ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص کسی دوسرے کے دودھ کے جانور کو مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔ کیا کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ ایک غیر شخص اس کے گودام میں پہنچ کر اس کا ذخیرہ کھولے اور وہاں سے اس کا غلہ چرا لائے، لوگوں کے مویشی کے تھن بھی ان کے لیے کھانا یعنی (دودھ کے) گودام ہیں۔ اس لیے انہیں بھی مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوھا جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فِي اللُّقَطَةِ/حدیث: 2435]
لا يحلبن أحد ماشية امرئ بغير إذنه أيحب أحدكم أن تؤتى مشربته فتكسر خزانته فينتقل طعامه فإنما تخزن لهم ضروع مواشيهم أطعماتهم فلا يحلبن أحد ماشية أحد إلا بإذنه
لا يحلبن أحد ماشية أحد إلا بإذنه أيحب أحدكم أن تؤتى مشربته فتكسر خزانته فينتقل طعامه إنما تخزن لهم ضروع مواشيهم أطعمتهم فلا يحلبن أحد ماشية أحد إلا بإذنه
لا يحلبن أحد ماشية أحد بغير إذنه أيحب أحدكم أن تؤتى مشربته فتكسر خزانته فينتثل طعامه فإنما تخزن لهم ضروع مواشيهم أطعمتهم فلا يحلبن أحد ماشية أحد إلا بإذنه
لا يحتلبن أحدكم ماشية رجل بغير إذنه أيحب أحدكم أن تؤتى مشربته فيكسر باب خزانته فينتثل طعامه فإنما تخزن لهم ضروع مواشيهم أطعماتهم فلا يحتلبن أحدكم ماشية امرئ بغير إذنه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2435
حدیث حاشیہ: اضطراری حالت میں اگر جنگ میں کوئی ریوڑ مل جائے اور مضطر اپنی جان سے پریشان ہو اور بھوک وپیا س سے قریب المرگ ہو تو وہ اس حالت میں مالک کی اجازت کے بغیر بھی اس ریوڑ میں سے کسی جانور کا دودھ نکال کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ یہ مضمون دوسری جگہ بیان ہوا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2435
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2435
حدیث حاشیہ: (1) بعض روایات میں ہے کہ اگر جنگل میں بکریوں کا ریوڑ نظر آئے تو تین مرتبہ آواز دو، اگر کوئی چرواہا نہیں ہے تو بکریوں کا دودھ دوہ کر پی سکتے ہو۔ امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید کرتے ہیں کہ کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر دوہنا جائز نہیں، ہاں اگر کوئی بھوک یا پیاس سے مر رہا ہو تو وہ اس حالت میں مالک کی اجازت کے بغیر ریوڑ میں سے کسی جانور کا دودھ نکال کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ یہ ایک اضطراری حالت ہے۔ (2) جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے اسے امام ابن ماجہ ؒ نے صحیح سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن ابن ماجة، التجارات، حدیث: 2300) اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ اضطراری حالت میں ایسا کیا جا سکتا ہے، عام حالات میں کسی کا مال اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں، مجبوری کے وقت بھی اس شرط کے ساتھ لیا جا سکتا ہے کہ اگر مالک تاوان طلب کرے تو دینا ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2435
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 603
´کسی دوسرے کا مال اجازت کے بغیر استعمال کرنا منع ہے` «. . . 251- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يحلبن أحد ماشية أحد بغير إذنه أيحب أحدكم أن تؤتى مشربته فتكسر خزانته فينتقل طعامه، فإنما تخزن لهم ضروع مواشيهم أطعماتهم، فلا يحلبن أحد ماشية أحد إلا بإذنه.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی کے دوسرے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر نہ دوھے، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کمرے میں آ کر اس کا خزانہ توڑ دے، پھر اس کا کھانا (غلہ) لے کر اپنے پاس منتقل کر لے؟ لوگوں کی خوراک (دودھ) کو ان کے جانوروں کے تھن جمع اور محفوظ رکھتے ہیں، لہٰذا تم میں سے کوئی آدمی دوسرے کی اجازت کے بغیر اس کے جانور کا دودھ نہ دوھے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 603]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2435، ومسلم 13/1726، من حديث مالك به] تفقه: ➊ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لئے اس کی اجازت کے بغیر حلال نہیں ہے اِلا یہ کہ بیوی بچے ہوں تو وہ معروف طریقے سے گھر کا خرچہ چلا سکتے ہیں۔ ➋ دودھ اور مشروب کو بھی کھانا کہا جا سکتا ہے۔ دیکھئے: [سورة البقرة: 249] ➌ قیاس جائز ہے بشرطیکہ نص کے خلاف نہ ہو۔ ➍ جو شخص اتنا دودھ چُرائے جو نصاب (تین درہم) کی حد تک پہنچ جائے تو اس چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ➎ استطاعت ہو تو دودھ دینے والے جانور پالنا اور رکھنا اچھا کام ہے۔ ➏ ہر وقت حقوق العباد (بندوں کے حقوق) کا خیال رکھنا چاہئے۔ ➐ اچھا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 251
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2623
´بغیر اجازت کے کسی کے جانور کا دودھ نہ نکالے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی کے جانور کو اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بالاخانہ میں آ کر اس کا گودام توڑ کر غلہ نکال لیا جائے؟ اسی طرح ان جانوروں کے تھن ان کے مالکوں کے گودام ہیں تو کوئی کسی کا جانور اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2623]
فوائد ومسائل: 1۔ قیاس کرنا ایک معروف شرعی وفقہی قاعدہ ہے۔ اور اشباء ونظائر پرایک دوسرے کا حکم لگتا ہے۔
2۔ بغیر شرعی عذر کے اگر کسی نے جانوروں کا اس قدر دودھ نکال لیا۔ جس کی قیمت چوری کے نصاب کو پہنچتی ہو تو اس پر چوری کی حد لگے گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2623
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2302
´مالک کی اجازت کے بغیر کسی کے ریوڑ یا باغ سے کچھ لینا منع ہے۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”کوئی کسی کے جانور کا دودھ بغیر اس کی اجازت کے نہ دوہے، کیا کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کے بالاخانہ میں کوئی جائے، اور اس کے غلہ کی کوٹھری کا دروازہ توڑ کر غلہ نکال لے جائے؟ ایسے ہی ان کے جانوروں کے تھن ان کے غلہ کی کوٹھریاں ہیں، تو کوئی کسی کے جانور کو اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2302]
اردو حاشہ: (1) خطبے میں روز مرہ کے اہم مسائل بیان کرنے چاہییں۔ (2) خطبہ کھڑے ہو کر دیا جائے۔ (3) مسئلے کی وضاحت کے لیے مثالیں ذکر کی جائیں۔ (4) کسی دودھ دینے والے جانور کا دودھ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر دوہنا منع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2302
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4511
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ہرگز دوسرے کا مویشی اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے، کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے کمرہ (گودام) میں آ کر کوئی اس کا خزانہ توڑ کر اس کا غلہ نقل کر لے، (لے جائے)؟ لوگوں کے مویشی بھی اپنے تھنوں میں ان کی خوراک محفوظ کرتے ہیں، اس لیے کوئی کسی کا حیوان اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4511]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مَشرَ بَتُهُ: کمرہ یا غلہ کا گودام۔ (2) خزَانَة: غلہ محفوظ کرنے کی جگہ۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی کی اجازت کے بغیر اس کا حیوان دوہنا جائز نہیں ہے تو جب دودھ دوہنے کی اجازت نہیں تو پھر کسی اور چیز کے بلا اجازت لے لینے کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے، جمہور کا یہی موقف ہے، ہاں اگر کوئی مسافر ہے یا لاچار اور مجبور ہے تو وہ مالک کو آواز دے تاکہ اس سے اجازت لے سکے، اگر مالک نہ مل سکے تو پھر ضرورت کے بقدر پی لے یا اگر عرف و عادت کی رو سے، مسافر اور دوسروں کو دودھ پینے کی اجازت ہو تو وہ آواز دے کر پی لے، کیونکہ عرب میں عام طور پر بکریاں ہوتی ہیں یا اونٹ جن کو کسی وقت بھی دوھیا جا سکتا ہے۔ مقصود یہ ہے باہر جنگل میں چرنے والا ریوڑ وہ گمشدہ نہیں ہے کہ اس کو اپنی مرضی سے استعمال کر لے۔