الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
16. بَابُ بِمَنْ يُبْدَأُ بِالْهَدِيَّةِ:
16. باب: ہدیہ کا اولین حقدار کون ہے؟
حدیث نمبر: 2595
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَيْمِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ، فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قَالَ:" إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ابوعمران جونی سے، ان سے بنو تیم بن مرہ کے ایک صاحب طلحہ بن عبداللہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری دو پڑوسی ہیں، تو مجھے کس کے گھر ہدیہ بھیجنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا دروازہ تم سے قریب ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2595]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريلي جارين فإلى أيهما أهدي قال إلى أقربهما منك بابا
   صحيح البخاريلي جارين فإلى أيهما أهدي قال إلى أقربهما منك بابا
   صحيح البخاريلي جارين فإلى أيهما أهدي قال إلى أقربهما منك بابا
   سنن أبي داودلي جارين بأيهما أبدأ قال بأدناهما بابا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2595 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2595  
حدیث حاشیہ:
یہ اشارہ اس طرف ہے کہ رشتہ داروں کے بعد اس پڑوسی کا حق ہے جس کا دروازہ زیادہ قریب ہے۔
فرمایا کہ آپس میں تحائف دیا کرو اس سے محبت بڑھے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2595   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2595  
حدیث حاشیہ:
یہ اشارہ ہے کہ رشتے داروں کے بعد اس پڑوسی کا حق ہے جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو۔
اگر دونوں کے دروازے برابر فاصلے پر ہوں تو دائیں بائیں کا فرق کیا جا سکتا ہے، جو دائیں جانب ہو اس کا زیادہ حق ہے یا ضرورت مند اور غیر ضرورت مند کی تفریق بھی کی جا سکتی ہے، نیز باری بھی مقرر کی جا سکتی ہے۔
بہرحال تحفے بھیجنا باہمی محبت و اخوت کا باعث ہے، اس لیے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بھیجنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے اور نہ اس قسم کے معمولی ہدیے کو قبول کرنے میں پس و پیش ہی کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2595   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2259  
2259. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2259]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒ نے کہا کہ اس سے شفعہ کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
حافظ ؒنے کہا کہ ابورافع کی حدیث ہمسایہ کے لیے حق شفعہ ثابت کرتی ہے اب اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ اگر کئی ہمسائے ہوں تو وہ ہمسایہ حق شفعہ میں مقدم سمجھا جائے گا جس کا دروازہ جائیداد مبیعہ سے زیادہ نزدیک ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2259   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2259  
2259. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2259]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن بطال ؒ کہتے ہیں:
اس حدیث سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے تو یہ سوال کیا تھا کہ اگر کئی پڑوسی ہوں تو پہلے کس کودوں؟ اسی بات کو امین احسن اصلاحی نے نقل کیا ہے کہ جو پڑوسی زیادہ نزدیک ہے وہ زیادہ حق دار ہے کہ تحفہ اس کو بھیجا جائے لیکن زمین یا جائیداد کی بیع کا معاملہ تحفہ لینے دینے سے بالکل مختلف ہے۔
آگے لکھا ہے کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ پڑوسی کو ہدیہ دینے کی اس روایت کو امام صاحب یہاں کیوں لائے ہیں اور شفعے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ (تدبرحدیث: 544/1)
کاش! حضرت اس مقام پر فتح الباری دیکھ لیتے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن بطال کا یہی اعتراض نقل کرکے اس کا جواب بھی دیا ہے، فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے حدیث ابو رافع سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت کیا ہے اور حدیث عائشہ کو کتاب الشفعہ میں ذکر کرکے دروازے کے اعتبار سے قریب والے کو دور والے پرمقدم قرار دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پڑوسی جس کا گھر صاحب جائیداد سے متصل ہے وہ دوسرے پڑوسی سے مقدم ہوگا، یعنی اسے شفعے کا زیادہ حق ہوگا۔
(فتح الباري: 554/4) (2)
ان حضرات کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ احادیث کی شروح سے اعتراض لےلیتے ہیں اور اس کے جواب کو نظر انداز کرجاتے ہیں، حالانکہ شارحین نے اعتراض اس لیے ذکر کیا ہوتا ہے کہ اس کا معقول جواب دیا جائے۔
ان حضرات نے"حدیث افک" پر جو اعتراضات کیے ہیں وہاں بھی یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اعمال وعقائد کی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔
آمين.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2259   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6020  
6020. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے دو ہمسائے ہیں ان میں سے کس کو ہدیہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6020]
حدیث حاشیہ:
(1)
قریب والے کو ہدیہ دینے میں یہ حکمت ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو پھل فروٹ لے کر آتے جاتے دیکھتا رہتا ہے، لیکن دور والے کو پتا نہیں چلتا، لہٰذا قریب رہنے والے کو ہدیہ دیاجائے۔
(2)
پڑوسی کی حد کیا ہے؟ اس کے متعلق متعدد اقوال مروی ہیں لیکن وہ سارے کے سارے ضعیف ہیں۔
راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے پڑوس کی حد بندی میں عرف کا خیال اور لحاظ رکھا جائے۔
(فتح الباري: 549/10، وسلسلة الأحادیث الضعیفة: 446/1، رقم: 277، وشرح ریاض الصالحین لابن عثیمین: 176/3)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6020