الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
8. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} :
8. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) یہ فرمانا کہ ”وصیت اور قرضے کی ادائیگی کے بعد حصے بٹیں گے“۔
حدیث نمبر: Q2749
وَيُذْكَرُ أَنَّ شُرَيْحًا، وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَطَاوُسًا، وَعَطَاءً، وَابْنَ أُذَيْنَةَ أَجَازُوا إِقْرَارَ الْمَرِيضِ بِدَيْنٍ، وَقَالَ الْحَسَنُ: أَحَقُّ مَا تَصَدَّقَ بِهِ الرَّجُلُ آخِرَ يَوْمٍ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَوَّلَ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ وَالْحَكَمُ: إِذَا أَبْرَأَ الْوَارِثَ مِنَ الدَّيْنِ بَرِئَ، وَأَوْصَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، أَنْ لَا تُكْشَفَ امْرَأَتُهُ الْفَزَارِيَّةُ عَمَّا أُغْلِقَ عَلَيْهِ بَابُهَا، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا قَالَ لِمَمْلُوكِهِ عِنْدَ الْمَوْتِ كُنْتُ أَعْتَقْتُكَ جَازَ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: إِذَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ عِنْدَ مَوْتِهَا إِنَّ زَوْجِي قَضَانِي وَقَبَضْتُ مِنْهُ جَازَ، وَقَالَ: بَعْضُ النَّاسِ، لَا يَجُوزُ إِقْرَارُهُ لِسُوءِ الظَّنِّ بِهِ لِلْوَرَثَةِ، ثُمَّ اسْتَحْسَنَ، فَقَالَ: يَجُوزُ إِقْرَارُهُ بِالْوَدِيعَةِ، وَالْبِضَاعَةِ، وَالْمُضَارَبَةِ وَقَدْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا يَحِلُّ مَالُ الْمُسْلِمِينَ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آيَةُ الْمُنَافِقِ إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا سورة النساء آية 58، فَلَمْ يَخُصَّ وَارِثًا، وَلَا غَيْرَهُ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اور منقول ہے کہ قاضی شریح، عمر بن عبدالعزیز، طاؤس، عطاء اور عبدالرحمٰن بن اذینہ ان لوگوں نے بیماری میں قرض کا اقرار درست رکھا ہے اور امام حسن بصری نے کہا سب سے زیادہ آدمی کو اس وقت سچا سمجھنا چاہئے جب دنیا میں اس کا آخری دن اور آخرت میں پہلا دن ہو اور ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ نے کہا اگر بیمار وارث سے یوں کہے کہ میرا اس پر کچھ قرضہ نہیں تو یہ ابراء صحیح ہو گا اور رافع بن خدیج (صحابی) نے یہ وصیت کی کہ ان کی بیوی فزاریہ کے دروازے میں جو مال بند ہے وہ نہ کھولا جائے اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی مرتے وقت اپنے غلام سے کہے میں تجھ کو آزاد کر چکا تو جائز ہے۔ اور شعبی نے کہا کہ اگر عورت مرتے وقت یوں کہے میرا خاوند مجھ کو مہر دے چکا ہے اور میں لے چکی ہوں تو جائز ہو گا اور بعض لوگ (حنفیہ) کہتے ہیں بیمار کا اقرار کسی وارث کے لیے دوسرے وارثوں کی بدگمانی کی وجہ سے صحیح نہ ہو گا۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ امانت اور بضاعت اور مضاربت کا اگر بیمار اقرار کرے تو صحیح ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بدگمانی سے بچے رہو بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اور مسلمانو! (دوسرے وارثوں کا حق) مار لینا درست نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے منافق کی نشانی یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جس کی امانت ہے اس کو پہنچا دو۔ اس میں وارث یا غیر وارث کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اسی مضمون میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع حدیث مروی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2749]
حدیث نمبر: 2749
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ أَبُو سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ".
ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے اسمٰعیل بن جعفر نے ‘ انہوں نے کہا ہم سے نافع بن مالک بن ابی عامر ابوسہیل نے ‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2749]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريآية المنافق ثلاث إذا حدث كذب إذا اؤتمن خان إذا وعد أخلف
   صحيح البخاريآية المنافق ثلاث إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا اؤتمن خان
   صحيح البخاريآية المنافق ثلاث إذا حدث كذب إذا اؤتمن خان إذا وعد أخلف
   صحيح البخاريآية المنافق ثلاث إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا اؤتمن خان
   صحيح مسلممن علامات المنافق ثلاثة إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا ائتمن خان
   صحيح مسلمآية المنافق ثلاث إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا اؤتمن خان
   جامع الترمذيآية المنافق ثلاث إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا اؤتمن خان
   سنن النسائى الصغرىآية النفاق ثلاث إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا اؤتمن خان
   صحيح ابن حبانثلاث من كن فيه فهو منافق إن صام وصلى وزعم أنه مسلم إذا حدث كذب إذا وعد أخلف إذا ائتمن خان
   مشكوة المصابيحآية المنافق ثلاث . زاد مسلم: وإن صام وصلى وزعم انه مسلم
   بلوغ المرامآية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا اؤتمن خان

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2749 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2749  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق ترک خیانت واجب ہے کیونکہ خیانت کرنا تو منافق کی علامت ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اس بنا پر قرض مریض کے ذمے ہے وہ بھی گویا ایک امانت ہے، اس کا اقرار نہ کرنا خیانت کے مترادف ہے جو نفاق کی نشانی ہے۔
اس کا ادا کرنا مریض کی ذمے داری ہے۔
وہ اس صورت میں ادا ہو گا جب اس کا اقرار کیا جائے۔
جب اقرار کر لیا تو اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر اقرار کا کیا فائدہ، لہذا ادائے امانت اور ترک خیانت میں وارث اور غیر وارث کی تفریق ایجاد بندہ اور خود ساختہ ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مریض کا قرض کے متعلق اقرار صحیح ہے اور امانت کی ادائیگی، خواہ وارث کے لیے ہو یا غیر وارث کے لیے دونوں صورتوں میں اس کا اقرار معتبر ہے۔
جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ انکار استحسان اور قیاس کی بنیاد پر ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2749   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 55  
´منافق کی علامات`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ . زَادَ مُسْلِمٌ: «وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ» . ثُمَّ اتَّفَقَا: «إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤتمن خَان» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ امام مسلم نے اتنا لفظ زیادہ روایت کیا ہے کہ اگرچہ وہ روزہ رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے کو مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہو، اس کے بعد بخاری و مسلم دونوں کے متفقہ الفاظ یہ ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف کرے اور جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری و مسلم) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 55]
تخریج:
[صحيح بخاري 33]،
[صحيح مسلم 211]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث (اور دیگر دلائل) سے صاف ظاہر ہے کہ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیانت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
➋ اسلام کا دعویٰ کرنے والا منافق بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ اس کے منافقانہ قول و فعل سے ثابت ہو جاتا ہے۔
➌ ایمان کے بہت سے درجے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 55   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 33  
´نفاق کی قسمیں`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 33]
فہم الحديث:
یاد رہے کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں۔
ایک اعتقادی نفاق اور دوسرا عملی نفاق۔
اعتقادی نفاق یہ ہے کہ کوئی دل میں کفر چھپائے اور اسلام کو ظاہر کرے، ایسا منافق ابدی جہنمی ہے بلکہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہو گا۔ [النساء:45]
عملی نفاق یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام تو دل سے قبول کر چکا ہو مگر عملی طور پر اس میں منافقین کی علامات پائی جاتی ہوں۔
ان احادیث میں اسی قسم کے منافق کی علامات کا ذکر ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 38   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 33  
´نفاق کی نشانیاں `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 33]
تشریح:
ایک روایت میں چار نشانیاں مذکور ہیں، چوتھی یہ کہ اقرار کر کے دغا کرنا، ایک روایت میں پانچویں نشانی یہ بتلائی گئی ہے کہ تکرار میں گالی گلوچ بکنا، الغرض یہ جملہ نشانیاں نفاق سے تعلق رکھتی ہیں جس میں یہ سب جمع ہو جائیں اس کا ایمان یقیناً محل نظر ہے مگر احتیاطاً اس کو عملی نفاق قرار دیا گیا ہے جو کفر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اعتقادی منافقین کی مذمت ہے جن کے لیے کہا گیا «ان المنافقين فى الدرك الاسفل من النار» یعنی منافقین دوزخ کے سب سے نیچے طبقے میں داخل ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 33   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6095  
6095. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب کلام کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورشی کرے اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو (اس میں) خیانت کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6095]
حدیث حاشیہ:
یہ عملی منافق ہے پھر بھی معاملہ خطرناک ہے برے خصائل سے ہر مسلمان کو پرہیز لازم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6095   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1282  
منافق کی علامات
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا اؤتمن خان ‏‏‏‏ متفق عليه ولهما من حديث عبد الله بن عمرو: ‏‏‏‏وإذا خاصم فجر .»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی نشانیاں تین ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کو امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے۔ بخاري و مسلم۔
اور ان دونوں کے لئے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے اور جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1282]
تخريج:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بخاری [33]، مسلم الایمان [59] وغيرهما
عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث بخاری [34]، مسلم الایمان [58] وغیرھا
صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت اس طرح ہے:
«آية المنافق ثلاث وإن صام وصلى وزعم انه مسلم»
منافق کی نشانیاں تین ہیں خواہ وہ روزے رکھے نماز پڑھے اور گمان رکھے کہ وہ مسلم ہے۔ [صحيح مسلم 213]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ صحیح بخاری میں اس طرح ہیں:
«اربع من كن فيه كان منافقا او كانت فيه خصلة من اربعة كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر»
چار چیزیں ہیں جس شخص میں وہ ہوں خالص منافق ہوتا ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں سے کوئی ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے جب اسے امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب عہد کرے تو اسے توڑ ڈالے اور جب جھگڑے تو بدزبانی کرے۔ [صحيح بخاري 2459، صحيح مسلم 210]
مفردات:
«مُنَافِقٌ» «نَافَقاءُ» سے مشتق ہے جو جنگلی چوہے (یربوع) کے بل کا ایک منہ ہوتا ہے اور وہ اسے اس طرح بناتا ہے کہ اس جگہ مٹی کی صرف اتنی تہہ رہنے دیتا ہے کہ سر مارے تو کھل جائے۔ اس منہ کو وہ چھپا کر رکھتا ہے۔ دوسرا منہ ظاہر کر دیتا ہے۔ منافق بھی چونکہ اپنا کفر چھپاتا اور ایمان ظاہر کرتا ہے اس لئے اس کا یہ نام رکھا گیا۔ [توضيح]
«آيَةٌ» اصل میں «اَيَيةٌ» تھا یاء متحرک اور اس کا ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء کو الف سے بدل دیا۔
«اُوْتُمِنَ» باب افتعال سے ماضی مجمول ہے۔ «اِئْتَمَنَهُ» اس نے اس کو امین سمجھا۔

فوائد:
➊ نفاق کا اصل یہ ہے کہ منافقت کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کو ظاہر کرتا ہے دل میں کفر کے باوجود ایمان کا دعوی کرتا ہے۔
«وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ»
اور اللہ تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔ [المنافقون: 1]
معلوم ہوا کہ نفاق کی اصل بنیاد جھوٹ ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
«إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ» [16-النحل:105 ]
جھوٹ صرف وہ لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ اصل جھوٹے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایمان کی ضد ہے۔
➌ ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما دونوں کی روایت کو جمع کریں تو منافق کی پانچ علامتیں بنتی ہیں۔
① بات کرے تو جھوٹ بولے۔
② وعدے کرے تو اس کا خلاف کرے۔
③ عہد کرے تو توڑ ڈالے۔
④ امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے۔
⑤ جھگڑے تو بد زبانی کرے۔
اگر غور کریں تو جھگڑتے وقت بدزبانی کرنا پہلی علامت یعنی بات کرے تو جھوٹ بولے میں شامل ہے اور اس کی ہی ایک خاص صورت ہے کیونکہ عموماً جھوٹ باندھنے کے بغیر بد زبانی مشکل ہے۔ عہد کرے تو توڑ ڈالے دوسری علامت یعنی وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے میں شامل ہے۔ اگرچہ عہد وعده کی بہ نسبت زیادہ پختہ ہوتا ہے اور بعض اوقات اس میں قسم بھی ہوتی ہے مگر بنیادی طور پر دونوں ملتے جلتے ہیں۔
اب اصل علامتیں تین ہی رہ گئی جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ ان تینوں علامتوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اس کی دیانت ہر طرح سے ختم ہو گئی ہے۔ کیونکہ دیانت تین طرح کی ہوتی ہے۔ قول میں دیانت فعل میں دیانت اور نیت میں دیانت۔
جب بات کرے تو جھوٹ بولے:
یہ زبان کی بددیانتی ہے لڑتے وقت بد زبانی بھی زبان کی بد دیانتی ہے۔
جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے۔
یہ نیت کی بد دیانتی کا اور جھوٹی نیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ آدمی گناہ گار اس وقت ہے جب وعده یا عہد کرتے وقت اس کی نیت ہی وفا کی نہ ہو یا بعد میں وفا کی نیت پر قائم نہ رہے۔ اگر نیت وعدہ وفا کرنے کی ہے مگر حالات کے ہاتھوں بے اختیار ہونے کی وجہ سے وعدہ وفا نہ کر سکا تو اس پر مواخذہ نہیں۔ «لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا» [2-البقرة:286]
اللہ تعالیٰ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق۔
جب اسے امین سمجھا جائے تو خیانت کرے۔
یہ فعل کی بد دیانتی اور عملی جھوٹ ہے۔ گو اس کے ساتھ زبان اور نیت کی بد دیانتی بھی شامل ہو جاتی ہے۔
④ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ علامتیں تو بعض اوقات مسلمان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ تو کیا اسے منافق قرار دیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب کئی طریقے سے دیا گیا ہے۔
پہلا طریقہ یہ ہے کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اعتقادی نفاق یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا ایمان ہی نہیں صرف زبانی کلمہ پڑھا ہے۔ لوگ اسے مسلمان سمجھ رہے ہیں حالانکہ وہ دل سے مسلمان ہی نہیں۔ یہ نفاق اکبر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی نفاق والوں کو کافر قرار دیا گیا اور انہیں آگ کے درک اسفل میں ہونے کی وعید سنائی گئی۔ اب بھی کئی کمیونسٹ، سیکولر، ڈیمو کریٹ دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتے صرف مسلمان معاشرے میں اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔
دوسرا عملی نفاق کہ انسان ظاہر یہ کرے کہ وہ اچھے عمل کا مالک ہے مگر حقیقت میں اچھے عمل والا نہ ہو۔ اس نفاق کی بنیادی چیزیں اس حدیث میں ذکر کی گئی ہیں کہ جب ہی تمام جمع ہو جائیں تو عمل سرے سے ہی فاسد ہو جاتا ہے یعنی بات کرتے وقت ظاہر ہ کر رہا ہے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے حالانکہ اس کا باطن اس کے خلاف ہے اور وہ خلاف واقع بات کر رہا ہے۔
ظاہر اس کا یہ ہے کہ لوگ اسے امین سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں وہ امین نہیں وعدہ کرتے ہوئے اسے پورا کرنے کا تاثر دے رہا ہے مگر نیت پورا کرنے کی نہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں عملی نفاق کی علامات ذکر کی گئی ہیں اور اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ فرمایا جس میں ایک علامت ہو گی اس میں نفاق کی ایک علامت ہو گی اور سب ہوں گی تو خالص منافق ہو گا۔ اعتقادی نفاق والے میں یہ درجہ بندی نہیں ہوتی وہ تو اللہ کے ہاں سرے سے ہی کافر ہے۔
⑤ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ایک آدھ دفعہ ان گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھے تو آدمی منافق ہو جاتا ہے کیونکہ مومن سے بھی گناہ سرزد ہو سکتے ہیں مقصد یہ ہے کہ یہ گناہ اس کی عادت بن جائیں روز مرہ کا وطیرہ ہی یہ ہو تو وہ منافق ہے۔ جب یہ علامتیں پوری جمع ہو جائیں تو ممکن ہی نہیں کہ اس کا اللہ اور اس کے رسول پر دل سے ایمان ہو۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے: اس کی عادت ہر بات میں جھوٹ کی ہو جائے کوئی وعدہ پورا نہ کرے کسی امانت میں امین نہ رہے تو صرف عملی ہی نہیں اعتقادی منافق بھی ہو گا کیونکہ بات کرنے اور وعدہ کرنے میں ایمان کا اقرار بھی شامل ہے اس میں کبھی جھوٹ بولے تو یہ صرف عملی منافق کیسے رہا۔ جھوٹ تو اہل ایمان کا شیوہ ہی نہیں سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے
«إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ» [16-النحل:105 ]
جھوٹ صرف وہ لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ اصل جھوٹے ہیں۔
اور ہر بات پر عمل اور نیت میں جھوٹ ہی جھوٹ ہو تو ایمان کیسے باقی رہ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار» [البخاري 6094 ]
جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ حق سے ہٹ جانے کی طرف لے جاتا ہے اور حق سے ہٹ جانا آگ کی طرف لے جاتا ہے۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 150   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1282  
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (بخاری و مسلم) اور دونوں کے ہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب لڑتا ہے تو گالی بکتا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1282»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث:33، ومسلم، الإيمان، باب خصال المنافق، حديث:59، وحديث عبدالله بن عمر: أخرجه البخاري، الإيمان، حديث:34، ومسلم، الإيمان، حديث:58.»
تشریح:
اس حدیث میں منافق کی چار علامات بیان کی گئی ہیں۔
اور صحیح مسلم میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے: اگرچہ وہ نماز بھی پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو‘ نیز یہ دعویٰ بھی کرتا ہو کہ میں مسلمان ہوں۔
(صحیح مسلم‘ الإیمان‘ باب خصال المنافق‘ حدیث:۱۱۰-۵۹) امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اکثر محققین علماء کی رائے یہی ہے کہ یہ کام اعتقادی منافقوں کے ہیں اور جب ایک سچا مومن اپنے اندر یہ صفات پیدا کرے گا تو منافق جیسا بن جائے گا اور اس پر منافق کا لفظ مجازی طور پر بولا جائے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1282   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:33  
33. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کہے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:33]
حدیث حاشیہ:

شرک، ظلم کا فرد اعلیٰ ہے اور نفاق، کفرکا فرد اعلیٰ ہے اس میں کفر باللہ کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکا دینا بھی شامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عام کفار کے مقابلے میں اس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ بلا شبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔
(النساء: 4/145)
اسی مناسبت کی بنا پر کفر سے متعلقہ ابواب کے اختتام پر اسے ذکر کیا گیا ہے۔
پھر نفاق کی دوقسمیں ہیں۔
ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا ہوتا ہے جو کفر کی بدترین قسم ہے جس کی نشاندہی صرف وحی سے ممکن ہے۔
دوسرا عملی نفاق ہے جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں واضح رہے کہ نفاق میں بھی کفر اور ظلم کی طرح مراتب ہیں بعض ادنیٰ ہیں اور بعض اعلیٰ، اعلیٰ مرتبہ تو نفاق اعتقادی کا ہے جس کا کفر ہونا محتاج بیان نہیں باقی مراتب عملی مراتب نفاق کے ہیں اور ان میں درجات کا تفاوت ہے جب ایمان کے اضداد میں یہ مراتب قائم ہیں تو ایمان میں بھی ضرور ہونے چاہئیں لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد واضح ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور معاصی ایمان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
اس سے بڑھ کر اور نقصان کیا ہو سکتا ہے کہ احادیث میں بیان کردہ افعال قبیحہ کے ارتکاب سے انسان زمرہ منافقین میں آجاتا ہے۔

نفاق کے معنی ظاہر و باطن کے اختلاف کے ہیں۔
یہ لفظ دراصل نافقاء سے لیا گیا ہے جو چوہے کی طرح ایک جانور کے بل کے پوشیدہ دروازے کا نام ہے جو بظاہر ہموار زمین کی طرح نظر آتاہے منافق بھی بظاہرمسلمان نظرآتا ہے مگراندورنی طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا محض دھوکا دینے کے لیے یہ روپ اختیار کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ﴾ اور جب وہ تمھارےپاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لیے آئے تھےاور اس کفر کے ساتھ ہی واپس ہو گئے۔
اور جو کچھ یہ چھپا رہے ہیں، اسے اللہ خوب جانتا ہے۔
(المائدة: 61/5 وشرح الکرماني: 147/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف نہیں ہے کہ ان خصائل کے اختیار کرنے سے ایک مومن انسان منافق بن جاتا ہے بلکہ ان کا مرتکب اس انسان کے اعتبار سے منافق ہے جس کے ساتھ نقض عہد کیا ہے۔
جس سے وعدہ خلافی کی ہے۔
جس کی امانت میں خیانت کی ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اصطلاح نفاق کو بیان نہیں فرما رہے بلکہ وہ ایمان میں کمی بیشی کے اثبات کے لیے کفروظلم میں کمی بیشی کا اثبات کر چکے ہیں اور اب نفاق میں اس کمی بیشی کا اثبات چاہتے ہیں تاکہ نفاق کے درجات کے اثبات سے ایمان میں بھی درجات کا اثبات کیا جائے نیز ان چیزوں کو نفاق کی علت نہیں کہا گیا کہ جس کی موجودگی میں معلول کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے بلکہ یہاں انھیں صرف علامت قراردیا گیا ہے اور ضروری نہیں کہ جہاں علامت موجود ہو وہاں اصل شئے بھی پائی جائے جیسے نبض کی تیزی بخار کی علامت ہے مگر کبھی قوت نفس کی بنا پر بھی نبض تیز ہو جاتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں نفاق کی تین علامتیں بیان ہوئی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق کی چار علامتیں ہیں ان چار میں دو علامتیں تو پہلی روایت کی ہیں اور دو علامتیں مزید ہیں۔
اس طرح کل پانچ علامتیں ہو جاتی ہیں۔

دروغ گوئی 2۔
خیانت 3۔
وعدہ خلافی 4۔
عہد شکنی 5۔
فجور۔
اگر غور کیا جائےتو ان پانچوں کو تین ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ وعدہ خلافی اور عہد شکنی میں مصداق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
اسی طرح فجوربھی دروغ گوئی کے تحت آسکتا ہے۔
ایسی صورت میں تین ہی خصلتیں باقی رہ جاتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کےاسلوب بیان سے معلوم ہو رہا ہے کہ علامات نفاق کا انحصار تین ہی میں ہے۔
کذب بیانی سے فساد قول، خیانت سے فساد عمل اور وعدہ خلافی سے فساد نیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
فساد نیت پر استدلال اس طرح ہے کہ وعدہ خلافی وہی معیوب ہے جس میں وعدہ کرتے وقت یہ نیت کرلی گئی ہو کہ اسے پورا نہیں کرنا ہے اور اگر پورا کرنے کی نیت ہو اور کوشش کے باوجود اس کا ایفا نہ ہو سکے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔
(فتح الباري: 122/1)

روایت کے آخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اعمش سے بیان کرنے میں شعبہ نے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی متابعت کی ہے۔
اس متابعت کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قبیصہ عن سفیان کے طریق کو امام یحییٰ بن معین نے ضعیف قراردیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب اس کی متابعت موجود ہے تو اس طریق کو ضعیف قراردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے قبیصہ کے طریق کے علاوہ وکیع (حدَّثنا)
سفیان کا طریق بیان کیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 210(58)
پھر اعمش سے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ شعبہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے جسے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المظالم میں ذکر کیا ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر2458)
۔
لہٰذا اس روایت کے قابل حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
(فتح الباري: 123/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 33   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6095  
6095. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب کلام کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورشی کرے اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو (اس میں) خیانت کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6095]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں منافق کی چوتھی علامت بھی بیان ہوئی ہے کہ جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔
(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 34) (2)
اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ مذکورہ صفات جس شخص میں پائی جائیں اور وہ ان کا عادی ہو جائے اس کے منافق ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا، لیکن یہ عملی منافق ہے کیونکہ اعتقادی منافق کی شناخت ہم نہیں کر سکتے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ منافق ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھے۔
بہرحال اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ ایک مسلمان آدمی اپنے قول و عمل میں جھوٹ کو اختیار نہیں کرتا کیونکہ بات بات پر جھوٹ بولنا یہ منافق کی علامت ہے، لہذا اس عادت سے بچنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6095