ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے نضر بن انس نے بیان کیا، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عمریٰ جائز ہے۔“ اور عطاء نے کہا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2626]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2626
حدیث حاشیہ: کسی کو کوئی چیز صرف اس کی عمر تک بخش دینا اسی کو عمریٰ کہاگیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2626
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2626
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں عمریٰ اور رقبیٰ دونوں کا ذکر کیا ہے لیکن احادیث میں صرف عمریٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دونوں ایک ہیں یا ان کا حکم ایک جیسا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک عمریٰ لینے والے کی ملک ہو جاتا ہے، دینے والے کی طرف واپس نہیں ہوتا، خواہ وہ شرط کرے۔ اگر کوئی مشروط عطیہ ہے تو شرط پوری ہونے پر اس کے مطابق عمل ہو گا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ اور رقبیٰ سے منع فرمایا ہے اور آپ نے انصار سے فرمایا تھا: ”تم لوگ اپنی زمینیں اس طرح برباد نہ کرو جو شخص عمریٰ کرے گا وہ اسی کا ہو جائے گا جسے ہبہ کیا گیا۔ “(صحیح مسلم، الھبات، حدیث: 4196(1625) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنا مال واپس لینا چاہتے ہو تو عمریٰ نہ کرو کیونکہ جب تم نے عمریٰ کر دیا تو وہ واپس نہیں ہو گا بلکہ تم مشروط طور پر عطیہ کرو، اس لیے جواز اور نہی کی احادیث میں تعارض نہیں ہے۔ (فتح الباري: 293/5) ہمارے ہاں عمریٰ کا رواج نہیں بلکہ پسندیدہ طریقہ ہبہ کا ہے۔ اگر کوئی اپنی چیز شرعی طور پر دوسرے کو دینا چاہتا ہے تو ہبہ کے ذریعے سے وہ دی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2626