ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے، انہیں عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان ایک دفعہ اس قرآت سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرآت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرآت کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرآت سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرآت سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْخُصُومَاتِ/حدیث: 2419]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2419
حدیث حاشیہ: یعنی عرب کے ساتوں قبیلوں کے محاورے اور طرز پر اور کہیں کہیں اختلاف حرکات یا اختلاف حروف سے کوئی ضرر نہیں بشرطیکہ معانی اور مطالب میں فرق نہ آئے، جیسے سات قراءتوں کے اختلاف سے ظاہر ہوتا ہے۔ علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید مشہور سات قراءتوں میں سے ہر قراءت کے موافق پڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شاذ قراءت کے ساتھ پڑھنا اکثر علماءنے درست نہیں رکھا جیسے حضرت عائشہ ؓ کی قراۃ ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾ یا ابن مسعود ؓ کی قرات فما استمتعتم منهن إلی أجل مسمی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2419
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2419
فقہ الحدیث یہ حدیث دلیل ہے کہ قرآن مجید سات قراءتوں میں نازل ہوا اور ان میں سے جس قرأت میں بھی پڑھا جائے وہ بالکل صحیح ہے۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ ہر قرأت کا ہر صحابی کو علم نہیں تھا، اسی لیے سیدنا عمر اور سیدنا ہشام رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف ہوا تھا اور جس روایت کو جوادی صاحب نے بطور اعتراض نقل کیا ہے اس میں بھی قرأءتوں ہی کا اختلاف ہے۔ بعض قرأءتوں میں «ان هذان لساحران» ہے تو بعض میں «ان هذين لساحران» ہے۔ جو «فاقرووا ما تيسر منه» کی رو سے بالکل درست ہیں۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2419
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر حضرت ہشام ؓ کی قراءت کا نوٹس لیا، بلکہ عملی طور پر ان کے گلے میں چادر ڈال کر انہیں رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کر دیا اور ان کے متعلق بیان دیا کہ انہوں نے قرآن اس طریقے کے خلاف پڑھا ہے جو آپ نے مجھے سکھایا تھا، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان کا مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ صحیح صورت حال سے انہیں آگاہ کر دیا۔ (فتح الباري: 94/5)(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ دینی معاملات میں بہت سخت تھے اور ان کے بعد حضرت ہشام ؓ سب سے زیادہ سخت تھے، چنانچہ حضرت عمر ؓ جب کوئی مکروہ اور ناپسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے: جب تک میں اور ہشام بن حکیم زندہ ہیں اس قسم کی مکروہ چیز دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ (عمدة القاري: 148/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2419
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 571
´سات قرأتوں کا بیان` «. . . إن هذا القرآن انزل على سبعة احرف فاقرؤوا ما تيسر منه . . .» ”. . . یہ قرآن سات حرفوں (قرأت وں) پر نازل ہوا ہے لہٰذا اس میں سے جو میسر ہو پڑھو . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 571]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2419، ومسلم 818، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ قرآن مجید کے سات قرأتوں پر نازل ہونے والی حدیث متواتر ہے۔ [قطف الازهار: 60 نظم المتناثر:197] ➋ سات حرفوں (قرأتوں) سے مراد بعض الفاظ کی قرأت کا اختلاف ہے جس کی وضاحت کے لئے چند مثالیں درج ذیل ہیں: مثال اول: قاری عاصم بن ابی النجود الکوفی وغیرہ نے «مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ» پڑھا۔ جبکہ قاری نافع بن عبد الرحمٰن بن ابی النعيم المدنی نے «مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ» پڑھا۔ پہلی قرأت برصغیر وغیرہ میں متواتر ہے اور دوسری قرأت افریقہ وغیرہ میں متواتر ہے۔
مثال دوم: قاری حفص بن سلیمان الاسدی (عن عاصم بن ابی النجود) نے «فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ صَرْفاً وَّلَا نَصْراً» پڑھا۔ دیکھئے: [سورة الفرقان:19] جب کہ قاری نافع المدنی نے «فَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ صَرْفاً وَّلَا نَصْراً» پڑھا۔ دیکھئے: قرآن مجید [رواية قالون ص 309 رواية ورش ص 293،]
مثال سوم: قاری عاصم، قاری قالون اور دیگر قاریوں نے «قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ» پڑھا جبکہ قاری ورش کی قرأت میں «قُلَ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ» ہے۔ دیکھئے: قرآن مجید [قرأة ورش ص712 مطبوعة الجزائر، دوسرا نسخه مطبوعة مصر] ➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین اسلام کی محبت، جہاد فی سبیل اللہ اور دفاع اسلام کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ➍ اگر کوئی آدمی قرآن و حدیث سے ثابت شده دو مسئلوں میں سے ایک مسئلے پر عمل کر رہا ہے اور دوسرا آدمی دوسرے ثابت شده مسئلے پر عمل کر رہا ہے تو دونوں کو ایک دوسرے کا سختی سے رد نہیں کرنا چاہئے تاہم تحقیق کے لئے ہر وقت راستے کھلے ہوئے ہیں۔ والحمد للہ ➎ اگر ایک آدمی دوسرے بھائی کو اجتہادی غلطی کا مرتکب سمجھتا ہے تو مناسب وقت کا انتخاب کر کے نرمی اور دلائل کے ساتھ رد کرنا چاہئے ➏ قرآن مجید سات قرأتوں پر پڑھنا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اپنے علاقے کی مشہور قرأت میں پڑھا جائے تاکہ عوام الناس غلطی کا شکار نہ ہوں۔ ➐ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر کو الله تعالیٰ اپنی رحمتوں اور نور سے بھر دے کہ انھوں نے مسلمانوں کو ایک مصحف (قرآن) کے رسم الخط پر جمع کر دیا جس میں دوسری قرائتیں پرو دی گئی ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 47
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 938
´قرآن سے متعلق جامع باب۔` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، جس طرح میں پڑھ رہا تھا وہ اس کے خلاف پڑھ رہے تھے، جبکہ مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا تھا، تو قریب تھا کہ میں ان کے خلاف جلد بازی میں کچھ کر بیٹھوں ۱؎، لیکن میں نے انہیں مہلت دی یہاں تک کہ وہ پڑھ کر فارغ ہو گئے، پھر میں نے ان کی چادر سمیت ان کا گریبان پکڑ کر انہیں کھینچا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورۃ الفرقان ایسے طریقہ پر پڑھتے سنا ہے جو اس طریقہ کے خلاف ہے جس طریقہ پر آپ نے مجھے یہ سورت پڑھائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”(اچھا) تم پڑھو!“، انہوں نے اسی طریقہ پر پڑھا جس پر میں نے ان کو پڑھتے ہوئے سنا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے“، پھر مجھ سے فرمایا: ”تم پڑھو!“ تو میں نے بھی پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے، یہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، ان میں سے جو آسان ہو تم اسی طرح پڑھو۔“[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 938]
938 ۔ اردو حاشیہ: ➊ «سَبْعَةِ أَحْرُفٍ» کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دین کے معاملے میں کس قدر سخت تھے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں کہ قریب تھا کہ میں جلد بازی کرتے ہوئے انہیں نماز ہی میں پکڑ لیتا۔ ➌ مجرم کو گلے سے پکڑنا جائز ہے جبکہ اس کے بھاگنے کا خدشہ ہو۔ ➍ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی کا بیان ہے کہ اللہ نے اس امت کی آسانی کے لیے قرآن کریم سات قرأت وں میں نازل فرمایا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 938
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1475
´قرآن مجید کے سات حرف پر نازل ہونے کا بیان۔` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، وہ اس طریقے سے ہٹ کر پڑھ رہے تھے جس طرح میں پڑھتا تھا حالانکہ مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا تھا تو قریب تھا کہ میں ان پر جلدی کر بیٹھوں ۱؎ لیکن میں نے انہیں مہلت دی اور پڑھنے دیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو گئے تو میں نے ان کی چادر پکڑ کر انہیں گھسیٹا اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورۃ الفرقان اس کے برعکس پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے سکھائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے فرمایا: ”تم پڑھو“، انہوں نے ویسے ہی پڑھا جیسے میں نے پڑھتے سنا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے“، پھر مجھ سے فرمایا: ”تم پڑھو“، میں نے بھی پڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی طرح نازل ہوئی ہے“، پھر فرمایا: ”قرآن مجید سات حرفوں ۲؎ پر نازل ہوا ہے، لہٰذا جس طرح آسان لگے پڑھ۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1475]
1475. اردو حاشیہ: ➊ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ہیجان اس غیرت کی بناء پر تھا۔ جو ان کے علم کے مطابق سنت نبویﷺ قراءت سن کر پیدا ہوئی تھی۔ ➋ [سبعة أحرف] سات حروف کی مختلف تاویلات ہیں۔ اور اس سلسلے میں علامہ سیوطی ؒ نے الاتقان میں تیس اقوال ذکر کیے ہیں۔ ان اقوال میں سے قریب تر قول اور علامہ شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب عون المعبود کی ترجیح کے مطابق یہ ہے کہ اس سے وہ لغات اوراسالیب نطق مراد ہیں۔ جو اہم سات قبائل عرب میں مروج تھے۔ ان لوگوں کےلئے اس دور میں کسی دوسرے قبیلے کی لغت اور اسلوب کو قبول کرلینا بعض اسباب کی وجہ سے ازحد مشکل تھا۔ وہ قبائل یہ ہیں۔ حجاز۔ ہذیل۔ ہوازن۔ یمن۔ طے۔ ثقیف اور بنی تمیم۔ اوائل خلافت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ان قراءتوں میں اور حروف میں قرآن پڑھا جاتا رہا۔ مگر جب مملکت اسلامیہ کی حدود از حد و سیع ہوگئیں۔ اور عجم کی کثیر تعداد اسلام میں داخل ہوگئیں۔ اور مختلف قراءتوں سے ان کے آپس میں الجھنے کے واقعات میں کثرت آگئی۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور دیگراصحاب حل وعقد کے مشورے سے ایک قراءت (قراءت قریش) پر مصاحف لکھوا کر مملکت میں پھیلا دیئے تاکہ امت قرآن میں اختلاف وافتراق سے محفوظ رہے بلاشبہ ان کا یہ احسان قیامت تک بھلایا نہیں جاسکتا۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه و أرضاہ۔ (تفصیل کےلئے دیکھئے۔ علوم القرآن)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1475