الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب فِي اللُّقَطَةِ
کتاب: لقطہ یعنی گری پڑی چیزوں کے بارے میں احکام
1. بَابُ إِذَا أَخْبَرَهُ رَبُّ اللُّقَطَةِ بِالْعَلاَمَةِ دَفَعَ إِلَيْهِ:
1. باب: اور جب لقطہٰ کا مالک اس کی صحیح نشانی بتا دے تو اسے اس کے حوالہ کر دے۔
حدیث نمبر: 2426
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ، سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ، قَالَ:" لَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَخَذْتُ صُرَّةً مِائَةَ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ ثَلَاثًا، فَقَالَ: احْفَظْ وِعَاءَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا"، فَاسْتَمْتَعْتُ، فَلَقِيتُهُ بَعْدُ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سو دینار کی ایک تھیلی (کہیں راستے میں پڑی ہوئی) پائی۔ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے پہچان سکتا۔ اس لیے میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے پھر (سال بھر) اعلان کیا۔ لیکن ان کا مالک مجھے نہیں ملا۔ تیسری مرتبہ حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس تھیلی کی بناوٹ، دینار کی تعداد اور تھیلی کے بندھن کو محفوظ رکھ۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو (علامت پوچھ کے) اسے واپس کر دینا، ورنہ اپنے خرچ میں اسے استعمال کر لے چنانچہ میں اسے اپنے اخراجات میں لایا۔ (شعبہ نے بیان کیا کہ) پھر میں نے سلمہ سے اس کے بعد مکہ میں ملاقات کی تو انہوں کہا کہ مجھے یاد نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حدیث میں) تین سال تک (اعلان کرنے کے لیے فرمایا تھا) یا صرف ایک سال کے لیے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فِي اللُّقَطَةِ/حدیث: 2426]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارياعرف عدتها ووكاءها ووعاءها فإن جاء صاحبها وإلا استمتع بها
   صحيح البخارياحفظ وعاءها وعددها ووكاءها فإن جاء صاحبها وإلا فاستمتع بها
   صحيح مسلمعرفها حولا فعرفتها فلم أجد من يعرفها فقال احفظ عددها ووعاءها ووكاءها فإن جاء صاحبها وإلا فاستمتع بها
   جامع الترمذيأحص عدتها ووعاءها ووكاءها فإن جاء طالبها فأخبرك بعدتها ووعائها ووكائها فادفعها إليه وإلا فاستمتع بها
   سنن أبي داودعرفها حولا فعرفتها حولا ثم أتيته فقال عرفها حولا فعرفتها حولا ثم أتيته فقال عرفها حولا فعرفتها حولا ثم أتيته فقلت لم أجد من يعرفها فقال احفظ عددها ووكاءها ووعاءها فإن جاء صاحبها وإلا فاستمتع بها وقال ولا أدري أثلاثا قال عرفها أو مرة واحدة
   سنن ابن ماجهاعرف وعاءها ووكاءها وعددها ثم عرفها سنة فإن جاء من يعرفها وإلا فهي كسبيل مالك

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2426 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2426  
حدیث حاشیہ:
روایت کے آخری الفاظ تین سال یا ایک سال کے متعلق حضرت علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:
ولم یقل أحد بأن اللقطة تعرف ثلاثة أحوال والشك یوجب سقوط المشکوك فیه و هو الثلاثة فوجب العمل بالجزم و هو روایة العام الواحد الخ (قسطلانی)
یعنی کسی نے نہیں کہا کہ لقطہ کو تین سال تک پہچنوایا جائے اور شک سے مشکوک فیہ خود ہی ساقط ہو جاتا ہے۔
جو یہاں تین سال ہے پس پختہ چیز پر عمل واجب ہوا اور وہ ایک ہی سال کے لیے ہے۔
بعض اور روایتوں میں بھی تین سال کا ذکر آیا ہے۔
مگر وہ مزید احتیاط اور تورع پر مبنی ہے۔
اگر پانے والا غریب اور محتاج ہے تو مقررہ مدت تک اعلان کے بعد مالک کو نہ پانے کی صورت میں اسے وہ اپنی ضروریات پر خرچ کرسکتا ہے۔
اور اگر کسی محتاج کو بطور صدقہ دے دے تو اور بھی بہتر ہوگا۔
ا س پر سب کا اتفاق ہے کہ جب مالک مل جائے تو بہر صورت اسے وہ چیز واپس لوٹانی پڑے گی، خواہ ایک مدت تک اعلان کرتے رہنے کے بعد اسے اپنی ضروریات میں خرچ ہی کیوں نہ کرچکا ہو۔
امانت و دیانت سے متعلق اسلام کی یہ وہ پاک ہدایات ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔
آج بھی ارض حرم میں ایسی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں کہ ایک چیز لقطہ ہے مگر دیکھنے والے ہاتھ تک نہیں لگاتے بلکہ وہ چیز اپنی جگہ پڑی رہتی ہے۔
خود 1389ھ کے حج میں میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے واقعات دیکھے۔
کیوں کہ اٹھانے والا سوچ رہا تھا کہ کہاں پہچنواتا پھرے گا۔
بہتر ہے کہ اس کو ہاتھ ہی نہ لگائے۔
اللہ پاک آج کے نوجوانوں کو توفیق دے کہ وہ حقائق اسلام کو سمجھ کر اسلام جیسی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کریں اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے راستے کو اپنائیں۔
حضرت ابی بن کعب ؓ انصاری خزرجی ہیں۔
یہ کاتب وحی تھے۔
اور ان چھ خوش نصیب اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے عہد رسالت ہی میں پورا قرآن شریف حفظ کر لیا تھا، اور ان فقہائے اسلام میں سے ہیں جو آپ کے عہد مبارک میں فتوی دینے کے مجاز تھے۔
صحابہ میں قرآن شریف کے اچھے قاری کی حیثیت سے مشہور تھے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو سید الانصار کا خطاب بخشا۔
اور حضرت عمر ؓ نے سید المسلمین کے خطاب سے نوازا تھا۔
آپ کی وفات مدینہ طیبہ ہی میں 19ھ میں واقع ہوئی۔
آپ سے کثیر مخلوق نے روایات نقل کی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2426   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2426  
حدیث حاشیہ:
(1)
گمشدہ چیز کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے کا مال ہے، اس کی اجازت کے بغیر اسے اٹھانا درست نہیں۔
بعض کے نزدیک اٹھانا جائز ہے مگر نہ اٹھانا بہتر ہے، ممکن ہے کہ اس کا مالک تلاش کرتے کرتے اسی جگہ پہنچ جائے، لیکن عام محدثین اور فقہاء کا موقف ہے کہ چھوڑ دینے سے اس کا اٹھا لینا بہتر ہے کیونکہ گمشدہ مال بہرحال ضائع نہیں ہونا چاہیے اور نہ آسانی سے اسے ہضم ہی کیا جا سکتا ہے۔
(2)
گری پڑی چیز کی دو قسمیں ہیں:
ایک یہ کہ وہ حقیر اور معمولی سی چیز ہو، عموماً مالک اسے تلاش نہیں کرتا۔
اسے اٹھا لینا اور اس سے نفع اٹھانا جائز ہے۔
اگر مالک اس کے ہاتھ میں دیکھ لے تو واپس بھی لے سکتا ہے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ وہ چیز قیمتی اور کثیر مال ہو جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کا مالک اسے ضرور تلاش کرے گا۔
اسے اٹھا لیا جائے گا۔
اٹھانے والا اس کا بیگ یا بٹوہ وغیرہ اچھی طرح پہچان لے، اس کی رقم گن لے اور اس کے بندھن یا زنجیر کو بھی نظر میں رکھے۔
مساجد، شارع عام، بازار اور پبلک مقامات پر اس کی تشہیر کرے، بالخصوص جہاں سے وہ چیز ملی ہے اس کے آس پاس خوب اعلان کیا جائے۔
ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔
اس دوران میں اگر کوئی آ جائے اور نشانی بتائے تو اس کے حوالے کر دیا جائے، بصورت دیگر بطور امانت اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
اس کے بعد بھی جب کبھی اس کا مالک مل جائے تو اسے ادا کرنا ضروری ہے۔
(3)
روایت کے آخر میں تین سال یا ایک سال کا ذکر ہے، اس کے متعلق محتاط موقف یہ ہے کہ ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔
ایک سال سے زیادہ تشہیر کرنا مزید تقویٰ اور پرہیزگاری کی علامت ہے، واجب نہیں، تاہم اکثر محدثین نے تین سال کے الفاظ کو راوئ حدیث سلمہ بن کہیل کی خطا قرار دیا ہے۔
دیگر روایات کے پیش نظر جو بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے وہ ایک سال تک تشہیر ہے کیونکہ یہ مال کسی کا ہے اس کے جائز ہونے کے لیے کوئی دلیل ہونی چاہیے۔
شریعت نے ایک شرط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا ہے کہ اس کے متعلق ایک سال تک اعلان کیا جائے۔
مزید برآں اس کی حفاظت بھی کی جائے تاکہ وہ ضائع نہ ہونے پائے۔
(4)
اس حدیث میں نشانی بتانے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ٹھیک ٹھیک نشانی بتانے کا ذکر ہے۔
نشانی بتانے کے بعد گمشدہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے، مزید گواہوں کی ضرورت نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2426   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2506  
´راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔`
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، جب ہم عذیب پہنچے تو میں نے وہاں ایک کوڑا پڑا ہوا پایا، ان دونوں نے مجھ سے کہا: اس کو اسی جگہ ڈال دو، لیکن میں نے ان کا کہا نہ مانا، پھر جب ہم مدینہ پہنچے، تو میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تم نے ٹھیک کیا، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سو دینار پڑے پائے تھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سال بھر تک اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2506]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام قیمتی چیز کےلیےاعلان کی مدت ایک سال ہے جب کہ زیادہ قیمتی چیز کا اس سے زیادہ مدت تک اعلان کرنا بہتر ہے۔

(2)
معمولی چیز جس کے گم ہونے کی زیادہ پروا نہیں کی جاتی اس کا اعلان نہ کرنا درست ہے۔

(3)
اعلان ایسے متعدد مقامات پرکرنا چاہیے جہاں سے توقع ہو کہ اگر مالک تلاش میں وہاں آیا ہوا ہو تو خود سن لے گا یا اگر اس نے آسں پاس کے لوگوں سے پوچھا ہوگا توان میں سے کوئی نہ کوئی سن کر بتا دے گا کہ فلاں شخص کا مال گم ہوا ہے۔

(4)
آج کل اخبار اور ریڈیو میں اعلان کرنا بھی درست ہے۔
جب مالک آئے تواس سے اعلان کا خرچ وصول کرکے اس کی گم شدہ رقم وغیرہ اسے دے دے۔

(5)
ایک سال کےاعلان کے باوجود اگر مالک نہ آیا تو یہ اعلان کافی ہے اور رقم کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بعد میں کبھی مالک آ جائے تو بھی اسے اتنی رقم ادا کرنی چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں صراحت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2506   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1374  
´گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔`
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا تو مجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑا ملا - ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا - تو میں نے اسے اٹھا لیا تو ان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو، (نہ اٹھاؤ) میں نے کہا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا کہ اسے درندے کھا جائیں، میں اسے ضرور اٹھاؤں گا، اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا، اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، میں نے ایک تھیلی پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1374]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی تین سال تک پہچان کرانے کا حکم دیا،
اس کی تاویل پچھلی حدیث کے حاشہ میں دیکھیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1374   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2437  
2437. حضرت سوید بن غفلہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں ایک لڑائی میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ تھا۔ میں نےایک کوڑا دیکھا (تو اسے اُٹھا لیا۔)مجھ سے انھوں نےکہا: اسے پھینک دو۔ میں نےکہا: نہیں پھینکتا، اگر اس کامالک مل گیا تو اس کے حوالے کردوں گا بصورت دیگر اسے اپنے کام میں لاؤں گا، چنانچہ جب ہم غزوے سے واپس آئے تو حج کیا، پھر مدینہ طیبہ سے گزر ہوا توحضرت ابی بن کعب ؓ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا توا نھوں نے بتایا: مجھے نبی کریم ﷺ سے زمانے میں ایک تھیلی ملی تھی۔ جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اس کی ایک سال تک تشہیر کرو۔ میں نے اس کی سال بھر تشہیر کی۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ایک سال مزید تشہیر کرو۔ میں نے ایک سال مزید ایسا کیا۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ایک سال اور اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2437]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کسی پڑی ہوئی چیز کو اٹھا لینا ہی ضروری ہے تاکہ وہ کسی غلط آدمی کے حوالہ نہ پڑ جائے۔
اٹھا لینے کے بعدحدیث مذکورہ کی روشنی میں عمل در آمد ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2437   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2437  
2437. حضرت سوید بن غفلہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں ایک لڑائی میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ تھا۔ میں نےایک کوڑا دیکھا (تو اسے اُٹھا لیا۔)مجھ سے انھوں نےکہا: اسے پھینک دو۔ میں نےکہا: نہیں پھینکتا، اگر اس کامالک مل گیا تو اس کے حوالے کردوں گا بصورت دیگر اسے اپنے کام میں لاؤں گا، چنانچہ جب ہم غزوے سے واپس آئے تو حج کیا، پھر مدینہ طیبہ سے گزر ہوا توحضرت ابی بن کعب ؓ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا توا نھوں نے بتایا: مجھے نبی کریم ﷺ سے زمانے میں ایک تھیلی ملی تھی۔ جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اس کی ایک سال تک تشہیر کرو۔ میں نے اس کی سال بھر تشہیر کی۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ایک سال مزید تشہیر کرو۔ میں نے ایک سال مزید ایسا کیا۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ایک سال اور اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2437]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ گری پڑی چیز کو اٹھا لینا بہتر ہے تاکہ وہ ضائع نہ ہو جائے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ نہ لگ جائے، اٹھا لینے کے بعد حدیث کی روشنی میں عمل کیا جائے۔
(2)
اہل علم کے درمیان اس روایت کے متعلق اختلاف ہے، امام ابن حزم ؒ کہتے ہیں کہ ایک سال سے زیادہ تشہیر کرنا صحیح نہیں۔
(المحلیٰ لابن حزم: 118/7)
امام ابن جوزی ؒ کہتے ہیں کہ دیگر احادیث کی روشنی میں جو بات میرے سامنے واضح ہوئی ہے وہ یہ کہ سلمہ بن کہیل راوی نے اس میں غلطی کی ہے، لہذا یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ ایک سال ہی تشہیر کرتے رہے۔
(فتح الباري: 99/5)
امام منذری ؒ کہتے ہیں کہ کسی محدث یا فقیہ نے تین سال کی تشہیر کا فتویٰ نہیں دیا۔
(نیل الأوطار: 49/4)
ان روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ ایک سال تک تشہیر کرنا ضروری ہے۔
اگر مالک نہ ملے تو ایک سال سے زائد تشہیر کرنا تقویٰ کی علامت ہے، واجب نہیں۔
(فتح الباري: 99/5)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2437