اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ نساء میں) «لا خير في كثير من نجواهم إلا من أمر بصدقة أو معروف أو إصلاح بين الناس ومن يفعل ذلك ابتغاء مرضاة الله فسوف نؤتيه أجرا عظيما»”ان کی اکثر کانا پھونسیوں میں خیر نہیں، سو ان (سرگوشیوں) کے جو صدقہ یا اچھی بات کی طرف لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے ہوں یا لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور جو شخص یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو جلدی ہم اسے اجر عظیم دیں گے۔“ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ امام خود اپنے اصحاب کے ساتھ مختلف مقامات پر جا کر لوگوں میں صلح کرائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/حدیث: Q2690]
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ(قباء کے) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہو گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لا سکے۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی، ابھی تک چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہدایت کے مطابق) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہو گیا ہے، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے (نماز کے درمیان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ پہنچے۔ لوگ باربار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے۔ مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب باربار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پیچھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آ گئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہو جائے گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے اشارہ بھی کر دیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ انہوں نے عرض کیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصُّلْحِ/حدیث: 2690]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2690
حدیث حاشیہ: یہ حدیث پیچھے بھی گزرچکی ہے۔ یہاں حضرت مجتہد مطلق امام بخاری ؒ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں آپ کے بمقام قباءبنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے جانے کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ صلح کو اتنی اہمیت ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی شخصیت بھی پیش قدمی کرسکتی ہے۔ بھلا رسول کریم ﷺ سے افضل، بہتر اور بڑا کون ہوگا۔ آپ خود اس پاک مقصد کے لیے قباءتشریف لے گئے (صلی اللہ علیه وسلم) یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں نادانی سے کچھ لغزش ہوجائے تو وہ بہرحال قابل معافی ہے۔ مگر امام کوچاہئے کہ غلطی کرنے والوں کو آئندہ کے لیے ہدایت کردے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2690
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2690
حدیث حاشیہ: (1) قبیلۂ بنو عمرو بن عوف مقام قباء میں آباد تھا۔ ان کا کسی وجہ سے آپس میں جھگڑا ہو گیا یہاں تک کہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے تک نوبت پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر مسجد نبوی میں ادا کی، پھر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے قباء تشریف لے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں صلح کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کے لیے بڑی سے بڑی شخصیت بھی پیش قدمی کر سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے۔ آپ خود اس عظیم مقصد کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2693) صلح کے بعد جب واپس تشریف لائے تو نماز عصر کھڑی ہو چکی تھی۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7190)(2) بعض فقہاء کا موقف ہے کہ امام اور قاضی کو فیصلہ کرنے کا اس وقت حق ہے جب اس کی عدالت میں مقدمہ دائر ہو۔ امام بخاری ؒ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم مقصد کے لیے مقدمہ دائر ہونا ضروری نہیں بلکہ امام اور قاضی خود وہاں جا کر فریقین کے درمیان صلح کرا دے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ازخود قبیلۂ بنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے قباء تشریف لے گئے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قبیلۂ بنو عمرو بن عوف کے درمیان جھگڑے کا سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ بہرحال یہ قبیلہ اوس خاندان کی شاخ تھا۔ (فتح الباري: 363/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2690