اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد «إذ يلقون أقلامهم أيهم يكفل مريم»”جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے (قرعہ اندازی کے لیے تاکہ) فیصلہ کر سکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا) کہ جب سب لوگوں نے (نہر اردن میں) اپنے اپنے قلم ڈالے، تو تمام قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گئے، لیکن زکریا علیہ السلام کا قلم اس بہاؤ میں اوپر آ گیا۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم علیہا السلام کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد «فساهم» کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا۔ «فكان من المدحضين»(میں «مدحضين» کے معنی ہیں) «من المسهومين» یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا، تو وہ سب (ایک ساتھ) آگے بڑھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: Q2686]
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ ہم سے شعبی نے بیان کیا، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے اور اس میں مبتلا ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی (پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں) قرعہ اندازی کی۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا (تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے) اب اوپر والے آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو (میرے اوپر آنے جانے سے) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2686]
مثل القائم على حدود الله والواقع فيها كمثل قوم استهموا على سفينة فأصاب بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها فكان الذين في أسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم فقالوا لو أنا خرقنا في نصيبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا فإن يتركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا
مثل المدهن في حدود الله والواقع فيها مثل قوم استهموا سفينة فصار بعضهم في أسفلها وصار بعضهم في أعلاها فكان الذي في أسفلها يمرون بالماء على الذين في أعلاها فتأذوا به فأخذ فأسا فجعل ينقر أسفل السفينة فأتوه فقالوا ما لك قال تأذيتم بي ولا بد لي من الماء
مثل القائم على حدود الله والمدهن فيها كمثل قوم استهموا على سفينة في البحر فأصاب بعضهم أعلاها وأصاب بعضهم أسفلها فكان الذين في أسفلها يصعدون فيستقون الماء فيصبون على الذين في أعلاها فقال الذين في أعلاها لا ندعكم تصعدون فتؤذوننا فقال الذين في أسفلها
مثل المداهن في أمر الله والقائم في حقوق الله كمثل قوم ركبوا سفينة فأصاب رجل منهم مكانا فقال يا هؤلاء طريقكم وممركم علي وإني ثاقب ثقبا ها هنا فأتوضأ منه وأستقي منه وأقضي فيه حاجتي قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فإن هم تركوه هلك وأهلكهم وإن أخذوا على
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2686
حدیث حاشیہ: اس سے قرعہ اندازی کا ثبوت ہوا۔ حضرت امام کا اس حدیث کو یہاں لانے کا یہی مقصد ہے اور اس سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید شدید بھی ظاہر ہوئی کہ برائی کو روکنا ضروری ہے ورنہ اس کی لپیٹ میں سب ہی آسکتے ہیں۔ طاقت ہو تو برائی کو ہاتھ سے روکا جائے ورنہ زبان سے روکنے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو دل میں اس سے سخت نفرت کی جائے اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے۔ الحمدللہ حکومت عربیہ سعودیہ میں دیکھا کہ محکمہ امربالمعروف والنهی عن المنکر سرکاری سطح پر قائم ہے اور ساری مملکت میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں، جو اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں اللہ پاک ہر جگہ کے مسلمانوں کو یہ توفیق بخشے کہ وہ اسی طرح اجتماعی طور پر بنی نوع انسان کی یہ اعلیٰ ترین خدمت انجام دیں اور انسانوں کی بھلائی و فلاح کو اپنی زندگی کا لازمہ بنالیں۔ آمین یا رب العالمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2686
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2686
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے کہ جو کشتی انہوں نے کرائے پر لی تھی یا ان سب کی ملکیت تھی اس کے متعلق سب برابر کے حصے دار تھے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے سے ان کے حصے کا تعین کیا گیا جس کے متعلق ان کے آپس میں اختلاف اور جھگڑے کا خطرہ تھا۔ اس طرح کے معاملات میں قرعہ اندازی جائز ہے جبکہ حقوق میں سب برابر ہوں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2686
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:946
946- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم کرنے والا اور ان کی خلاف ورزی کرنے والا ایسے افراد کی مانند ہیں جوایک کشتی میں حصے کر لیتے ہیں کچھ لوگ اوپر والے حصے میں چلے جاتے ہیں اور کچھ نیچے والے حصے میں چلے جاتے ہیں جو کم بہتر ہے۔ کشتی والوں کے گزرنے کی جگہ اور پانی کے حصول کی جگہ نیچے والا حصہ ہے۔ نیچے والے لوگ جب اپنی چگہ پر آتے ہیں، تو وہ کلہاڑا لیتے ہیں دوسرے لوگ اس سے پوچھتے ہیں: تم کیا کرنے لگے ہو؟ تو وہ کہتا ہے: میں اپنی مخصوص جگہ میں سوراخ کرنے لگا ہوں تاکہ میں پانی کے قریب ہوجاؤں اور میری گزر گاہ اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:946]
فائدہ: اس حدیث میں مثال دے کر سمجھایا گیا ہے کہ ایک کے گناہ کی وجہ سے پورا شہر اور پورا ملک تباہ ہو جاتا ہے، گنا ہگار کو اس کی حالت پر نہیں چھوڑنا چاہیے، بلکہ اس کی بھر پور مذمت کر نی چا ہیے، گناہ کو دیکھ کر خاموش رہنا گناہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 946
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2493
2493. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود پر قائم ہو اور جوان میں مبتلا ہوگیا ہو، ان لوگوں کی سی ہے جنھوں نے ایک کشتی کے بذریعہ قرعہ تقسیم کرلیا۔ بعض لوگوں کے حصے میں اوپر والا طبقہ آیا جبکہ کچھ لوگوں نے نچلا حصہ لے لیا۔ اب نچلے حصے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے۔ انھوں نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے ہی سوراخ کرلیں تواچھا ہوگا۔ اس طریقے سے ہم اوپر والوں کے لیے اذیت کاباعث نہیں ہوں گے۔ اندریں حالات اگر اوپر والے نیچے والون کو ان کے ارادے کے مطابق چھوڑ دیں تو سب ہلاک ہوجائیں گے اوراگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں گے اور دوسرے بھی محفوظ رہیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2493]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں جہاں کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے قرعہ اندازی کا ذکر کیاگیا۔ اسی سے مقصود باب ثابت ہوا ہے۔ یوں یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا کیوں ضروری ہے؟ اسی سوال پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ دنیا کی مثال ایک کشتی کی سی ہے۔ جس میں سوار ہونے والے افراد میں سے ایک فرد کی غلطی جو کشتی سے متعلق ہو سارے افراد ہی کو لے ڈوب سکتی ہے۔ قرآن مجید میں یہی مضمون اس طور پر بیان ہوا۔ ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾(الأنفال: 25) یعنی فتنہ سے بچنے کی کوشش کرو جو اگر وقوع میں آگیا تو وہ خاص ظالموں ہی پر نہیں پڑے گا بلکہ ان کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی پس جائیں گے۔ جیسے حدیث ہٰذا میں بطور مثال نیچے والوں کا ذکر کیاگیا کہ اگر اوپر والے نیچے والوں کو کشتی کے نیچے سورا کرنے سے نہیں روکیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نیچے والا حصہ پانی سے بھر جائے گا اور نیچے والوں کے ساتھ اوپر والے بھی ڈوبیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾(آل عمران: 105) یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت ایسی مقرر ہونی چاہئے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتی رہے اور برائیوں سے روکتی رہے۔ آیت ہٰذا کی بنا پر جملہ اہل اسلام پر فرض ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک جماعت خاص مقررکریں۔ الحمد للہ حکومت سعودیہ میں یہ محکمہ اسی نام سے قائم ہے اور پوری مملکت میں اس کی شاخیں ہیں جو یہ فرض انجام دے رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اجتماعی طور پر ہر جگہ مسلمان ایسے ادارے قائم کرکے عوام کی فلاح و بہبود کا کام انجام دیا کریں۔ خلاصہ یہ کہ تقسیم کے لیے قرعہ اندازی ایک بہترین طریقہ ہے جس میں شرکاءمیں سے کسی کو بھی انکار کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومطابقة الحديث للترجمة غير خفية وفيه وجوب الصبر على أذى الجار إذا خشي وقوع ما هو أشد ضررًا وأنه ليس لصاحب السفل أن يحدث على صاحب العلو ما يضرّ به وأنه إن أحدث عليه ضررًا لزمه إصلاحه، وأن لصاحب العلو منعه من الضرر وفيه جواز قسمة العقار المتفاوت بالقرعة. قال ابن بطال: والعلماء متفقون على القول بالقرعة إلا الكوفيين فإنهم قالوا لا معنى لها لأنها تشبه الأزلام التي نهى الله عنها (قسطلاني) حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور اس سے پڑوسی کی تکلیف پر صبر کرنا بطور وجوب ثابت ہوا۔ جب عدم صبر کی صورت میں اس سے بھی کسی بڑی مصیبت کے آنے کا خطرہ ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نیچے والے کے لیے جائز نہیں کہ اوپر والے کے لیے کوئی ضرر کا کام کرے۔ اگر وہ ایسا کربیٹھے تو اس کو اس کی درستگی واجب ہے اور اوپر والے کو حق ہے کہ وہ ایسے ضرر کے کام سے اس کو روکے اور سامان و اسباب متفرقہ کا قرعہ اندازی سے تقسیم کرنا بھی ثابت ہوا۔ ابن بطال نے کہا علماءکا قرعہ کے جواز پر اتفاق ہے سوائے اہل کوفہ کے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرعہ اندازی ان تیروں کے مشابہ ہی ہے جو کفار مکہ بطور فال نکالا کرتے تھے۔ اس لیے یہ جائز نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ازلام سے منع کیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اہل کوفہ کا یہ قیاس باطل ہے۔ ازلام اور قرعہ اندازی میں بہت فرق ہے اور جب قرعہ کا ثبوت صحیح حدیث سے موجود ہے تو اس کو ازلام سے تشبیہ دینا صحیح نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2493
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2493
2493. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود پر قائم ہو اور جوان میں مبتلا ہوگیا ہو، ان لوگوں کی سی ہے جنھوں نے ایک کشتی کے بذریعہ قرعہ تقسیم کرلیا۔ بعض لوگوں کے حصے میں اوپر والا طبقہ آیا جبکہ کچھ لوگوں نے نچلا حصہ لے لیا۔ اب نچلے حصے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے۔ انھوں نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے ہی سوراخ کرلیں تواچھا ہوگا۔ اس طریقے سے ہم اوپر والوں کے لیے اذیت کاباعث نہیں ہوں گے۔ اندریں حالات اگر اوپر والے نیچے والون کو ان کے ارادے کے مطابق چھوڑ دیں تو سب ہلاک ہوجائیں گے اوراگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں گے اور دوسرے بھی محفوظ رہیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2493]
حدیث حاشیہ: (1) اگر ایک مشترکہ چیز میں چند لوگ برابر حقوق رکھتے ہوں اور ان کے درمیان حقوق کی تقسیم میں فیصلہ مشکل یا ناممکن ہو تو قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر جنگ پر روانہ ہوتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے کہ کون سی زوجۂ محترمہ سفر میں آپ کی رفاقت اختیار کرے گی۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو قرعہ اندازی سے حصے متعین کرنے کے جواز میں پیش کیا ہے۔ بلاشبہ قرعہ اندازی حقوق تقسیم کرنے کا ایک دینی طریقہ ہے جبکہ کچھ لوگ اس کے مخالف ہیں۔ وہ پانسے کے ذریعے سے تقسیم کرنے پر اسے قیاس کرتے ہیں جس کی قرآن میں ممانعت ہے۔ قرعہ اندازی اور تیروں کے ذریعے سے قسمت آزمانی میں بہت فرق ہے کیونکہ قرعہ اندازی کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے، اس لیے اسے تیروں سے تشبیہ دینا صحیح نہیں۔ (3) واضح رہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنا اور گناہ سامنے ہوتا دیکھ کر ٹھنڈے پیٹوں (آرام اور خوشی سے) برداشت کر لینا جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں اور دونوں ہی تباہی و بربادی کا باعث ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2493