ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی ‘ انہیں عمرو نے ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”جنگ تو ایک چالبازی کا نام ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3030]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3030
حدیث حاشیہ: مطلب یہ کہ جو فریق جنگ میں چستی چالاکی سے کام لے گا‘ جنگ کا پانسہ اس کے ہاتھ میں ہوگا۔ پس مسلمانوں کو ایسے موقع پر بہت زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ جنگ میں چستی چالاکی بہر صورت ضروری ہے اور اسی شکل میں اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3030
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3030
حدیث حاشیہ: 1۔ لڑائی میں تدبیر اور چالبازی ضروری ہے۔ غزوہ خندق میں یہود،قریش اور غطفان سب مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت نعیم بن مسعود ؓ کو بھیج کر ان میں ناچاقی اور بے اتفاقی پیدا کردی۔ اس وقت آپ نے فرمایا تھا: لڑائی مکروفریب کا نام ہے،یعنی اس میں داؤکرنا اور دشمن کودھوکا دیناضروری ہے کیونکہ جو فریق بھی لڑائی میں ایک بار دھوکا کھاجائے وہ ہلاک ہوجاتا ہے دوبارہ اٹھ نہیں سکتا۔ 2۔ اس کا یہ بھی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ لڑائی میں جہاں تک ممکن ہوحیلہ وغیرہ کرو تاکہ لڑائی کی نوبت نہ آئے اور اگر اس سے عاجز ہوجاؤ تو پھر جنگ کرو لیکن پہلے مفہوم میں زیادہ جامعیت ہے۔ 3۔ واضح رہے کہ دھوکا اور چال لڑائی میں تو جائزہے لیکن اس قسم کی چالبازی دوسرے معاملات میں جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3030
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1675
´لڑائی میں جھوٹ دھوکہ اور فریب کی رخصت کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1675]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جنگ ان تین مقامات میں سے ایک ہے جہاں جھوٹ، دھوکہ اور فریب کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ لڑائی کے ایام میں جہاں تک ممکن ہو کفار کو دھوکہ دینا جائز ہے، لیکن یہ ان سے کیے گئے کسی عہد و پیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1675
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4539
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑائی ایک چال یا تدبیر ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4539]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) خَدْعَةٌ، خَدْعَةٌ، خُدَعَةٌ، خَدَعَةٌ، خَدْعَةٌ: پہلی تین صفات مشہور ہیں، ہر ایک کا معنی یہ ہے۔ (2) خَدعَة: لڑائی ایک ہی چال ہے، جو وہ چال چل گیا کامیاب ہو گیا۔ (3) خُدعَة: لڑائی، ایک حیلہ اور چال ہے، ہر فریق اس کو چلنے کی کوشش کرتا ہے گویا یہ مجسمہ حیلہ اور چال ہے۔ (4) خُدَعَةٌ: یہ ایک بہت بڑا حیلہ اور تدبیر ہے، جس میں لوگ پھنس جاتے ہیں، مختلف آرزوؤں اور تمناؤں کا شکار ہوتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ وہ پوری ہوں۔ (5) خَدَعَةٌ: یہ خادع کی جمع ہے، یعنی لڑائی چالباز اور حیلہ جو ہے، ہر فریق دوسرے سے حیلہ کرتا ہے۔ (6) خِدْعَةٌ: یہ ایک مخصوص قسم کی چال اور حیلہ ہے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑائی میں حیلہ، چال اور تدبیر پر انحصار ہے، جو بہتر چال چل گیا اس نے بہتر تدبیر اختیار کر لی، اس کو کامیابی نصیب ہو گی، اس لیے اس میں آغاز اور ابتدا میں انجام یا نتیجہ کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، آغاز میں ایک فریق غالب آ رہا ہوتا ہے، لیکن انتہاء میں دوسرا فریق غالب آ جاتا ہے اور اس سے بعض ائمہ نے جنگ میں جھوٹ بولنے کو جائز قرار دیا ہے اور بعض نے کہا، جھوٹ سے مراد تعریض اور کنایہ ہے، کیونکہ کذب کا لفظ تعریض و کنایہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن کہیں گے، میں نے تین دفعہ جھوٹ یعنی تعریض و کنایہ سے کام لیا اور صحیح یہی معلوم ہوتا ہے، جہاں تک ممکن ہو جھوٹ سے احتراز کرنا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر تعریض اور کنایہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، الا یہ کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ رہے، پھر توریہ اور تعریض کی جگہ جھوٹ سے کام لیا جا سکتا ہے، مثلا کسی مسلمان کی زندگی یا اس کا مال جھوٹ بولے بغیر بچ نہ سکتا ہو تو جان و مال بچانے کے لیے اس کی گنجائش ہے۔