ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عثمان نے جو اسود کے بیٹے ہیں، کہا کہ مجھے سلیمان بن ابی مسلم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالمنہال سے بیع صرف نقد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ایک شریک نے کوئی چیز (سونے اور چاندی کی) خریدی نقد پر بھی اور ادھار پر بھی۔ پھر ہمارے یہاں براء بن عازب رضی اللہ عنہ آئے تو ہم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی یہ بیع کی تھی اور ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو نقد ہو وہ لے لو اور جو ادھار ہو اسے چھوڑ دو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّرِكَةِ/حدیث: 2498]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2498
حدیث حاشیہ: (1) بیع صرف سے مراد کرنسی کا تبادلہ ہے۔ یہ کاروبار نقد بنقد ہونا چاہیے کیونکہ ادھار کی شکل میں کمی بیشی کا خطرہ ہے۔ چونکہ سونے چاندی کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے، اس لیے کرنسی کا کاروبار دست بدست ہونا چاہیے، ادھار پر کاروبار جائز نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے سونے چاندی اور دیگر اشیائے تبادلہ میں شراکت جائز ہے جبکہ ہر شریک کی طرف سے سونا یا چاندی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ دونوں کا مال آپس میں اکٹھا کر لیا جائے حتیٰ کہ ان میں امتیاز ختم ہو جائے۔ اگر ایک طرف سے سونا اور دوسری طرف سے چاندی ہو تو اس میں شراکت کے متعلق اختلاف ہے۔ اکثر علما اسے ناجائز کہتے ہیں لیکن امام نووی ؒ کا موقف ہے کہ اگر ایک شریک کے درہم اور دوسرے کے دینار ہوں اور وہ انہیں ملا کر کرنسی کا کاروبار کریں تو ایسا کرنا جائز ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں کوئی پابندی ذکر نہیں کی۔ ان کا رجحان امام نووی والا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 166/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2498