ہم سے یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔ اس کی روایت عبداللہ بن جعفر مخرمی اور عبدالواحد بن ابی عون نے سعد بن ابراہیم سے کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/حدیث: 2697]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2697
حدیث حاشیہ: عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم ؒنے اور عبدالواحد کی روایت کو دار قطنی ؒنے وصل کیا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو صلح برخلاف قواعد شرع ہو وہ لغو اور باطل ہے اور جب معاہدہ صلح باطل ٹھہرا تو جو معاوضہ کسی فریق نے لیا وہ واجب الرد ہوگا۔ یہ حدیث شریعت کی اصل الاصول ہے۔ اس سے ان تمام بدعات کا جو لوگوں نے دین میں نکال رکھی ہیں پورا رد ہوجاتا ہے۔ جیسے تیجہ، فاتحہ، چہلم، شب برات کاحلوہ، محرم کا کھچڑا، تعزیہ شدہ مولود، عرس، قبروں پر غلاف و پھول ڈالنا، ان پر میلے کرنا وغیرہ وغیرہ، یہ جملہ امور اس لیے بدعت سیسہ ہیں کہ زمانہ رسالت اور زمانہ صحابہ و تابعین میں ان کا کوئی وجود نہیں ملتا، جیسا کہ کتب تاریخ و سیر میں موجود ہے۔ مگر کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی جگہ ان بدعات سیہ کا ثبوت نہیں ملے گا۔ اگر سارے اہل بدعت بھی مل کر زور لگائیں تو ناکام رہیں گے۔ بہر حال بدعت سے پرہیز کرنا اور سنت نبوی ﷺ کو معمول بنانا بے حد ضروری ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2697
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2697
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس شخص نے دین اسلام میں کسی ایسی رسم کو رواج دیا جس کی کوئی اصل نہیں ہے تو اس رسم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔ ایسی رسم کو دیوار سے مار دیا جائے۔ (صحیح مسلم، الأقضیة، حدیث: 4492(1718) ، و سنن الدارقطني: 160/4)(2) یہ حدیث شریعت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ اس سے تمام بدعات کا رد ہوتا ہے جو لوگوں نے دین میں پیدا کر رکھی ہیں جیسا کہ تیجا، ساتواں، قل خوانی، چہلم، سالگرہ، تعزیہ، عرس اور میلے وغیرہ۔ (3) واضح رہے کہ عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم ؒ نے اور عبدالواحد کی روایت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري: 372/5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو صلح خلاف شریعت ہو وہ لغو اور باطل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2697
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 140
´بدعت کا رد` «. . . عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رد» . . .» ”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے دین اسلام میں کوئی نئی بات نکالی جو دین سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 140]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 2697]، [صحيح مسلم 4493]
فقہ الحدیث ➊ دین میں ہر وہ نئی بات جو قرآن، حدیث، اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت نہیں بدعت کہلاتی ہے اور گمراہی ہے۔ ➋ ایک طویل روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مسجد میں حلقوں کی صورت میں کنکریوں پر سو دفعہ «الله أكبر»، سو دفعہ «لا إلٰه إلا الله» اور سو دفعہ «سبحان الله» پڑھ رہے تھے تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حرکت سے منع کر دیا۔ دیکھئے: [سنن الدارمي ج1 ص286، 287 ح210 وسندہ صحیح] ↰ اس روایت کو سرفراز خان صفدر دیوبندی نے صحيح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [راه سنت ص 123] ➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: «من أحدث فى ديننا ما ليس منه فهو رد» ”جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔“[جزء من حديث لوين: 69 وسنده صحيح، شرح السنة للبغوي: 103، وسنده حسن]
تنبیہ: حدیثِ «لُوَيْن» کا حوالہ المکتبة الشاملة سے لیا گیا ہے۔ نیز دیکھئے: [جزء فيه من حديث لوين/مطبوع ح71 وسنده صحيح] ➍ جو شخص کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور ہر قسم کی بدعات سے دور رہتا ہے تو یہ شخص صراط مستقیم پر گامزن اور کامیاب ہے۔ ➎ مشہور تابعی امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ہم سے پہلے گزرنے والے علماء فرماتے تھے کہ سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے۔“[سنن الدارمي: 97 و سنده صحيح] ➏ تابعی عبداللہ بن فیروز الدیلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”مجھے پتا چلا ہے کہ دین کے خاتمے کی ابتدا ترک سنت سے ہو گی۔“[سنن الدارمي: 98 وسنده صحيح] ↰ یاد رہے کہ حجت ہونے کے لحاظ سے حدیث اور سنت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جیسا کہ سلف صالحین اور اصول حدیث سے ثابت ہے لہٰذا جو شخص صحیح حدیث کا تارک ہے وہ سنت کا بھی تارک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تارک سنت پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2154، وسنده حسن] ➐ جلیل القدر تابعی امام حسان بن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ”جو قوم بھی اپنے دین میں کوئی بدعت نکالتی ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان سے سنتیں اٹھا لیتا ہے، پھر وہ سنتیں قیامت تک ان کے پاس واپس نہیں آتیں۔“[سنن الدارمي: 99 وسندہ صحیح] ➑ مشہور جلیل القدر تابعی امام اور فقیہ ابوقلابہ عبداللہ بن زید الجرمی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”بدعتی لوگ گمراہ ہیں اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔“[سنن الدارمي: 101، وسنده صحيح] ➒ یاد رہے کہ شریعت میں بدعات کا تعلق ان ایجادات سے ہے جن کا بغیر ادلہ شرعیہ کے دین میں اضافہ کیا گیا ہے، رہی دنیاوی ایجادات تو ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حدیث «أنتم أعلم بأمر دنياكم» تم دنیا کے معاملات زیادہ جانتے ہو۔ [صحيح مسلم: 2363، دارالسلام: 6128] کی رُو سے وہ تمام دنیاوی ایجادات جائز ہیں جن کے ذریعے سے شریعت پر کوئی زد نہیں آتی۔ ➓ حمص شام کے تبع تابعین میں سے ثقہ امام ابوزرعہ یحییٰ بن ابی عمر السیبانی رحمہ اللہ (متوفی148ھ) فرماتے ہیں: ”یہ کہا جاتا تھا کہ بدعتی کی توبہ اللہ قبول نہیں کرتا اور (دوسری بات یہ ہے کہ) بدعتی ایک بدعت چھوڑ کر اس سے زیادہ بری بدعت میں داخل ہو جاتا ہے۔“[كتاب البدع والنهي عنها: 144، وسنده حسن] ◄ معلوم ہوا کہ اگر کوئی بدعتی اپنی بدعت سے لوگوں کے سامنے توبہ کر لے تو پھر کافی عرصے تک اسے زیر نگرانی رکھنا چاہئیے، کیونکہ عام اہل بدعت کا یہی دستور ہے کہ وہ ایک بدعت سے نکل کر دوسری خطرناک بدعت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4606
´سنت کی پیروی ضروری ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4606]
فوائد ومسائل: اس حدیث میں دین کے لیے لفظ (أمرنا) استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ ہدایت کا سرچشمہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہی ہیں، اس لیے آپ کے ارشاد کے بغیر کوئی کام بھی اللہ کے ہاں عبادت یا تقریب کا درجہ نہیں پاسکتا۔
2۔ (فهو رد) وہ مردود ہے کے دو مفہوم میں، یعنی وہ کام باطل اور مردود ہے، نیز وہ آدمی جو اس کا مرتکب ہووہ بھی مردود اور قابل نفرین ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4606
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث14
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ قابل رد ہے ۱؎۔“[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 14]
اردو حاشہ: (1)(فِيْ أَمْرِنَا) سے مراد، دینی اور شرعی معاملات ہیں یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ”دین“ کیا ہے۔ دین کے جو معاملات عبادات یا عقائد سے تعلق رکھتے ہیں ان میں اپنی رائے سے کمی بیشی کرنا ”بدعت“ کہلاتا ہے۔ اسی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بدعت گمراہی ہے۔“(صحيح مسلم، الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، حديث: 867) دنیوی معاملات، مثلا لباس کے مختلف انداز، کھانا پکانے کے علاقائی طریقے یا کاشت کاری کے جدید آلات کا استعمال ان کا شرعی ”بدعت“ سے تعلق نہیں۔ لیکن ان میں وہ کام بہرحال منع ہوں گے جو شریعت کے بیان کردہ عام اصولوں کے خلاف ہوں، مثلا ایسا لباس جو پردہ کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرے، یا غیر مسلموں کا لباس سمجھا جاتا ہو، وغیرہ (2)(فَهُوَ رَدٌّ) ”وہ ناقابل قبول ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ عمل قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی تردید اور اس سے منع کرنا چاہیے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گا اور اس پر ثواب کے بجائے گناہ ہو گا۔
(3) وہ کام، جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے اجتناب فرمایا ہو۔ درآں حالیکہ آپ اس کی خواہش رکھتے ہوں، وہ بنیادی طور پر جائز ہوتا ہے، جب وہ رکاوٹ دور ہو جائے تو اسے انجام دینا بدعت میں شامل نہیں ہو گا۔ مثلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورے ماہ رمضان میں نماز تراویح پڑھانے سے اجتناب، تاکہ وہ فرض نہ ہو جائے، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن مجید کو ایک نسخہ کی صورت میں جمع نہ کرنا، کیونکہ ہر وقت نئی آیات نازل ہونے یا کسی پہلی آیت کے منسوخ ہونے کا امکان موجود تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو یہ امکان باقی نہ رہا، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر لیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تروایح کا باجماعت اہتمام کرنے کا حکم دیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 14
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4492
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے دین میں ایسی بات نکالی، جس کی اس میں دلیل نہیں ہے، وہ مردود ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4492]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حافظ ابن حجر نے لکھا ہے، یہ حدیث اسلام کے اصول اور قواعد میں شمار ہوتی ہے، کیونکہ اس کا معنی یہ ہے، جو شخص دین میں ایسے کام کو گھڑے جس کی اصول دین میں کوئی دلیل نہ ہو، وہ قابل اعتبار نہیں ہے اور علامہ عینی لکھتے ہیں، جو اگر کتاب و سنت میں نہ پایا جائے، وہ دین میں گھڑ لینا بدعت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4492
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4493
سعد بن ابراہیم کہتے ہیں، میں نے قاسم بن محمد سے اس انسان کے بارے میں پوچھا، جس کے تین مکان ہیں تو اس نے ہر مکان میں سے تہائی حصہ کے بارے میں وصیت کی، انہوں نے جواب دیا، اس کی وصیت کو ایک مکان میں جمع کر دیا جائے گا، پھر مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے، وہ مردود ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4493]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس دور میں گھر، ایک قسم یا ایک انداز اور شکل کے ہوتے تھے، اس لیے جب ایک تہائی کی وصیت کی اجازت دی گئی ہے تو وہ ایک گھر کے بارے میں ہونی چاہیے تھی تاکہ وارثوں کو ہر گھر سے ایک تہائی دینے کی زحمت اور پریشانی نہ اٹھانی پڑے، کیونکہ ایک جیسے گھروں میں ایک کا دینا، لینے یا دینے والے میں سے کسی کے لیے بھی پریشانی کا باعث نہیں ہے اور دین میں جرح و تنگی نہیں ہے، اس لیے انہوں نے حدیث سنائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھنا چاہیے، اس حدیث سے مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت ہو گئی کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، حالانکہ اس کا سبب موجود تھا اور روکاوٹ بھی نہ تھی، اس کو دین قرار دینا، بدعت ہے، اس لیے آج کل کی تمام بدعات، جو دین کے نام سے کی جا رہی ہیں، ان کی دین میں کوئی سند نہیں ہے، کیونکہ، ان کے اسباب موجود تھے اور موانعات موجود نہ تھے، اس کے باوجود آپ نے نہیں کیے، آپ کے دور میں لوگ مرتے تھے اور ان کو اہدائے ثواب کی ضرورت تھی، لیکن اس کے باوجود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتحہ، چہلم اور عرس وغیرہ نہیں کیے صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھا، نہ اذان میں انگوٹھے چومے اور نہ صلاۃ و سلام کے لیے کھڑے ہوئے، نہ محفل میلاد کا انعقاد کیا اور نہ یہ کام خیر القرون میں کیے گئے اور نہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے وعظ کو دین بنایا، یعنی اپنی اور ساتھیوں کی سہولت کے لیے یہ دن مقرر کیا، لیکن کسی کو اس کی دعوت نہیں دی کہ تم بھی یہ کام جمعرات ہی کو کیا کرے، دین تو تبھی بنتا ہے، اگر اس کو شخصی و انفرادی کی بجائے اجتماعی اور عمومی بنایا جاتا اور سب کو اس کی دعوت دی جاتی اور اس تعیین کو کار ثواب قرار دیا جاتا، اس لیے سوئم، گیارہویں، بارہویں اور چہلم وغیرہ کی دعوت دینا اور اس کو عمومی اور اجتماعی رنگ دینا بدعت ہے، اگر اس تعیین کو لازم اور ضروری نہیں سمجھا جاتا، تو پھر اس کی پابندی کیوں کی جاتی ہے اور اس کی دعوت کیوں دی جاتی ہے اور اس کو ایک مخصوص شکل کیوں دی گئی ہے۔