ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہو جاتا یا مدینہ (کے قیام) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہو جاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّرِكَةِ/حدیث: 2486]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2486
حدیث حاشیہ: یعنی وہ خاص میرے طریق اور میری سنت پر ہیں۔ اور میں ان کے طریق پر ہوں۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ سفر یاحضر میں توشوں کا ملا لینا اور برابر برابر بانٹ لینا مستحب ہے۔ باب کی حدیث سے مطابقت ظاہر ہے: و مطابقته للترجمة تؤخذ من قوله جمعوا ما کان عندهم في ثوب واحد ثم اقتسموہ بینهم (عمدة القاري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2486
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2486
حدیث حاشیہ: کھانے کے سامان کو اکٹھا کر کے اندازے سے تقسیم کرنا سفر کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ عمل حضر میں بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اشعری قبیلے کے لوگوں کا عمل بیان ہوا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت جو کچھ بھی سامان خور و نوش ان کے پاس ہوتا اسے ملا کر برابر تقسیم کر لیتے۔ یہ شراکت کی بہترین قسم ہے۔ مشکل وقت میں ایسا کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی بیشی کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ ایک نے کم سامان جمع کیا تھا اور تقسیم میں اسے زیادہ مل گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2486
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6408
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اشعری لوگ جب جنگ کے موقعہ پر محتاج ہوجاتے ہیں یامدینہ میں ان کے اہل وعیال کا کھانا کم پڑجاتاہے تو سب کے پاس جو کچھ ہوتا ہے،اس کپڑے میں اکٹھا کرلیتے ہیں،پھر ایک برتن سےباہمی برابر بانٹ لیتے ہیں،سو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6408]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) ارملو في الغزو: جنگ میں ان کا کھانا ختم ہو جاتا ہے۔ (2) فهم مني وانا منهم: میرا اور ان کا طریقہ یا طرز عمل یکساں ہیں، وہ میرے نقش قدم پر چلتے ہیں، ان میں ہمدردی اور ایثار کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اس لئے وہ مل جل کر کھاتے ہیں اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا، انسان بطور تحدیث نعمت یا جذبۂ شکر کے تحت اپنے فضائل و مناقب کا دوسروں کے سامنے اظہار کر سکتا ہے، کیونکہ ان دونوں حدیثوں کا راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری ہے۔