الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
13. بَابُ عَمَلٌ صَالِحٌ قَبْلَ الْقِتَالِ:
13. باب: جنگ سے پہلے کوئی نیک عمل کرنا۔
حدیث نمبر: Q2808
وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ بِأَعْمَالِكُمْ وَقَوْلُهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ {2} كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لا تَفْعَلُونَ {3} إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ {4} سورة الصف آية 2-4.
‏‏‏‏ اور ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ اپنے (نیک) اعمال کی بدولت جنگ کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ صف میں یہ) ارشاد «يا أيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون * كبر مقتا عند الله أن تقولوا ما لا تفعلون * إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا كأنهم بنيان مرصوص‏» اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑے غصے کی بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ‘ بیشک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف بنا کر ایسے جم کر لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی ٹھوس دیوار ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: Q2808]
حدیث نمبر: 2808
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالْحَدِيدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَاتِلُ وَأُسْلِمُ، قَالَ:" أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَمِلَ قَلِيلًا، وَأُجِرَ كَثِيرًا".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شبابہ بن سوار فزاری نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب زرہ پہنے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں پہلے جنگ میں شریک ہو جاؤں یا پہلے اسلام لاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے اسلام لاؤ پھر جنگ میں شریک ہونا۔ چنانچہ وہ پہلے اسلام لائے اور اس کے بعد جنگ میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمل کم کیا لیکن اجر بہت پایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 2808]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريعمل قليلا وأجر كثيرا
   صحيح مسلمعمل هذا يسيرا وأجر كثيرا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2808 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2808  
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا یہ شخص عمرو بن ثابت انصاری ؓتھا۔
ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ لوگوں سے پوچھا کرتے تھے کہ بھلا بتاؤ وہ کون شخص ہے جس نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی اور جنت میں چلا گیا‘ پھر کہتے یہ عمرو بن ثابت ؓہے۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہر نیک کام کی قبولیت کے لئے پہلے مسلمان ہونا شرط ہے۔
غیر مسلم جو نیکی کرے دنیا میں اس کا بدلہ اسے ملے گا اور آخرت میں اس کے لئے کچھ نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2808   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2808  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2808 کا باب: «بَابُ عَمَلٌ صَالِحٌ قَبْلَ الْقِتَالِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«المطابقة بين الترجمة و بين هاتين ظاهر الآية قوله: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾ [الصف: 2] لكن وجهه على الجملة ان الله تعالى عاتب من قال انه يفعل الخير ولم يفعله ثم اعقب ذالك بقوله: ﴿إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا﴾ [الصف: 4] فأثنى على من وفىّ وثبت، ثم قاتل.» [المتواري، ص: 156]
آیات اور ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت اس طرح ہے کہ اللہ تعالی نے پہلی دو آیتوں میں اس شخص پر عتاب فرمایا جو یہ کہے کہ میں اچھا کام کروں گا پھر نہ کرے۔ اور اس کے بعد آیت « ﴿إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِينَ . . .﴾ » میں اس شخص کی تعریف فرمائی جو میدان جنگ میں ثابت قدمی دکھائے اور پھر قتال کرے۔ چنانچہ آیت مذکورہ میں اس آدمی کی مدح ہے جو کہے بھی اور کر کے بھی دکھائے، اور اس کا قول جہاد کی تیاری کے سلسلے میں قتال سے قبل عمل صالح ہے جس کو اس نے قتال پر مقدم کیا ہے۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«والمقصود من ذكر هذه الآية لفظ صفًا أى صافين أنفسهم أو مصفوفين، أو هو عمل صالح قبل القتال.» [الكواكب الدراري، ج 12، ص: 84]
مقصود آیت میں «صف» کا لفظ ہے کہ وہ صف بناتے ہیں اور ان کا قتال سے قبل صف بندی کرنا عمل صالح ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث ذکر فرمائی ہے یہ حدیث بھی اسی مسئلہ پر دلالت کرتی ہے کیوں کہ قتال سے قبل اسلام قبول کرنا عمل صالح ہے۔
علامہ گنگوہی رقمطراز ہیں:
«ان الصالح يوجر فى عمله ما يؤجر الفاسق، فوجب تقديم العمل للصالح ليؤجر أكثر مما يوجر دونه و دلالة الرواية ظاهرة، فإن الاسلام من العمل الصالح وقد أمر بتقديمه.» [لامع الدراري، ج 7، ص: 217]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس ترجمے سے یہ ہے کہ صالح اور دیندار شخص کو اس کے اعمال کا جو اجر دیا جاتا ہے وہ فاسق کو نہیں دیا جاتا۔ اس لیے عمل صالح کو مقدم رکھنا چاہیے تاکہ دوسرے سے زائد اجر کا حامل ہو۔ لہذا حدیث باب کی دلالت اس پر بالکل ظاہر ہے کیوں کہ اسلام عمل صالح ہے اور حدیث میں اس کی تقدیم کا حکم دیا گیا ہے۔
علامہ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقة الآية للترجمة ان الله تعالى ذم الذين يقولون مالا يفعلون . . . الذين قالوا وعزموا وقاتلوا لأن القول فى طلب الجهاد والعزم عليه عمل صالح مقدم عليه.» [مناسبات تراجم البخاري، ص: 86، طبع هند]
ترجمہ اور آیت میں مناسبت یوں ہے کہ اللہ تعالی نے آیت میں ان کی مذمت فرمائی ہے جو کہتے ہیں مگر کرتے نہیں . . . وہ لوگ جو (پختہ) عزم کرتے ہیں قتال کا یہ کہ قول طلب جہاد کے لیے اور اس کا عزم کرنا یہ عمل صالح ہے (قتال پر) مقدم ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومطابقة الترجمة فى قوله: أسلم ثم قاتل، فأسلم ثم قاتل، فانه بالعمل الصالح، بل بأفضل الأعمال قبل القتال.» [لب اللباب فى تراجم والأبواب، ج 2، ص: 430]
ترجمۃ الباب سے مطابقت اس قول میں ہے کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا تھا) اسلام لے آو پھر قتال کرو، پس وہ (پہلے) اسلام لایا اور پھر قتال میں شریک ہوا، پس یقینا وہ عمل صالح ہے (قتال سے قبل) بلکہ افضل اعمال ہے قتال سے قبل۔
اور سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کا جو قول ہے کہ تم اپنے اعمال کی بدولت ہی قتال کرتے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی تمہیں نیک اور اچھے کام کی توفیق دیتا ہے اور اس کی وجہ سے قتال میں کامیابی ہوتی ہے اور اس میں خیر و برکت ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا تعلیق کو محدث عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اپنی «كتاب الجهاد» میں موصولا ذکر فرمایا ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمہ بنایا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی سند سے نقل فرماتے ہیں:
«عن سعيد بن عبدالعزيز عن ربيعة بن يزيد، أن أبا درداء قال: أيها الناس، عمل صالح قبل الغزو فإنما تقاتلون بأعمالكم.» [تغليق و التعليق، ج 2، ص: 431]
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! عمل صالح غزوے سے قبل ہے کیونکہ تم لوگ قتال کرتے ہو اپنے اعمال ہی کے ذریعے۔
مزید لکھتے ہیں:
«عن سعيد بن عبدالعزيز عن ربيعة بن يزيد أن أبا الدرداء قال: أيها الناس عمل صالح قبل الغزو فإنما تقاتلون بأعمالكم.»
اب غور طلب بات یہ ہے کہ مذکورہ اثر کے پہلے حصے کو تو امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمہ بنایا اور دوسرے حصے کو تعلیق کی صورت میں نقل فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ «عن سعيد بن عبدالعزيز عن ربيعه بن يزيد عن أبى الدرداء» کے طریق میں انقطاع ہے، کیوں کہ ربیعہ بن یزید کا سماع سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، جبکہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے طریق میں ربیعہ بن یزید اور سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے درمیان ابن حبلس کا واسطہ ہے اور اس میں صرف «انما تقاتلون بأعمالكم» کا ذکر ہے۔
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حصے کو جو متصل ہے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دیا اور جو حصہ منقطع سند کے ساتھ مذکور ہے اس کو ترجمہ میں ذکر فرما دیا۔
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اشارة إلى أنه لم يغفله» [فتح الباري، ج 6، ص: 20]
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس سے غافل نہ تھے۔
فائدہ نمبر 1:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ان ان کتب کا حوالہ دیا ہے جسے پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یقینا صحیح بخاری کی تالیف میں امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سی ایسی کتب کے حوالے دیے ہیں جن کی نظیر نہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ لکھنے میں غفلت کا شکار نہیں تھے۔ محدث حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود آپ کی تحقیق اور آپ کے حوالوں کے بارے میں معترف ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ معلقات و متابعات پر ایسے ایسے حوالہ دیتے ہیں جن سے یہ بات روشن ہوتی ہے کہ آپ کے حافظے میں کتب خانے اور ذخیرہ کتب کے حوالے محفوظ تھے۔ آپ کی حاضر دماغی اور آپ کی علمیت کا اندازہ تو قارئین آپ کر ہی چکے ہوں گے لیکن یہاں پر آپ مزید امام بخاری رحمہ اللہ کے حافظے کے معترف ہوں گے اور داد دیے بغیر نہ رہیں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے متابعات اور شواہدات پر جو حوالے دیے ہیں چند حوالے ہم یہاں درج کیے دیتے ہیں:
«(1) أربعين للحاكم، (2) كتاب الاعتقاد للبيهقي، (3) غرائب مالك للدارقطني، (4) جزء القاري، (5) الأمثال للرامهرمزي، (6) كتاب العلم للمروزي، (7) شرح السنة للبغوي، (8) فوائد ابوالقاسم التنوخي، (9) كتاب الشريعة لابن أبى داود، (10) مسند عبدالحميد الحماني، (11) أمالي لابن منده، (12) جزء حسن بن علي، (13) فوائد القزويني، (14) معرفة الصحابة لابن منده، (15) بشراتيات، (16) كتاب الصلوٰة لجعفر الفريابي، (17) أمالي محاملي، (18) جزء أبى نعيم، (19) أربعين لأبي الفتوح الطائي، (20) جزء محمد بن عثمان بن كرامه، (21) معجم كبير للطبراني، (22) تاريخ صغير للبخاري، (23) جزء الذهلي، (24) الجزء الثاني من فوائد، (25) ابن أخي ميمي، (26) مسند لمحمد بن هارون الروياني، (27) فوائد الخليلي، (28) كتاب الصيام ليوسف بن يعقوب القاضي، (29) كتاب الخراج يحيي بن آدم، (30) فوائد أبوعلي بن خزيمة، (31) جزء أبومسعود الرازي، (32) جزء أبوالعباس بن نجيح، (33) مسند أحمد بن حنبل، (34) صحيح ابن خزيمة، (35) صحيح ابن حبان، (36) كتاب الأموال لأبي عبيد، (37) مصنف عبدالرزاق، (38) مسند بزار، (39) معجم أوسط طبراني، (40) دارقطني (41) كتاب الإيمان لابن منده (42) أمالي ابن البحتري، (43) الأحاديث المختارة للحافظ الضياء، (44) نسائي، (45) أبوداؤد، (46) ابن ماجه، (47) جزء أبى مسعود الرازي، (48) مسند أبى للجوزي، (49) تفسير ابن أبى حاتم، (50) مسند مسدد، (51) المتفق للجوزي، (52) مستخرج أبى نعيم، (53) مسلم شريف، (54) صحيح أبى عوانه، (55) ترمذي، (56) سنن كبريٰ بيهقي،
(57) مسند حميدي، (58) مسند إسحاق بن راهويه، (59) طحاوي، (60) مستخرج إسماعيلي، (61) جامع سفيان ثوري، (62) مؤطا امام مالك، (63) كتاب بر الوالدين للبخاري، (64) مستدرك حاكم، (65) مسند عبد بن حميد، (66) كامل ابن عدي، (67) صحيفة همام، (68) مسند دارمي، (69) تاريخ كبير للبخاري، (70) تفسير طبراني، (71) مسند ابن أبى عمر عدني، (72) مسند سراج، (73) رباعيات أبوبكر الشافعي، (74) محامليات، (75) زهريات، (76) معجم صغير طبراني، (77) غيلانيات، (78) مسند أحمد، (79) مسند الشافعي، (80) حلية الأولياء لأبي نعيم، (81) كتاب الترهيب لأبي الشيخ، (82) مسند أبوبكر ابن أبى شيبة، (83) تفسير ابن جرير طبري، (84) جزء أبى الجهم، (85) مسند أبى داؤد الطيالسي، (86) الأدب المفرد، (87) مصنف ابن أبى شيبة، (88) مخلصيات، (89) كتاب الجهاد لابن أبى عاصم، (90) طبقات ابن سعد، (91) أمالي القطيعي، (92) فوائد أبى الحسن، (93) كتاب الزكوٰة ليوسف بن يعقوب القاضي، (94) مغازي ابن إسحاق، (95) جزء حنبل بن إسحاق، (96) جزء ابن زنبور، (97) معجم الصحابة للبغوي، (98) فوائد أبى بحر، (99) فوائد سمويه، (100) دلائل النبوة للبيهقي، (101) أمالي أبوجعفر الرازي، (102) فوائد أبوالفتح الحداد، (103) كتاب الأمر بالمعروف لابن أبى الدنيا، (104) فضائل الصحابة، (105) جزء أبى بكر، (106) تمهيد لابن عبدالبر، (107) جزء ابن ملاس، (108) جعديات، (109) كتاب الجهاد لابن المبارك، (110) معاني الآثار للطحاوي، (111) تفسير سفيان ثوري، (112) تفسير ابن مردويه، (113) فضائل القرآن لأبي عبيد، (114) المصاحفة للبرقاني، (115) كتاب الأوائل لأبي عروبة، (116) منتخب المسند لعلي بن عبدالعزيز، (117) البعث والنشور للبيهقي، (118) عمل اليوم والليلة للنسائي، (119) سنن كبريٰ للنسائي، (120) جزء ابن سعيد، (121) مستدرك أبوذر هروي، (122) جزء البانياسي، (123) تاريخ يعقوب بن سفيان، (124) تفسير عبد بن حميد، (125) كتاب الأضاحي لأبي الشيخ، (126) مسند حسن بن سفيان، (127) غرائب شعبة لابن منده، (128) فوائد أبى بكر، (129) جزء ابن بخيت، (130) جزء هلال الحفار، (131) ثقفيات، (132) فوائد لتمام الرازي، (133) أمالي أبى القاسم بن جراح، (134) كتاب الفوائد للفاكهي، (135) جزء أبى العضل بن فرات، (136) شعب الإيمان للبيهقي، (137) كتاب الحبين لأبي نعيم، (138) مسند حسن بن سفيان، (139) فوائد النجاد، (140) ابن السماك، (141) كتاب الدعاء لمحمد بن فضيل، (142) أربعين للثقفي، (143) أمالي الحرقي، (144) البعث لابن أبى داؤد، (145) مسند نجاد، (146) كتاب الروح لابن منده، (147) أمالي أبى بكر النجاد، (148) جزء ابن حوصا، (149) السنة من تأليف لالكائي، (150) فوائد أبى الحسن العقيقي، (151) خلق أفعال العباد للبخاري، (152) جزء رفع اليدين، (153) تعظيم الصلوٰة لمحمد بن نصر مروزي وغيره هذه الكتب.»

فائدہ نمبر 2:
محترم قارئین! ذہن نشین رکھیے اکثر حضرات ان لوگوں کو وعظ و نصیحت سے روکتے ہیں جو عمل میں کمزور ہوتے ہیں یا وہ خود عمل نہیں کرتے کہ آپ کا کوئی حق نہیں کہ آپ کسی کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اور وہ دلیل کے لیے یہ آیت پیش کرتے ہیں: « ﴿لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾ » [الصف: 2] وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ لہذا اس کا جواب یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت مبارکہ کا تعلق دعوے سے ہے دعوت سے نہیں۔ لہذا ہرگز کسی ایسی بات کا دعوی درست نہیں جس پر عمل نہ ہو، اور اسی دعوے کے بغیر دعوت دی جائے، لیکن دعوت دینا اور نصیحت کرنا جائز ہے وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں۔
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ بندہ عمل ہی کو چھوڑ دے صرف دعوت دیتا رہے۔ واللہ اعلم
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 393   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2808  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر نیک عمل کی قبولیت کے لیے پہلے مسلمان ہونا شرط ہے۔
غیر مسلم لوگ جو اچھے کام کرتے ہیں انھیں دنیا میں اس کا بدلہ مل جاتا ہے لیکن آخرت میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہو گا۔
دنیا میں ان کی اچھی شہرت ان کے اچھے کاموں کا بدلہ ہے۔

امام بخاری ؓ کا مقصد یہ ہے کہ نیک انسان کو اپنے نیک اعمال میں اتنا ثواب ملتا ہے جو فاسق کو اچھا کام کرنے سے نہیں ملتا۔
اس لیے جہاد سے پہلے کوئی نیک عمل کر لینا چاہیے تاکہ مجاہدین کو جو ثواب ملنا ہے اس سے زیادہ ثواب ملے۔

روایت کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اسلام لانا ایک اچھا عمل ہے جسے رسول اللہ ﷺنے قتال سے پہلے کرنے کا حکم دیا ہے واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2808