الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
10. بَابُ مَا قِيلَ فِي شَهَادَةِ الزُّورِ:
10. باب: جھوٹی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: Q2653
لِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ سورة الفرقان آية 72 وَكِتْمَانِ الشَّهَادَةِ لِقَوْلِهِ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 283 تَلْوُوا أَلْسِنَتَكُمْ بِالشَّهَادَةِ.
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الفرقان میں) فرمایا «والذين لا يشهدون الزور‏» بہشت کا بالاخانہ ان کو ملے گا جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ اسی طرح گواہی کو چھپانا بھی گناہ ہے۔ (اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ) «ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه والله بما تعملون عليم‏» گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جس شخص نے گواہی کو چھپایا تو اس کے دل میں کھوٹ ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (اور اللہ تعالیٰ کا فرمان سورۃ نساء میں کہ) «تلووا‏» اگر تم پیچ دار بناؤ گے اپنی زبانوں کو (جھوٹی) گواہی دے کر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: Q2653]
حدیث نمبر: 2653
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ وَهْبَ بْنَ جَرِيرٍ، وَعَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَبَائِرِ؟ قَالَ:" الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ". تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَأَبُو عَامِرٍ، وَبَهْزٌ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ شُعْبَةَ.
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا ہم نے وہب بن جریر اور عبدالملک بن ابراہیم سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے اور ن سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا۔ اس روایت کی متابعت غندر، ابوعامر، بہز اور عبدالصمد نے شعبہ سے کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2653]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريالشرك بالله قتل النفس عقوق الوالدين ألا أنبئكم بأكبر الكبائر قال قول الزور
   صحيح البخاريأكبر الكبائر الإشراك بالله قتل النفس عقوق الوالدين قول الزور
   صحيح البخاريالإشراك بالله عقوق الوالدين قتل النفس شهادة الزور
   صحيح مسلمالشرك بالله عقوق الوالدين قتل النفس قول الزور
   صحيح مسلمالشرك بالله قتل النفس عقوق الوالدين ألا أنبئكم بأكبر الكبائر قال قول الزور
   جامع الترمذيالشرك بالله عقوق الوالدين قتل النفس قول الزور
   جامع الترمذيالشرك بالله عقوق الوالدين قتل النفس قول الزور
   سنن النسائى الصغرىالشرك بالله عقوق الوالدين قتل النفس قول الزور
   سنن النسائى الصغرىالشرك بالله عقوق الوالدين قتل النفس قول الزور
   مشكوة المصابيح‏‏‏‏وفي رواية انس: «وشهادة الزور» بدل: «اليمين الغموس»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2653 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2653  
حدیث حاشیہ:
کبیرہ گناہ اور بھی بہت ہیں۔
یہاں روایت کے لانے سے حضرت امام کا مقصد جھوٹی گواہی کی مذمت کرنا ہے کہ یہ بھی کبیرہ گناہوں میں داخل ہے جس کی مذمت میں اور بھی بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔
بلکہ جھوٹ بولنے، جھوٹی گواہی دینے کو اکبرالکبائر میں شمار کیاگیا ہے۔
یعنی بہت ہی بڑا کبیرہ گناہ جھوٹی گواہی دینا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2653   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 51  
´ایک کبیرہ گناہ جھوٹی قسم ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ: «وَشَهَادَةُ الزُّورِ» بَدَلُ: «الْيَمِينُ الْغمُوس» . . .»
. . . اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں جھوٹی قسم کی بجائے جھوٹی گواہی دینا ہے . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 51]
تخریج:
[صحيح بخاري 6675]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث میں سابقہ حدیث مشکوۃ المصابیح [50] پر ایک کبیرہ گناہ جھوٹی قسم کے ذکر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
➋ ثقہ کی زیادہ، اگر ثقہ راویوں یا اوثق کے سراسر خلاف نہ ہو تو مقبول ہوتی ہے۔
➌ احادیث صحیحہ کے الفاظ میں راویوں کا اختلاف چنداں مضر نہیں ہوا، بلکہ تمام روایات کو اکھٹا کر کے تمام الفاظ کے مشترکہ مفہوم پر ایمان و عمل کی بیناد رکھی جاتی ہے۔
➍ عدم ذکر نفی کی حتمی دلیل نہیں ہوتا، بلکہ ذکر والی روایت کو تمام عدم ذکر والی روایتوں پر ہمیشہ ترجیح ہوتی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 51   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4015  
´کبائر (کبیرہ گناہوں) کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبائر یہ ہیں: اللہ کے ساتھ غیر کو شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) خون کرنا اور جھوٹ بولنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4015]
اردو حاشہ:
کبیرہ گناہوں کی تین قسمیں ہیں:
(1) اکبر الکبائر، مثلاً: شرک یا کسی قطعی شرعی امر کا انکار۔
(2) جن سے حقوق العباد ضائع ہوتے ہیں، مثلاً: قتل۔
(3) حقوق اللہ میں خرابی، مثلاً: زنا اور شراب نوشی وغیرہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4015   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1207  
´جھوٹ اور جھوٹی گواہی وغیرہ پر وارد وعید کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں ۱؎ سے متعلق فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا (کبائر میں سے ہیں ۲؎)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1207]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے ارتکاب پرقرآن کریم یا حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہو۔

2؎:
کبیرہ گناہ اوربھی بہت سارے ہیں یہاں موقع کی مناسبت سے چند ایک کا تذکرہ فرمایا گیا ہے،
یا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ چند مذکورہ گناہ کبیرہ گناہوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔
یہاں مؤلف کے اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خرید وفروخت میں بھی جھوٹ کی وہی قباحت ہے جو عام معاملات میں ہے،
مومن تاجر کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1207   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3018  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) کسی کو قتل کرنا، جھوٹ کہنا یا جھوٹ بولنا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3018]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حدیث مؤلف ارشاد باری:
  ﴿إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ﴾  (النساء: 31) کی تفسیر میں لائے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3018   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 260  
حضرت انس ؓ کبائر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹ بولنا (بڑا کبیرہ گناہ ہے)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:260]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
عُقُوْقٌ:
عق سے ماخوذ ہے،
جس کا معنی کاٹنا،
والدین کی اطاعت کے حق کو ختم کرنا۔
(2)
زُوْرٌ:
جھوٹ،
ناحق بات۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 260   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 261  
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرمایا (یا آپ سے بڑے گناہوں کے بارے میں سوال ہوا) تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا والدین کی نافرمانی کرنا، اور فرمایا کیا میں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی تمھیں خبر نہ دوں؟ فرمایا: جھوٹ بولنا (یا فرمایا جھوٹی گواہی دینا)۔ شعبہ کا قول ہے میرا ظن غالب یہ ہےکہ آپ ﷺ نے جھوٹی شہادت کہا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:261]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
موقع محل کی مناسبت سے آپ ﷺ نے یہاں شرک باللہ کی بجائے،
جھوٹی شہادت کو اکبر الکبائر قرار دیا ہے،
کیونکہ جھوٹی شہادت سے روکنا اور اس سے ڈرانا مقصو د تھا اور شرک بھی درحقیقت ایک جھوٹی شہادت اورجھوٹا بول ہے۔
اللہ تعالیٰ کے مقام ومرتبہ کو نظر انداز کرکے یہ بری حرکت کی جاتی ہے اور اس کی مخلوق کو اس کا شریک وپیہم قرار دیا جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 261   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6871  
6871. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی کی ناحق جان لینا والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا۔ یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6871]
حدیث حاشیہ:
ان میں شرک ایسا گناہ ہے کہ جو بغیر توبہ کے مرے گا وہ ہمیشہ کے لیے دوزخی ہوگیا۔
جنت اس کے لیے قطعاً حرام ہے۔
بت پرستی اور قبر پرستی ہر دو کی یہی سزا ہے۔
دوسرے گناہ ایسے ہیں جن کا مرتکب اللہ کی مشیت پر ہے وہ چاہے عذاب کرے چاہے بخش دے۔
آیت شریفہ ﴿إنَّ اﷲَ لَایَغفِرُ أن یُشركَ بهِ الخ﴾ میں یہ مضمون مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6871   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5977  
5977. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبائر کا ذکر کیا یا آپ سے کبائر کے متعلق پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ فرمایا: جھوٹی بات کرنا یا جھوٹی گواہی دینا۔ سعبہ نے کہا: میرا غالب گمان ہے کہ آپ ﷺ نے جھوٹی گواہی دینا فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5977]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات واشخاص کے پیش نظر مختلف گناہوں کو اکبر الکبائر قرار دیا ہے۔
مزکورہ احادیث میں والدین کی نافرمانی کو بھی بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔
چونکہ والدین ظاہری صورت کے اعتبار سے بیٹے کے موجد ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو بھی بیان کیا ہے اور ان کی حق تلفی کو اپنی حق تلفی کی طرح بڑا گناہ کہا ہے، چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا:
والدین کا نافرمان، شراب کا رسیا اور دیوث (بےغیرت)
۔
آپ نے دیوث کی تعریف فرمائی کہ جو ٹھنڈے پیٹ اپنے گھر میں بے حیائی اور بے غیرتی برداشت کرے۔
(مسند أحمد: 128/2) (2)
والدہ نے بچے کی پرورش میں زیادہ تکلیف اور مشقت برداشت کی ہوتی ہے اور وہ نرم دل ہونے کی وجہ سے اپنی اولاد پر زور نہیں دے سکتی، اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کی نافرمانی سے منع فرمایا۔
ہمارے ہاں کچھ لوگ نقد رقم دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ والدین کا حق ادا ہو گیا، یہ درست نہیں۔
اگر ان سے دور رہتا ہے تو فون پر ان سے رابطہ رکھنا، ان کی خیریت دریافت کرتے رہنا، ان سے ملاقات کے لیے جانا، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا، اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لینا، انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرنا یہ والدین کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا جسمانی ضروریات سے زیادہ اہم ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے اس کے والدین کو جنت یا جہنم قرار دیا ہے۔
(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3662)
نیز فرمایا:
باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے چاہے اس دروازے کو ضائع کر لو چاہے اسے محفوظ رکھ لو۔
(جامع الترمذي، البروالصلة، حدیث: 1900)
اسے ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانی کرو گے تو تمہارے لیے جنت کا دروزہ نہیں کھلے گا، اس طرح جنت کا دروزہ کھو بیٹھو گے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5977   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6871  
6871. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی کی ناحق جان لینا والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا۔ یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6871]
حدیث حاشیہ:
ان گناہوں میں شرک ایسا جرم ہے جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوگا۔
اگر انسان توبہ کے بغیر مرگیا تو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا کیونکہ مشرک پر جنت حرام ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔
(المائدة: 5: 72)
بت پرستی اور قبر پرستی کی بھی یہی سزا ہے، البتہ حدیث میں باقی بیان کردہ جرائم ایسے ہیں کہ ان کا مرتکب اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے، وہ چاہے تو ویسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو سزا دے کر معاف کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ کے ساتھ اگر کسی کو شریک بنایا جائے تو یقیناً یہ گناہ اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا اور جو اس کے علاوہ (دوسرے گناہ)
ہیں، وہ جسے چاہے معاف کردے گا۔
(النساء4: 116)
بہرحال قتل ناحق بہت سنگین جرم ہے، اس کی قباحت متعدد احادیث سے ثابت ہے۔
کبیرہ گناہوں کی آگاہی کے لیے ہماری تالیف معاشرہ کے مہلک گناہ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6871