ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسلمانوں کی اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند آدمیوں کو مزدور کیا کہ یہ سب اس کا ایک کام صبح سے رات تک مقررہ اجرت پر کریں۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے یہ کام دوپہر تک کیا۔ پھر کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری اس مزدوری کی ضرورت نہیں ہے جو تم نے ہم سے طے کی ہے بلکہ جو کام ہم نے کر دیا وہ بھی غلط رہا۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اپنا کام پورا کر لو اور اپنی پوری مزدوری لے جاؤ، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر اس نے دوسرے مزدور لگائے اور ان سے کہا کہ باقی دن پورا کر لو تو میں تمہیں وہی مزدوری دوں گا جو پہلے مزدوروں سے طے کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کام شروع کیا، لیکن عصر کی نماز کا وقت آیا تو انہوں نے بھی یہی کیا کہ ہم نے جو تمہارا کام کر دیا ہے وہ بالکل بیکار رہا۔ وہ مزدوری بھی تم اپنے ہی پاس رکھو جو تم نے ہم سے طے کی تھی۔ اس شخص نے ان کو سمجھایا کہ اپنا باقی کام پورا کر لو۔ دن بھی اب تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے، لیکن وہ نہ مانے، آخر اس شخص نے دوسرے مزدور لگائے کہ یہ دن کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے اس میں یہ کام کر دیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے سورج غروب ہونے تک دن کے بقیہ حصہ میں کام پورا کیا اور پہلے اور دوسرے مزدوروں کی مزدوری بھی سب ان ہی کو ملی۔ تو مسلمانوں کی اور اس نور کی جس کو انہوں نے قبول کیا، یہی مثال ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2271]
مثل المسلمين واليهود والنصارى كمثل رجل استأجر قوما يعملون له عملا يوما إلى الليل على أجر معلوم فعملوا له إلى نصف النهار فقالوا لا حاجة لنا إلى أجرك الذي شرطت لنا وما عملنا باطل قال لهم لا تفعلوا أكملوا بقية عملكم وخذوا أجركم كاملا فأبوا وتركوا واستأجر أجي
مثل المسلمين واليهود والنصارى كمثل رجل استأجر قوما يعملون له عملا إلى الليل فعملوا إلى نصف النهار فقالوا لا حاجة لنا إلى أجرك فاستأجر آخرين قال أكملوا بقية يومكم ولكم الذي شرطت فعملوا حتى إذا كان حين صلاة العصر قالوا لك ما عملنا فاستأجر قوما فعملوا بقية ي
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2271
حدیث حاشیہ: یہ بظاہر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث کے خلاف ہے۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ اس نے صبح سے لے کر دوپہر تک کے لیے مزدور لگائے تھے۔ اور یہ درحقیقت دو الگ الگ قصے ہیں۔ لہٰذا باہمی طور پر دونوں حدیثوں میں کوئی تخالف نہیں ہے۔ ان احادیث میں یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی شرعی ذمہ داریو ں کو پورے طور پر ادا نہیں کیا۔ بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام چھوڑ کر بھاگ نکلے مگر مسلمانوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ قرآن مجید آج تک لفظ بہ لفظ موجود ہے اور جب تک اللہ چاہے گا موجود رہے گا۔ جس میں ایک شوشے کی بھی رد و بدل نہیں ہوئی اور قرآن مجید کے ساتھ اسوہ رسالت بھی پورے طور پر محفوظ ہے۔ اس طور پر کہ انبیاءسابقہ میں ایسی مثال ملنی ناممکن ہے کہ ان کی زندگی اور ان کی ہدایات کو بایں طور پر محفوظ رکھا گیا ہو۔ حدیث مذکور کے آخری الفاظ سے بعضوں نے نکالا کہ اس امت کی بقا ہزار برس سے زیادہ رہے گی اور الحمد للہ یہ امر اب پورا ہو رہا ہے کہ امت محمدیہ پر چودھویں صدی پوری ہونے والی ہے اور مسلمان دنیا میں آج بھی کروڑہا کی تعداد میں موجود ہیں۔ اس دنیا کی عمر کتنی ہے یا یہ کہ امت مسلمہ کتنی عمر لے کر آئی ہے، شریعت اسلامیہ نے ان باتوں کو علم الٰہی پر موقوف رکھا ہے۔ اتنا ضرور بتلایا گیا ہے کہ امت مسلمہ سے قبل جو بھی انسانی دور گزر چکا ہے وہ مدت کے لحاظ سے ایسا ہے جیسا کہ فجر سے عصر تک کا وقت ہے۔ اور امت مسلمہ کا دور ایسے وقت میں شروع ہورہا ہے گویا اب عصر سے دن کا باقی حصہ شروع ہورہاہے۔ اس لیے اس امت کو آخری امت اور اس دین کو آخری دین اور قرآن مجید کو آخری کتاب اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو آخری نبی و خاتم الرسل کہا گیا ہے۔ اب علم الٰہی میں دنیا کی عمر کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے آخر تک یہی دین آسمانی رہے گا۔ یہی شریعت آسمانی رہے گی اوراس کے خلاف جو بھی مدعی ہو وہ خواہ اسلام کا ہی دعوے دار کیوں نہ ہو وہ کذاب، مکار، دجال سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ ایسے دجاجلہ کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ نظر ثانی میں یہ نوٹ حرم نبوی کے نزدیک مدینہ المنورہ میں حوالہ قلم کیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2271
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2271
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں یہودو نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہودو نصاریٰ نے وحی الہٰی کا نور پھیلانے میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا نہیں کیا بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام اور مزدوری چھوڑ کر بھاگ نکلے، البتہ اہل اسلام نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور اسوۂ رسول دونوں محفوظ ہیں اور جب تک اللہ چاہے گا وہ دونوں محفوظ رہیں گے۔ (2) اس تمثیل اور حضرت ابن عمر ؓ کی بیان کردہ حدیث کی مثال میں کچھ فرق ہے۔ دراصل یہ دو الگ الگ واقعات ہیں کیونکہ ابن عمر ؓ کی روایت کے مطابق مالک نے صبح سے دوپہر تک یہودیوں کو اور دوپہر سے عصر تک عیسائیوں کو مزدور رکھا جبکہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ مالک نے انھیں دن بھر کے لیے ایک مقررہ اجرت پر کام کرنے کے لیے رکھا، اسی طرح اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودونصاریٰ نے کچھ مزدوری نہیں لی جبکہ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے ایک، ایک قیراط پر کام کیا اور اپنی اپنی مزدوری لے کر چلے گئے۔ (3) دراصل مزدوری چھوڑنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بعد میں آنے والے نبی کے زمانے کو پایا لیکن اسے ماننے سے انکار کردیا اور مزدوری لینے والے وہ لوگ ہیں جو بعد میں آنے والے نبی سے پہلے فوت ہوگئے اور سابقہ شریعت منسوخ ہونے سے پہلے تک زندہ رہے۔ (4) امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جز وقتی کام کےلیے مزدور رکھا جاسکتا ہے، ضروری نہیں کہ پورے دن کی مزدوری پر کسی کو رکھا جائے۔ ان مثالوں سے غرض یہ ہے کہ اس امت کے اعمال کا ثواب دوسری امتوں کے اعتبار سے زیادہ ہے اور دوسری مثال اس لیے ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے، ان کے پہلے دین میں کیے ہوئے اعمال بھی بے کار ہیں، انھیں ان کا کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2271
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:558
558. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: ”مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر رکھا کہ وہ رات رک کام کریں۔ انہوں نے دوپہر تک کام کیا اور کہنے لگے: ہمیں تیری مزدوری کی ضرورت نہیں، چنانچہ اس آدمی نے کچھ اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا اور کہا: تم دن کا بقیہ وقت کام کرو، تمہیں وہی مزدوری ملے گی جو میں نے طے کی تھی۔ انہوں نے کام کیا حتی کہ جب نماز عصر کا وقت ہوا تو کہنے لگے: تیرا کام تجھے مبارک ہو، ہم نے جو کام کیا ہے اس کی بھی مزدوری نہیں لیتے، چنانچہ اس نے اور لوگوں کو مزدوری پر رکھا جنہوں نے بقیہ دن کام کیا تاآنکہ سورج غروب ہو گیا۔ اس طرح وہ پہلے دونوں گروہوں کی مزدوری کے حق دار بن گئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:558]
حدیث حاشیہ: (1) گزشتہ احادیث کی طرح اس حدیث میں بھی امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر کا آخری وقت بتانا ہے، چنانچہ حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کام کی مدت غروب آفتاب ہے اور عصر سے مغرب تک کے وقت کو ایک وقت قرار دیا گیا ہے، نیز اس وقت کا کام نماز عصر ہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔ پھر اس حدیث میں جو مثال پیش کی گئی ہے، اس میں پہلے گروہ سے مراد اہل تورات، یعنی یہودی ہیں جنھیں موسوی شریعت کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا، پھر جب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائے تو ان کے پیچھے چلنے کا حکم دیا گیا، چنانچہ وہ اس سے بھاگ گئے۔ دوسرا گروہ اہل انجیل، یعنی عیسائیوں کا ہے جو عیسیٰ ؑ پر ایمان لائے اور اس وقت کی شریعت پر عمل پیرا رہے، لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو انھیں آپ پر ایمان لانے کا حکم ہوا، انھوں نے اس بات سے انکار کردیا۔ تیرے گروہ سے مراد ہم مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور قیامت تک آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا رہنے کےلیے تیار ہوئے۔ واضح رہے کہ ابن عمر اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کی احادیث میں دو الگ الگ واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ان میں اتنی بات تو مشترک ہے کہ تین تین فریق ہیں اور ہرفریق سے معاملہ الگ الگ ہے، لیکن ان میں حسب ذیل فرق ہے: ٭ پہلی روایت میں مدت اجارہ کی صراحت نہیں جبکہ دوسری رویت میں رات تک کی تصریح ہے۔ ٭پہلی روایت میں ہے کہ پہلے دونوں گروہ کام کرتے کرتے عاجز ہوگئے اور انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے اجرت لینے سے صاف انکار کردیا۔ ٭پہلی روایت میں یہودونصاریٰ کے ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو اپنے دور میں دین پر قائم رہے اور اس پر عمل کیا لیکن اس کے منسوخ ہونے سے پہلے فوت ہو گئے اور دوسری حدیث میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو دین میں تحریف کرنے کے مرتکب ہوئے اور اس سے بے زاری کا اظہارکیا۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 558