یعتد بالإقامة المتخللة بینهما لتقار بهما یعنی عسفان کا لفظ لانے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ غزوہ خیبر اس کے بعد ہی ہوا‘ اتنے قریب کہ راوی نے درمیانی عرصہ کو کوئی اہمیت نہیں دی اور ہر دو کو ایک ہی سطح پر رکھ لیا جیسا کہ حدیث سلمہ بن اکوع ؓ میں تحریم متعہ کے بارے میں غزوہ اوطاس کا ذکر آیا ہے۔ حالانکہ وہ مکہ ہی میں حرام ہو چکا تھا۔ مگر اوطاس اور مکہ میں تقارب کی وجہ سے وہ اس کی طرف منسوب کر دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3085
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3085
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ واقعہ غزوہ عسفان سے واپسی پر نہیں بلکہ غزوہ خیبر سے واپسی پر وقوع پذیر ہوا تھا کیونکہ غزوہ عسفان چھ ہجری میں ہوا جبکہ خیبر کا واقعہ سات ہجری میں ہوا ہے اور اسی سفر میں حضرت صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار ہوئی تھیں۔ 2۔ بعض اہل علم نے کہا کہ غزوہ عسفان کے متصل بعد غزوہ خیبر ہوا تھا اور دونوں کے درمیان والا عرصہ نظر انداز کردیاگیا کیونکہ وہ بہت تھوڑی مدت تھی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے مروی حدیث میں متعہ کی تحریم کو غزوہ اوطاس کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، حالانکہ متعے کی تحریم فتح مکہ میں ہوئی تھی، تو جس طرح غزوہ اوطاس کے فتح مکہ سے متصل ہونے کے باعث متعے کی تحریم غزوہ اوطاس کی طرف کردی گئی ہے اسی طرح غزوہ عسفان بھی غزوہ خیبر سے متصل تھا اس بنا پر مذکورہ واقعے کو غزوہ عسفان کی طرف منسوب کردیاگیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 232/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3085