سورۃ قصص میں اللہ تعالیٰ نے (شعیب علیہ السلام کا قول یوں) بیان فرمایا ہے کہ «إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتى هاتين»”میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے کسی کا تم سے نکاح کر دوں“ آخر آیت «على ما نقول وكيل» تک۔ عربوں کے ہاں «يأجر فلانا» بول کر مراد ہوتا ہے، یعنی فلاں کو وہ مزدوری دیتا ہے۔ اسی لفظ سے مشتق تعزیت کے موقعہ پر یہ لفظ کہتے «أجرك الله.»(اللہ تجھ کو اس کا اجر عطا کرے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: Q2267]
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے سعید سے خبر دی۔ یہ دونوں حضرات (سعید بن جبیر سے اپنی روایتوں میں) ایک دوسرے سے کچھ زیادہ روایت کرتے ہیں۔ ابن جریج نے کہا میں نے یہ حدیث اوروں سے بھی سنی ہے۔ وہ بھی سعید بن جبیر سے نقل کرتے تھے کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اور ان سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں (موسیٰ اور خضر علیہما السلام) چلے۔ تو انہیں ایک گاؤں میں ایک دیوار ملی جو گرنے ہی والی تھی۔ سعید نے کہا خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا اور ہاتھ اٹھایا، وہ دیوار سیدھی ہو گئی۔ یعلیٰ نے کہا میرا خیال ہے کہ سعید نے کہا، خضر علیہ السلام نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا، اور وہ سیدھی ہو گئی، تب موسیٰ علیہ السلام بولے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سعید نے کہا کہ (موسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ) کوئی ایسی چیز مزدوری میں (آپ کو لینی چاہئیے تھی) جسے ہم کھا سکتے (کیونکہ بستی والوں نے ان کو کھانا نہیں کھلایا تھا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِجَارَةِ/حدیث: 2267]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2267
حدیث حاشیہ: حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کا یہ واقعہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔ اسی جگہ یہ دیوار کا واقعہ بھی ثابت ہے جو گرنے ہی والی تھی کہ حضرت خضر ؑ نے اس کو درست کر دیا۔ اسی سے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ ؑ کا خیال تھا کہ حضرت خضر ؑ کو اس خدمت پر گاؤں والو ں سے مزدوری لینی چاہئے تھی کیوں کہ گاؤں والوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو کھانا نہیں کھلایا تھا حضرت خضر ؑ نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے الہام الٰہی سے معلوم کر لیا تھا کہ یہ دیوار یتیم بچوں کی ہے اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن ہے۔ اس لیے اس کا سیدھا کرنا ضروری ہوا تاکہ یتیموں کی امداد بایں طور پر ہو سکے اور ان کا خزانہ ظاہر نہ ہو کہ لوگ لوٹ کر لے جائیں۔ آج 3صفر کو محترم حاجی عبدالرحمن سندی کے مکان واقع مجیدی مدینہ منور میں یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ اللہ پاک محترم کو دونوں جہاں کی برکتیں عطا کرے۔ بہت ہی نیک مخلص اور کتاب و سنت کے دلدادہ ذی علم بزرگ ہیں۔ جزاہ اللہ خیرا في الدارین۔ امید ہے کہ قارئین بھی ان کے لیے دعائے خیر کریں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2267
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2267
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں بیان کیا تھا کہ ایسا اجارہ جائز ہے جس میں وقت کی تعیین تو ہو لیکن عمل کی وضاحت نہ ہو۔ اسی طرح اگر عمل کی تعیین ہو لیکن مدت مقرر نہ ہوتو ایسا جارہ بھی جائز ہے، شرعاً اور عرفاً اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا اجارہ ہے۔ امام بخاری کا میلان اس کے جواز کی طرف ہے، اس کے لیے انھوں نے ایک قرآنی واقعے سے استدلال کیا ہے کہ عمل کاتعیین عقد اجارہ کے لیے ضروری اور شرط نہیں بلکہ الفاظ کے بجائے مقاصد کا لحاظ رکھا جائے گا۔ وقت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ (2) حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کا واقعہ قرآن میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، اس میں دیوار کو سیدھا کردینے کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت کیا ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کا خیال تھا کہ آپ کو گاؤں والوں سے اس قسم کے کام کی اجرت لینی چاہیے تھی کیونکہ انھوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں کھانا نہیں کھلایا۔ بہر حال اس قسم کا اجارہ جائز ہے۔ شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری کے نزدیک عقد اجارہ تعیینِ عمل سے منعقد ہوجاتا ہے جیسا کہ تعیین مدت سے اس کا عقد جائز ہے۔ (فتح الباري: 563/4) (3) واضح رہے کہ سابقہ شرائع ہمارے لیے حجت ہیں بشرطیکہ ان کا کوئی قاعدہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ مذکورہ استدلال کی بنیاد بھی اس اصول پر ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2267
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2728
2728. حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت موسیٰ رسول اللہ ﷺ (ہی حضرت خضر ؑ کے ساتھی ہیں)، پھر آپ نے ان کے متعلق پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت خضر ؑ نےکہا: (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:)کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے؟“ حضرت موسیٰ ؑ کا پہلا اعتراض بھول چوک کی بنا پر تھا، دوسرا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر چنانچہ فرمایا کہ جو بات میں نے بھول چوک کی بنا پر کہی اس کے متعلق آپ میری گرفت نہ کریں، اور مجھ پر میرے کام میں تنگی نہ ڈالیں۔ یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس بندے(خضر ؑ)نے اسے قتل کردیا۔ پھر دونوں چل پڑے تو اس بستی میں ایک دیوار گرنے والی تھی جسے اس (خضر ؑ)نے سیدھا کر دیا۔ ”حضرت ابن عباس ؓ نے وَرَاءَهُم مَّلِكٌ کی بجائے إمامهم مالك پڑھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2728]
حدیث حاشیہ: کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔ حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان زبانی شرطیں ہوئیں، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ (امام بخاری اور کثیر علماءکے نزدیک حضرت خضر ؑ وفات پاچکے ہیں۔ ) واللہ أعلم بالصواب وإلیه المرجع والمآب
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2728
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2728
2728. حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت موسیٰ رسول اللہ ﷺ (ہی حضرت خضر ؑ کے ساتھی ہیں)، پھر آپ نے ان کے متعلق پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت خضر ؑ نےکہا: (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:)کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے؟“ حضرت موسیٰ ؑ کا پہلا اعتراض بھول چوک کی بنا پر تھا، دوسرا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر چنانچہ فرمایا کہ جو بات میں نے بھول چوک کی بنا پر کہی اس کے متعلق آپ میری گرفت نہ کریں، اور مجھ پر میرے کام میں تنگی نہ ڈالیں۔ یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس بندے(خضر ؑ)نے اسے قتل کردیا۔ پھر دونوں چل پڑے تو اس بستی میں ایک دیوار گرنے والی تھی جسے اس (خضر ؑ)نے سیدھا کر دیا۔ ”حضرت ابن عباس ؓ نے وَرَاءَهُم مَّلِكٌ کی بجائے إمامهم مالك پڑھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2728]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت موسیٰ ؑ کا دوسرا اعتراض شرط کے طور پر تھا کہ اگر میں نے اس کے بعد اعتراض کیا تو آپ مجھے جدا کر دیں۔ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کے درمیان یہ شرط واقع ہوئی۔ اسے تحریر نہیں کیا گیا اور نہ اس کے متعلق کوئی گواہ ہی بنائے گئے بلکہ زبانی شرط طے پائی جس کا حضرت موسیٰ ؑ نے التزام کیا اور جب شرط کی خلاف ورزی ہوئی تو حضرت خضر ؑ نے فرمایا: اب میرا اور تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ (عمدة القاري: 625/9)(2) پہلی بار موسیٰ ؑ نے بھول جانے کا عذر کیا جو یہ تھا: ”مجھ سے جو بھول ہو گئی اس پر میرا مؤاخذہ نہ کرو۔ “(الکھف73: 18) دوسری بار انہوں نے شرط لگائی اور کہا: ”اس کے بعد اگر میں نے کوئی بات پوچھی تو پھر مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔ “(الکھف76: 18) تیسری بار قصداً فرمایا: ”اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کی اجرت لے سکتے تھے۔ “(الکھف77: 18) اس روایت میں وہ آیات ذکر کی ہیں جو حصول مقصود کے لیے ضروری تھیں اگرچہ ان میں ترتیب نہیں پائی جاتی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2728
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6672
6672. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو درج ذیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سنا: ”اس چیز کے متعلق مجھ سے مؤاخذہ نہ کرنا جو مجھ سے بھول کی بنا پر سر زد ہو، نیز میرے کام میں مجھ پر تنگی نہ کرنا۔“ آپ ﷺ نےفرمایا: ”حضرت موسیٰ ؑ سے پہلی مخالفت بھولنے کے باعث تھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6672]
حدیث حاشیہ: حدیث بالا کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سہو و نسیان کو قابل مؤاخذہ نہ ہونے کے متعلق عذر خواہی کی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے بھی اس نسیان کو معاف کر دیا۔ نسیان واقعی قابل معافی ہوتا ہے، اس لیے اگر کوئی قسم کھاتا ہے اور سہو و نسیان کی وجہ سے اسے توڑ بیٹھتا ہے تو یہ قابل معافی ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں اور نہ اس پر کوئی مؤاخذہ اور گناہ ہی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6672