ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عاصم نے، ان سے ابوعثمان نے، ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو «لا إله إلا الله» اور «الله اكبر» کہتے اور ہماری آواز بلند ہو جاتی اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے ہو۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہے۔ بیشک وہ سننے والا اور تم سے بہت قریب ہے۔ برکتوں والا ہے۔ اس کا نام اور اس کی عظمت بہت ہی بڑی ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2992]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2992
حدیث حاشیہ: قسطلانی ؒنے طبری ؒ سے نقل کیا کہ اس حدیث سے ذکر بالجہر کی کراہیت ثابت ہوئی اور اکثر سلف صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے۔ میں (مولانا وحید الزمان مرحوم) کہتا ہوں تحقیق اس باب میں یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرنا چاہئے جہاں جہر آنحضرت ﷺ سے منقول ہے وہاں جہر کرنا بہتر ہے۔ جیسے اذان میں اور باقی مقاموں میں آہستہ ذکر کرنا بہتر ہے۔ بعضوں نے کہا اس حدیث میں جس جہر سے آپﷺ نے منع فرمایا وہ بہت زور کا جہر ہے جس سے لوگ پریشان ہوں‘ نہ جہر متوسط‘ بالجملہ بہت زور سے نعرے مارنا اور ضربیں لگانا جیسا کہ بعض درویشوں کا معمول ہے‘ سنت کے خلاف ہے اور حضرت ﷺ کی پیروی ان پیروں کی پیروی پر مقدم ہے۔ (وحیدی) مگر اسلامی شان و شوکت کے اظہار کے لئے جنگ جہاد وغیرہ مواقع پر نعرہ تکبیر بلند کرنا یہ امر دیگر ہے جیسا کہ پیچھے مذکور ہوا۔ روایت میں اللہ کے ساتھ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر وقت تمہاری ہر بلند اور آہستہ آواز کو سنتا ہے اور تم کو ہر وقت وہ دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنی ذات والا صفات سے عرش عظیم پر مستوی ہے۔ مگر اپنے علم اور سمع کے لحاظ سے ہر انسان کے ساتھ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2992
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2992
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ أکبر کہتے وقت آواز اس قدر بلند نہ کی جائے جو حد اعتدال اور حد جواز سے گزر جائے اور حد کراہت تک پہنچ جائے۔ مطلق بلند آواز سے منع نہیں کیا گیا بلکہ حد اعتدال سے تجاوز ممنوع ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ روایت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہےوہ ہر وقت ہماری بلند آہستہ آواز سنتا ہے اور ہمیں ہر آن دیکھ رہا ہے نیز اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے غائب کے مقابلے میں قریب کو بیان کیا ہے حالانکہ غائب کے مقابلے میں حاضر ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ حاضر و ناظر صفات الٰہیہ سے نہیں ہے لیکن ہم لوگ ان الفاظ کو بطور صفات الٰہیہ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2992
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1526
´توبہ و استغفار کا بیان۔` ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور اپنی آوازیں بلند کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم کسی بہرے یا غائب کو آواز نہیں دے رہے ہو، بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۱؎“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوموسیٰ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟“، میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1526]
1526. اردو حاشیہ: ➊ اللہ عزوجل بذاتہ عرش معلیٰ پر ہے۔ اور اپنے علم۔ سمع۔ بصر۔ اور قدرت کے لہاظ سے اپنے بندوں اور مخلوق کے انتہائی قریب ہے۔ اسی مفہوم میں یہاں ذکر ہوا ہے کہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ ➋ قران کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کی صفات دو انداز سے مذکور ہوئی ہیں۔ اثباتی اور سلبی۔ جیسا کہ سورہ اخلاص میں ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ صمد ہے ان میں اثبات ہے۔ اس نے جنا نہیں وہ جنا نہیں گیا۔ کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ ان میں سلب کا اثبات ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں دوسری نوع کی صفات کا ذکر ہے۔ وہ بہرا نہیں ہے یعنی سمیع ہے۔ وہ غائب نہیں ہے۔ یعنی قریب ہے۔ ➌ چلا چلا کر اللہ کا ذكر كرنا بے عقلی ہے۔ جن مواقع پر اونچی آوازسے ذکرکرنے کا بیان آیا ہے۔ وہاں آواز بالکل مناسب اور معقول رکھنے کی تعلیم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ [وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا)[بني إسرایئل:110] ➍ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمہ [لاحول ولاقوة ] كو كلمه استدلام وتفويض سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بندہ فی ذاتہ کسی چیز کا مالک نہیں۔ مگر وہی جو اللہ چاہے۔ ➎ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں (إِنَّ الذِي تدعونَه بينَكُم و بين أعناقِ ركابِكم] بے شک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے او ر تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ کے الفاظ منکر ضعیف ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1526
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6610
6610. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب ہم کسی اونچی جگہ پر چڑھتے اور اس پر بلند ہوتے یا کسی وادی کے نشیب میں اترتے تو بآواز بلند اللہ اکبر کہتے۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ ہمارے قریب آئے اور فرمایا: لوگو! اپنے آپ پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر حاضر کو نہیں پکار رہے بلکہ تم اس ہستی کو پکارتے ہو جو بہت سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے، پھر فرمایا: ”اے عبداللہ بن قیس! کیا میں تجھے ایک کلمہ نہ سکھاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ وہ کلمہ لا حول ولا قوة إلا بالله ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6610]
حدیث حاشیہ: (1) اس کلمے کے معنی یہ ہیں کہ گناہوں سے بچنے کی ہمت اور اچھے کام کرنے کی طاقت صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے انتہائی بے بس اور لاچار ہے۔ اس کی توفیق کے علاوہ نہ تو گناہوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ اس میں کوئی اچھا کام کرنے کی ہمت ہی ہے، ہاں جب اللہ توفیق دے تو اس کی اطاعت میں مصروف رہتا ہے۔ (2) اس کلمے میں توحید کے ساتھ ساتھ تقدیر پر ایمان بھی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب بندہ لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ مطیع ہو گیا اور اس نے خود کو میرے حوالے کر دیا۔ (المستدرك للحاکم: 21/7) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملے تو انہوں نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت سے کہیں کہ وہ جنت میں بکثرت پودے لگائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’‘جنت میں پودے کیسے لگائے جا سکتے ہیں؟“ تو انہوں نے فرمایا: وہ بکثرت لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھیں۔ (مسند أحمد: 418/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6610