اس بارے میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: Q3046]
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا۔ ان سے منصور نے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” «عاني» یعنی قیدی کو چھڑایا کرو ‘ بھوکے کو کھلایا کرو ‘ بیمار کی عیادت کرو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3046]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3046
حدیث حاشیہ: یہ تینوں نیکیاں ایمان و اخلاق کی دنیا میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ مظلوم قیدی کو آزاد کرانا اتنی بڑی نیکی ہے جس کے ثواب کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا‘ اسی طرح بھوکوں کو کھانا کھلانا وہ عمل ہے جس کی تعریف بہت سی آیات قرآنی و احادیث نبوی میں وارد ہے اور مریض کا مزاج پوچھنا بھی مسنون طریقہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3046
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3046
حدیث حاشیہ: دشمن کی قید سے مسلمان قیدی کو رہا کرانا ضروری ہے۔ خواہ تبادلے، معاوضے یا کسی اور طریقے سے ہو۔ اسی طرح بھوکے کو کھانا کھلانا بھی اخلاقی فرض ہے البتہ بیمار کی تیمار داری ایک مستحب امر ہے۔ شارح بخاری ابن بطال ؓنے کہا ہے اگر دشمن کے پاس مسلمان قیدی ہوں تو انھیں رہائی دلانا فرض کفایہ ہے اس پر تمام علمائے امت کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري: 201/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3046
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5649
5649. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بھوکے کو کھانا کھلاؤ مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5649]
حدیث حاشیہ: یہ مسلمانوں کے دوسرے مسلمانوں پر نہایت اہم اور بہت ہی بڑے حقوق ہیں جن کی ادائیگی واجب و لازمی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5649
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5174
5174. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”قیدی کو رہائی دلاؤ۔ دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرو اور بیمار کی بیمار پرسی کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5174]
حدیث حاشیہ: کوئی مسلمان ناحق قید و بند میں پھنس جائے تو اس کی آزادی کے لئے مال زکٰوۃ سے خرچ کیا جا سکتا ہے آج کل ایسے واقعات بکثرت ہوتے رہتے ہیں مگر مسلمانوں کو کوئی توجہ نہیں إلا ماشاءاللہ۔ دعوت قبول کرنا، بیمارکی عیادت کرنا یہ بھی افعال مسنونہ ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5174
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5373
5373. سیدنا ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بھوکے کو کھانا کھلاؤ بیمار کی تیمار داری کرو اور قیدی کور بائی دلاؤ۔“(راوی حدیث) سیدنا سفیان نے کہا: (حدیث میں لفظ) العاني سے مراد قیدی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5373]
حدیث حاشیہ: بے گناہ مظلوم قیدی مسلمان کو آزاد کرانا بہت نیکی ہے۔ زہے نصیب اس مسلمان کے جس کو یہ سعادت مل سکے۔ اللہ جنت نصیب کرے حضرت مولانا عبدالشکور شکراوی اخی المکرم مولانا عبدالرزاق صاحب کو جنہوں نے ایک نازک ترین وقت میں میری اس طرح مدد فرمائی تھی۔ اللھم اغفر لھم و ارحمھم آمین (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5373
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5174
5174. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”قیدی کو رہائی دلاؤ۔ دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرو اور بیمار کی بیمار پرسی کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5174]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں لفظ "دعي" عام ہے جو ہر قسم کی دعوت کرنے والے کو شامل ہے، خواہ کوئی دعوت ولیمہ کرے یا کوئی اور دعوت، بہرحال دعوت قبول کرنا ضروری ہے کیونکہ اس حدیث میں بھی امر کا صیغہ آیا ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ (2) جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ ولیمے کی دعوت قبول کرنا واجب ہے کیونکہ اس میں اعلانِ نکاح کو تقویت ملتی ہے لیکن دوسری دعوتیں قبول کرنا مستحب ہے۔ واضح رہے کہ جس قسم کی بھی دعوت ہو دعوت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو تو ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5174
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5373
5373. سیدنا ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بھوکے کو کھانا کھلاؤ بیمار کی تیمار داری کرو اور قیدی کور بائی دلاؤ۔“(راوی حدیث) سیدنا سفیان نے کہا: (حدیث میں لفظ) العاني سے مراد قیدی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5373]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ”بیمار کی تیمارداری کرو۔ “ کے بجائے ”دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو“ کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5174) معلوم ہوتا ہے کہ بعض راویوں نے کچھ ایسی چیزوں کو یاد رکھا جو دوسروں کو یاد نہ رہیں۔ اصل یہ کام ہیں۔ یہ تمام کام مستحبات میں سے ہیں اور بعض اوقات واجب بھی ہو جاتے ہیں۔ (فتح الباري: 643/9)(2) چونکہ عنوان میں ایک آیت کا مطلب یہ تھا کہ حلال کھانا کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اس حدیث نے وضاحت کر دی کہ کسی کو کھانا کھلانا بھی ایک نیک عمل ہے جو انسان کو کرنا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5373
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5649
5649. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بھوکے کو کھانا کھلاؤ مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5649]
حدیث حاشیہ: مریض کی تیمارداری صرف یہ نہیں کہ اس کی مزاج پرسی کر لی جائے بلکہ اسے تسلی دینا اور اس کے لیے دوا و علاج کا بندوبست کرنا بھی تیمارداری میں شامل ہے۔ بہرحال بیمار کی عیادت کرنا بہت بڑا کار ثواب ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی تیمارداری کرتا ہے تو گویا وہ جنت کے باغات میں سیر کر رہا ہوتا ہے اور وہاں کے میوے اور پھل کھا رہا ہوتا ہے۔ “(صحیح مسلم، البر و الصلة و الأدب، حدیث: 6552 (2568)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5649
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7173
7173. سیدناابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”قیدیوں کو رہا کرو اور ضیافت کرنے والےکی دعوت قبول کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7173]
حدیث حاشیہ: 1۔ احادیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم وقت کو دعوت قبول کرنی چاہیے اس کے چھوڑنے پر احادیث میں بہت سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جس شخص نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ “(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5177) 2۔ ابن بطال لکھتے ہیں کہ حاکم وقت کو ولیمے کی دعوت توضرور قبول کرنی چاہیے اور اس کے علاوہ دیگر دعوتوں میں اسے اختیار ہے بہتر ہے کہ وہ ایسی قبول نہ کرے جن میں ناجائز اغراض ومقاصد دعوت کرنے والے کے پیش نظر ہوں۔ ہاں اگر خالص دینی بھائی ہے یا کوئی قریبی رشتے دار ہے تو دعوت کے سلسلے میں اس کی ضرورحوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 203/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7173