الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
34. بَابُ الاِسْتِعَارَةِ لِلْعَرُوسِ عِنْدَ الْبِنَاءِ:
34. باب: شب عروسی میں دلہن کے لیے کوئی چیز عاریتاً لینا۔
حدیث نمبر: 2628
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ:" دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَعَلَيْهَا دِرْعُ قِطْرٍ ثَمَنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، فَقَالَتْ: ارْفَعْ بَصَرَكَ إِلَى جَارِيَتِي انْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهَا تُزْهَى أَنْ تَلْبَسَهُ فِي الْبَيْتِ، وَقَدْ كَانَ لِي مِنْهُنَّ دِرْعٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ تُقَيَّنُ بِالْمَدِينَةِ، إِلَّا أَرْسَلَتْ إِلَيَّ تَسْتَعِيرُهُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ قطر (یمن کا ایک دبیز کھردرا کپڑا) کی قمیص قیمتی پانچ درہم کی پہنے ہوئے تھیں۔ آپ نے (مجھ سے) فرمایا۔ ذرا نظر اٹھا کر میری اس لونڈی کو تو دیکھ۔ اسے گھر میں بھی یہ کپڑے پہننے سے انکار ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میرے پاس اسی کی ایک قمیص تھی۔ جب کوئی لڑکی دلہن بنائی جاتی تو میرے یہاں آدمی بھیج کر وہ قمیص عاریتاً منگا لیتی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2628]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريارفع بصرك إلى جاريتي انظر إليها فإنها تزهى أن تلبسه في البيت وقد كان لي منهن درع على عهد رسول الله فما كانت امرأة تقين بالمدينة إلا أرسلت إلي تستعيره

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2628 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2628  
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اب ہمارے گھروں میں جس طرح کے کپڑے پہننے سے ہماری باندیوں کو انکار ہے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ہمارے ایسے کپڑے لوگ شادیوں میں استعمال کے لیے عاریتاً لے جایا کرتے تھے۔
اس سے کپڑوں کا عاریتاً لے جانا ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2628   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2628  
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ شادی کی پہلی رات کے لیے کسی سے ادھار لباس لینا باعث ملامت نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں بھی یہ سلسلہ رائج تھا کہ ہنگامی صورت کے پیش نظر لباس ادھار لیا جاتا تھا۔
(2)
اس حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کی تواضع اور انکساری کا بھی پتہ چلتا ہے، نیز ہمارے ہاں شادی کی پہلی رات کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے کا لباس تیار کیا جاتا ہے، اس حدیث کے پیش نظر یہ مستحسن اقدام نہیں بلکہ وقتی ضرورت کے لیے کسی سے ادھار لے لیا جائے۔
اگر مستقل کوئی لباس تیار کرنا ہے تو وہ گراں بھی نہ ہو اور زیادہ بھاری بھر کم بھی نہیں ہوتا کہ وہ آئندہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہو، وہ صرف صندوق کی زینت بن کر نہ رہ جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2628