لِقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا سورة النساء آية 148 وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ سورة الشورى آية 39، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: كَانُوا يَكْرَهُونَ أَنْ يُسْتَذَلُّوا، فَإِذَا قَدَرُوا عَفَوْا.
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ «لا يحب الله الجهر بالسوء من القول إلا من ظلم وكان الله سميعا عليما»”اللہ تعالیٰ بری بات کے اعلان کو پسند نہیں کرتا۔ سوا اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔“(اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ) «والذين إذا أصابهم البغى هم ينتصرون»”اور وہ لوگ کہ جن پر ظلم ہوتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لے لیتے ہیں۔“ ابراہیم نے کہا کہ سلف ذلیل ہونا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن جب انہیں (ظالم پر) قابو حاصل ہو جاتا تو اسے معاف کر دیا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/حدیث: Q2447-2]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ «إن تبدوا خيرا أو تخفوه أو تعفوا عن سوء فإن الله كان عفوا قديرا»”اگر تم کھلم کھلا طور پر کوئی نیکی کرو یا پوشیدہ طور پر یا کسی کے برے معاملہ پر معافی سے کام لو، تو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بہت بڑی قدرت والا ہے۔“(سورۃ شوریٰ میں فرمایا) «وجزاء سيئة سيئة مثلها فمن عفا وأصلح فأجره على الله إنه لا يحب الظالمين * ولمن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل * إنما السبيل على الذين يظلمون الناس ويبغون في الأرض بغير الحق أولئك لهم عذاب أليم * ولمن صبر وغفر إن ذلك لمن عزم الأمور، وترى الظالمين لما رأوا العذاب يقولون هل إلى مرد من سبيل»”اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن جو معاف کر دے اور درستگی معاملہ کو باقی رکھے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی پر ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جس نے اپنے پر ظلم کئے جانے کے بعد اس کا (جائز) بدلہ لیا تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ گناہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر ناحق فساد کرتے ہیں، یہی ہیں وہ لوگ جن کو درد ناک عذاب ہو گا۔ لیکن جس شخص نے (ظلم پر) صبر کیا اور (ظالم کو) معاف کیا تو یہ نہایت ہی بہادری کا کام ہے۔ اور اے پیغمبر! تو ظالموں کو دیکھے گا جب وہ عذاب دیکھ لیں گے تو کہیں گے اب کوئی دنیا میں لوٹ جانے کی بھی صورت ہے؟“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/حدیث: Q2447]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز ماجشون نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن دینار نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ/حدیث: 2447]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2447
حدیث حاشیہ: ظلم کرنے سے کئی ایک تاریکیاں اس طرح ہوں گی کہ ایک تو کسی کا حق ناجائز طریقے سے لیا، دوسرے وہ اللہ کی مخالفت کر کے اس کے مقابلے پر اتر آیا، یہ گناہ دوسرے گناہوں سے بہت سنگین ہے، نیز ظلم دل میں تاریکی پیدا کرتا ہے جس طرح ایمان سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ظالم کو کئی طرح کی تاریکیاں گھیر لیں گی اور وہ ان اندھیروں میں دھکے کھاتا اور مصیبت اٹھاتا پھرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2447
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1279
ظلم کا انجام «وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: الظلم ظلمات يوم القيامة . متفق عليه» ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم، قیامت کے کئی اندھیرے ہو گا۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1279]
تخریج: [بخاري 2447]، [مسلم البر والصلة /57] دیکھیے: [تحفة الاشراف 458/5] فوائد: ➊ اکثر اہل لغت اور علماء کے نزدیک ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کے علاوہ رکھنا۔ مثلاً کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔ علاوہ ازیں حق بات جو دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح صرف اور صرف ایک ہوتی ہے۔ اس سے تجاوز کو بھی ظلم کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ۔ اس لئے بڑا گناہ ہو یا چھوٹا سب پر ظلم کا لفظ بولا جاتا ہے۔ دیکھئے آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انہیں ظالم کہا گیا اور ابلیس کو بھی ظالم کہا گیا۔ حالانکہ دونوں میں بے حد فرق ہے۔ [مفردات راغب ] ➋ ظلم کی تین قسمیں ہیں: الف: اللہ تعالیٰ کے متعلق ظلم: اس کی سب سے بڑی قسمیں کفر، شرک اور نفاق ہے۔ کیونکہ مشرک اللہ کا حق مخلوق کو دیتا ہے۔ اسی لئے الله تعالیٰ نے فرمایا: «إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ»[31-لقمان:13] ”یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ اور فرمایا: «وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ»[11-هود:18] ”اور گواہ کہیں گے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا خبردار اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔“
ب: لوگوں پر ظلم: ان آیات میں یہی مراد ہے: «وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا»[42-الشورى:40] ”برائی کا بدلہ برائی ہے اس جیسی۔“ - - الى قولہ - - «إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ»[42-الشورى:40] ”یقیناً وہ ظالموں سے محبت نہیں رکھتا۔“ اور فرمایا: «إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ»[42-الشورى:42] ”صرف ان لوگوں پر گرفت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔“ لوگوں پر ظلم خواہ ان کی جان پر ہو یا مال پر یا عزت پر ہر طرح حرام ہے۔
ج: اپنی جان پر ظلم: ان آیات میں یہی مراد ہے: «فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ»[35-فاطر:32 ] ”پھر ان میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔“ اور فرمایا: «ظَلَمْتُ نَفْسِ»[28-القصص:16] ”میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔“ اور فرمایا: «فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ»[2-البقرة:35] ”پس تم دونوں ظالموں سے ہو جاؤ گے۔“ ان تینوں قسموں میں درحقیقت انسان اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان سب کا وبال اس کی جان پر ہی پڑنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ»[2-البقرة:57]، [7-الأعراف:160] ”اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کیا کرتے تھے۔“ ➌ ظلم قیامت کے دن کئی اند ھیرے ہو گا۔ اندھیروں سے مراد یا تو حقیقی اندھیرے ہیں یعنی ظالم کو قیامت کے دن روشنی نصیب نہیں ہو گی جس سے وہ صحیح راستہ معلوم کر سکے جبکہ اہل ایمان کا حال یہ ہو گا کہ: «نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ»[ 66-التحريم:8] ”ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا۔“ یا قیامت کے دن کی سختیاں مراد ہیں جیسا کہ: «قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ»[6-الأنعام:63] ”کہہ دیجئے کون ہے جو تمہیں خشکیوں اور سمندروں کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے۔“ اس آیت میں مذکور ظلمات کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد سختیاں ہیں۔ یا قیامت کے دن ظلم کی جو سزائیں ملیں گی وہ مراد ہیں۔ [سبل ] ➍ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا کیونکہ اگر وہ کفر و شرک کی صورت میں ہے تو اس کے مرتکب پر جنت حرام ہے: «إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ»[5-المائدة:72] ”پکی بات یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔“ اور اگر بندے پر ظلم ہے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من كانت عنده مظلمة لاخيه فليتحلله منها فإنه ليس ثم دينار ولا درهم من قبل ان يؤخذ لاخيه من حسناته فإن لم يكن له حسنات اخذ من سيئات اخيه فطرحت عليه»[بخاري 6534، 2449] ”جس شخص نے اپنے بھائی پر کوئی ظلم کیا ہو وہ اس سے معاف کروا لے کیونکہ وہاں درهم و دینار نہیں اس سے پہلے پہلے کہ اس کے بھائی کے لئے اس کی نیکیاں لے لی جائیں اگر نیکیاں نہ ہوں تو اس کے بھائی کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں۔“ اب ظاہر ہے جب نیکیاں چھن جائیں گی تو نور کہاں سے آئے گا پھر تو اندھیرے ہی اندھیرے رہ جائیں گے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 136
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1279
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ظلم قیامت کے روز بہت سی تاریکیوں اور اندھیروں کا باعث ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1279»
تخریج: «أخرجه البخاري، المظالم، باب الظلم ظلمات يوم القيامة، حديث:2447، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الظلم، حديث:2579.»
تشریح: اس حدیث میں خبردار کیا گیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں ظلم کرے گا وہ قیامت کے روز بہت سے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے گا۔ اور یہ ظلم اپنی تمام اقسام پر مشتمل ہے‘ خواہ جان پر ہو‘ مال میں ہو‘ کسی کی عزت و آبرو پر ہو‘ حقوق اللہ میں ہو یا حقوق العباد میں‘ حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1279
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2030
´ظلم کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم کرنا قیامت کے دن تاریکیوں کا سبب ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2030]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی ظلم کرنے والا اپنے ظلم کے سبب قیامت کے دن مختلف قسم کے مصائب سے دوچار ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2030